”را“۔ قسط نمبر2

جمعہ 15 اپریل 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

پچھلے کالم میں بات ہوئی تھی پاکستان میں ”را“ کی جانب سے جاسوسی کی غرض اور دہشت گردی کے واقعات سٹیج کرنے کے لئے بھیجے گئے ایجنٹوں اور جاسوسوں کی۔ اب دیکھئے کہ اپنے قیام سے اب تک ”را“نے پاکستان کو کیسے اور کتنا نقصان پہنچایا۔
1971کی جنگ کے حالات پیدا کرنے میں اگرچہ پاکستانی سیاست دانوں اور ڈکٹیٹروں کی اختیار کردی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہے‘ لیکن ”را“ نے اہم کردار ادا کیا‘ بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ بھارت نے ”را“ قائم ہی مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے کی لئے کی تھی۔

موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس جون میں بنگلہ دیش کے دو روزہ دورے کے دوران ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء و اساتذہ سے خطاب کے دوران واضح طور پر کہا کہ بنگلہ دیش کا قیام بھارت کی بھی خواہش تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس میں ”را“ کے کردار کا بھی حوالہ دیا۔ ”را“ کے ایک سابق آفیسر آر کے یادیو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ‘ ”را نے 1971کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔

دسمبر 1970کے الیکشن سے پہلے پاکستان کے کچھ داخلی ذرائع کی جانب سے واضح اشارہ دیا گیا تھاکہ اگر شیخ مجیب الرحمٰن نے کامیابی حاصل کی تو اقتدار اس کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس مقصد کے تحت فوج کو ہوائی رستے سے مشرقی پاکستان منتقل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ 30جنوری1971کو سری نگر سے گنگا نام کا ایک ہوائی جہاز اغوا کر کے لاہور لایا گیا‘ جہاں تمام مسافروں کو تو رہا کر دیا گیا لیکن جہاز کو نذر آتش کر دیا گیا۔

اس کے بعد بھارت نے اپنی فضا سے پاکستانی جہازوں کے سفر پر پابندی لگا دی‘ جس کا مقصد فوج کی مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان منتقلی روکنا تھا۔ جہاں تک جلائے گئے جہاز کا تعلق ہے تو وہ اپنی مدت پوری کر چکا تھا اور جلد ہی ڈمپ کیا جانے والا تھا “۔
1980کی دہائی کے وسط میں بھارت نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے را کے اندر Counterintelligence Team-X (CIT-X) اور Counterintelligence Team-J (CIT-J کے نام سے دو گروپ تشکیل دئیے۔

یہ گروپ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے اور خالصتان تحریک کو ناکام بنانے کے لئے کام کرتے رہے۔
یہ 1981میں عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے بھارتی خفیہ ایجنسی”را“ کے ساتھ مل کر اسی طرح کا حملہ کہوٹہ میں پاکستان کے ایٹمی تنصیبات پر کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا ۔ مبینہ طور پر اسرائیل نے مواصلاتی سیاروں سے حاصل ہونے والی تصاویر اور انٹیلی جنس معلومات کی بنا پرالنقب صحرائے میں باقاعدہ کہوٹہ طرز کا سیٹ اپ تیار کیا اور اس کو تباہ کرنے کے لئے خصوصی طور پر ایف 15اور ایف 16طیارے استعمال کئے۔

”دی ایشین ایج“ کے جرنلسٹوں ایڈرین لیوی اور کیتھرین سکاٹ کلارک نے اپنی کتاب `Deception Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy`میں لکھا ہے کہ اسرائیلی ایئر فورس 1980کی دہائی کے وسط میں کہوٹہ پر بھارتی گجرات کے جام نگر ایئر فیلڈ سے حملہ آور ہونا چاہتی۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ مارچ1984میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اسرائیل کی نگرانی میں اس آپریشن کی اجازت دے دی تھی۔

ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل براہ راست حملہ کرنا چاہتا تھا۔بعض رپورٹوں میں کہا گیا کہ اسرائیل نے ایسا حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ‘ لیکن پھر اس نے جانا کہ پاکستانی ایئر فورس پوری طرح الرٹ ہے تو تکمیل سے پہلے ہی اسے ختم کر دیاگیا۔ اسی طرح مئی1988میں بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی ایسی رپورٹیں سامنے آئیں کہ پاکستان اگر جوابی ایٹمی دھماکے نہ کر دیتا تو بھارت پاکستان پر حملہ آور ہونے والا تھا۔


کچھ عرصہ پہلے ایک انگریزی معاصرمیں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ قندھار(افغانستان) میں واقع بھارتی قونصلیٹ نے 100سے زیاددہ بلوچیوں کو بھارت بھیجا ہے ‘ جہاں انہیں سنائپر شوٹنگ‘ جی پی ایس جیسے آلات اور وائر لیس کو چلانے اور انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کے طریقے سکھائے جائیں گے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ تربیت کے بعد ان لوگوں کو بلوچستان اور سندھ میں مختلف اہداف مختص کئے جائیں گے۔

اب ہم بلوچستان اور سندھ کے حالات دیکھتے ہیں اور چندروز پہلے گرفتار کئے گئے ”را“ کے حاضر سروس ایجنٹ کی گرفتاری کے معاملے کو سامنے رکھیں تو اس خبر کی صداقت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ بھارت پاکستان میں نہ صرف تخریب کاری کرا رہا ہے اور دہشت گردی کو بڑھا رہا ہے بلکہ ممکنہ طور پر بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے (خدانخواستہ) الگ کرنے کی سازشوں پر بھی عمل پیرا ہے۔


”را“ نے 1983میں سندھ میں پھوٹ پڑنے والے لسانی فسادات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے ایجنٹوں کو سندھ کے مختلف علاقوں میں پھیلا دیا۔ ان ایجنٹوں نے سندھ میں شدت پسندی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ”را“ کی جانب سے چلی گئی اس چال کے اثرات سندھی معاشرے میں آج تک محسوس کئے جاتے ہیں اور تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ” را“ نے China-Pakistan Economic Corridor (CPEC) کو ناکام بنانے کے لئے ایک الگ برانچ قائم کر لی ہے‘ جس کی نگرانی ایجنسی کے سربراہ راجندر کھنہ خود کر رہے ہیں اور اس حوالے سے آپریشنوں کے لئے 300ملین ڈالر مختص کر دئے گئے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی تیکنیکی اور فوجی سپورٹ کو کم یا ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ایم کیو ایم کے را سے تعلقات کے حوالے سے تفصیلات تو اب روزانہ کی بنیاد پر سامنے آ رہی ہیں کہ کس طرح را اس کے کارکنوں کو تربیت اور قیادت کو فنڈز فراہم کرتی رہی ہے۔ فیڈریشن آف امریکن سائیٹسٹس کے مطابق ”را“ کے 35ہزار ایجنٹ پاکستان میں موجود ہیں ۔

ان میں سے 12000سندھ میں‘ 10000 پنجاب میں‘ 8000خیبر پختونخوا میں اور 5000بلوچستان میں سرگرم ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ”را “ ہمارے میں کس قدرسرگرم ہے۔
22مئی 2011کو کراچی میں واقع پی این ایس مہران ایئر بیس پر حملہ کیا گیا‘ جس میں 11نیول افسروں سمیت 18فوجی افراد شہیدہوئے۔ 4دہشت گرد مارے گئے‘ 4کو گرفتار کر لیا گیا اور 2فرار ہو گئے۔

اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی لیکن کہا جاتا ہے کہ تحریک طالبان کو را کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔
8جون 2014کو دہشت گردوں نے کراچی ایئر پورٹ پر حملہ کیا‘ جس میں 26ٓافراد جاں بحق ہو گئے جبکہ ٹرمینل کو بھی نقصان پہنچا۔اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان اور ازبکستان موومنٹ نے قبول کی لیکن کہا جاتا ہے کہ ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کو اس حملے کے لئے فنڈنگ بھارت نے کی۔


امسال جنوری میں چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر مسلح حملہ کیا گیا۔ سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں قرار دیا کہ اس حملے میں ”را“ ملوث ہے۔
”را“ کی جانب سے ڈاکٹر اللہ نذر کی سربراہی میں تخریب کاری میں مصروف بلوچستان لبریشن آرمی کی فنڈنگ کا معاملہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ حال ہی میں گرفتار ہونے والے کلبھوشن یادیو کی جانب سے کئے گئے ابتدائی انکشافات سے بھی یہ ثابت ہوچکاہے کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی بلوچستان میں قوم پرستوں کو فنڈاور ٹریننگ فراہم کر رہی ہے۔


”را“ کی جانب سے ایم کیو ایم کو تخریب کاری کے لئے فنڈز فراہم کرنے کے انکشافات کو تو ابھی چند ہفتے ہی ہوئے ہیں۔ جب ان معاملات کی تحقیقات کی جائے گی تو صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان مکیں ”را“ کے خفیہ اور اعلانیہ ایجنٹوں کا خاتمہ کون کرے گا اور”را“ کو مزید کاروائیوں سے روکنے کی کیا تدابیر اختیار کی جائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :