’را‘ نوازیاں اور اپنی کارستانیاں

جمعہ 15 اپریل 2016

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ یہ جب بھی حکومت میں آتے ہیں ایک ان کی گردنوں میں سریا آ جاتا ہے ۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جو ہر ایک کے لیے میسر اور اپروچ میں ہونے والے خود کو الگ مخلوق سمجھنے لگتے ہیں اور صرف اپنے مطلب اور فائدے کے لیے ہی میل ملاقات اور تعلق رکھتے ہیں ۔ اقتدار اور اختیارات پانچ سے سات افراد کے درمیان ہی گردش کرتاہے ۔

یہ اقتدار کا نشہ، گردن میں سریا انہیں ایک سے زائد مرتبہ عبرت ناک نتائج دکھا چکاہے مگر اس کے باوجود میاں صاحبان اور ان کے مشیران بھول جاتے ہیں کہ یہ چھڑی کسی وقت بھی الٹی گھوم سکتی ہے اور چل بھی جاتی ہے ۔ موجودہ اقتدار ملنے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ چلنے کا عزم کیا گیا ، عمران خان سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کیا گیا ۔

(جاری ہے)

مگر جوں ہی اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھا اپنی پرانی روش کو پھر سے شروع کر دیا گیا ، عوام سے رابطے نہ ہونے کے برابر ۔ عمران کا دھرنا سو دن سے زائد کا رہا طاہر القادری صاحب نے بھی ٹف ٹائم دیا تو اس دوران انہیں فوراًاپوزیشن اور سیاسی جماعتیں یاد آئی اور جمہوریت کا آلاپ شروع کر دیا گیا ۔ مگر جوں ہی قدرے سنبھلے تو اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔

دیگر سیاسی جماعتوں سے یا قائدین سے تو اختلافات یا ناراضگیاں ہو سکتی ہیں ، یہاں حال یہ ہے کہ کابینہ کے اندر وزرا ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف سازشیں بلکہ سر عام میڈیا میں آ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری بات چیت نہیں ہمارے تعلقات خراب ہیں ۔ ایسے حالات میں کیا حکومت چلے گی اور عوام کی کیا فلاح ہو گی ۔یہ ہے میاں اینڈ کمپنی کا اندر کا حال بلکہ بے حال ۔

میاں شہباز شریف فیملی اور نواز شرف فیملی کے آپس میں بھی حالات کچھ بہت اچھے نہیں ۔ ایک طرف حمزہ کو پروموٹ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف مریم نواز کو۔ جہاں حالات ایسے ہوں وہاں ملک پر حکومت تو کیا ایک گھر کا نظام بھی چلانا مشکل ہوتا ہے ۔
اس تمام صورتحال کو ذہن میں رکھنے کے بعد اگر ملکی حالات کا جائزہ لیا جا ئے تو اس وقت ملک میں حکمرانی صرف پاک آرمی کی وجہ سے چل رہی ہے ۔

دہشت گردی کا ناسور اپنے آخری مراحل میں داخل ہوا ہے تو آرمی چیف کے بولڈ سٹپ کی وجہ سے ورنہ مصلحتوں کا شکار جمہوری حکومتیں جس طرح سے چلتی رہی ویسے ہی یہ بھی اپنا وقت پورا کرتی اور گزر جاتی ۔طالبان کے پیچھے کون کون سی طاقتیں کارفرما رہی ہیں ان کو بے نقاب آرمی کے آپریشن سے ہی ممکن ہوا ۔ کراچی کا ICUسے باہر آنا ، بلوچستان کو واپس پاکستان کا حصہ بنانا ۔

گودار پورٹ جیسے اقدامات شروع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ مگر اسے ممکن بنایا آرمی چیف کے پختہ ارادوں نے ۔ جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو مفادات کے لیے استعمال کیا گیا اور ملک کا سودا کیا جاتا رہا ۔ جس میں سابق آرمی چیف پرویز مشرف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں ۔الطاف حسین کی را سے فنڈنگ کا ذکر ہر دور میں ہوتا رہا مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں ۔

ملک کا سودا کرنے والوں کو اقتدار کی خاطر ساتھ ملایا جا تا رہا اور بھارتی جاسوسوں پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر بٹھایا گیا صرف اپنی کرسی اور اقتدار کی خاطر ’را‘ کے ایجنٹ اس سے قبل بھی گرفتار ہوتے رہے ۔ صرف ’را‘ نہیں بلکہ موساد، سی آئی اے، ایم آئی6کے لوگ بھی پکڑے جاتے رہے اور ہمارے سوداگر حکمران سودا کر کے انہیں چھوڑتے رہے ۔

اب پاک آرمی کے سپاہ سالار نے جب پوری دنیا کو بتا دیا کہ اب ایسا نہیں چلے گا ۔ یہاں غیر کا کوئی ایجنڈا نہیں چلے گا ، تو ملک میں بیٹھے ہوئے اور ملک سے باہر مہرے حرکت میں آگے ہیں ۔الطاف حسین کی گردن پر ہاتھ آیا تو انڈیا سمیت دیگر پاکستان دشمنوں نے نت نئی چالیں چلنا شروع کی ہیں ۔ ایسے میں سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ جمہوری حکومت سے متوقع تھا مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔

بلوچستان سے کلبھوشن پکڑا گیا تو میاں نواز شریف کے بولنے کی بجائے آرمی چیف اور ISPRکو بولنا پڑا۔ پھر یہ ’را‘ میاں صاحب کے اپنے گھر سے بھی جا نکلی تو اس پر بھی یہاں سکوت اور خاموشی ہی رہی ۔ الطاف حسین سے لیکر کل کلبھوشن تک کتنے ہی ایجنٹ آئے اور یہاں اپنے کالے کرتوتوں سے پاک سرزمین کو ناپاک کرتے رہے ۔ ایسے میں اگر ملک کی حرمت کو بچانے کے لیے ایک مرد حُر نے کمر باندھ لی ہے تو وزیر اعظم صاحب آپ بجائے استعمال ہونے کے اور اپنی دوستیاں نبھانے کے ملک کو عزیز ترجانتے اور کھل اقدامات کا اعلان کرتے۔


میاں نواز شریف اور ان کے رفقاء جو بجائے اپنی حکومت کو بچانے کے اس درخت کا تنا ہی کاٹ رہے ہیں جس کی شاخوں پر سوار ہیں ۔پانامہ لیکس آج کل پور ی دنیا کی طرح پاکستان کے میڈیا کے اعصاب پر سوار ہے ۔پانامہ لیکس دراصل موزیک فورنزیکا ایک لافرم کا ریکارڈ ہے جس میں دنیا بھر کے امرا ء جائز یا نا جائز طریقے سے اپنی کمائی ہوئی رقم کو ایسے بے نامی کمپنیوں اور اکاؤئنٹ میں رکھتے ہیں جہاں انہیں ٹیکس نہیں دینا پڑتا Mossack Fonseceمیں سے جو ریکارڈ چوری ہوا یا خود کرایاگیا اس میں 1977سے لیکر 2015تک کا ریکارڈ ہے۔

اس میں 200سے زائد ممالک کے افراد شامل ہیں جن کے نام بے نام فہرستوں میں شامل ہیں ، یہ تقریباً12ملین افراد ریکارڈ ہے ۔ اور ابھی تک جن اہم شخصیات کے نام افشاء ہوئے ان میں 12سابقہ اور حالیہ سربراہان مملکت یا ان کے خاندان ہیں ۔ان ممالک میں سعودی عرب ، روس ، چائنہ ، بھارت سمیت یوکرائن ، انگلینڈ ، آئس لینڈ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان شامل ہے ۔


اس بے نامی فہرست میں 220سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ۔ جن میں سیاسی خاندانوں میں ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بچے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے رشتہ دار (ثمینہ درانی ، الیاس معراج )بینظیر بھٹو ، زرداری صاحب کے قریبی دوست حسن علی جعفری ، محترم رحمن ملک ، عثمان سیف اللہ و خاندان ، چوہدری شجاعت کے رشتہ دار (زین سکھیرا وغیرہ ) عمران خان کے قائم کردہ شوکت خانم کا نام اس لیکس میں تو نہیں آیا مگر اس سے قبل آف شو ر کمپنیوں میں پیسے لگانے کے حوالے سے اور واپس لینے کے حوالے سے عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں۔

اسی طرح کاروباری اشخاص میں ملک ریاض، اعظم سلطان ، عقیل حسین،عبدالرشید سورتی ، خواجہ اقبال ، محمود احمد ، صدرالدین ہاشوانی ، شہباز یٰسین ، عبداللہ فیملی، گل محمد ، شاہید نذیر ، ذوالفقار لاکھانی اور ذوالفقار پراچہ وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔جن چند ججز کے نام آئیں ہیں ان میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان اور ملک عبدالقیوم شامل ہیں جبکہ اس گنگا میں میڈیا ٹائیکون میر شکیل الرحمن کا نام بھی شامل ہے ۔

یوں پاکستانی اشرافیہ جن میں ہر شعبے کے افراد شامل ہیں نے اس گنگا میں شنان کر رکھا ہے ۔دنیا پر حکمرانی کرنے والے امریکہ کے سرمایہ داروں نے 60فیصد سرمایہ ان آف شور کمپنیوں میں لگا رکھا ہے ۔ دنیا میں 80سے زائد جزیرے اور ممالک ہیں جہاں یہ دھندہ ہوتا ہے ۔ مگر کسی کا نام ابھی اس فہرست میں شامل نہیں۔دنیا کو سبق پڑھانے والے ٹرانسپیپرنی انٹرنیشنل جیسے عالمی ادارے کا نام بھی اس پانامہ لیکس میں شامل ہے ۔

کئی ممالک میں احتجاج جاری ہے اور ایسے سربراہان جن کے نام اس بے نام لیکس میں آئے ہیں خود کو اقتدار سے الگ ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔
پاکستان میں چونکہ بھیڑ چال ہوتی ہے جن دیگر ممالک میں شور شرابہ دیکھا تو یہاں بھی وزیر اعظم کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف حکومتی صفوں کی صورتحال آپ کے سامنے پیش کی ہے کہ یہاں آپسی جھگڑے ہی اتنے ہیں کہ کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہ تھی ،ایسے میں وزیر اعظم کے مشیروں نے انہیں فوراً خطاب فرمانے کا مشورہ دے کر جلتی میں تیل کا کام کیا اور عمران خان نے جوابی خطاب فر ما دیا ۔

جس کے بعد پیپلز پارٹی جو قدرے خاموش تھی بھی میدان میں آ گئی اور اب مشترکہ اپوزیشن کی تیاری زوروں پر ہیں ۔ کہیں کمیشن ، کہیں انکوائری اور کہیں استعفیٰ کی باتیں چل رہی ہیں ، ایسے میں میاں نواز شریف کی صحت کا اچانک خراب ہونا ، آصف علی زرداری کو لندن میں موجود ہونا ، حسین نواز کا سعودی حکام سے ملاقات ، عمران ، نثار سمیت تمام راہنماؤں کو لندن حاضری دینا کسی تبدیلی کا تو نہیں بلکہ سودے بازی کا پیش خیمہ ضرور ہے ۔


بھارت کا پاک چائنہ کوریڈورکو نقصان پہنچانے کے عزائم ،افغانستان اورایران میں را کے مراکز ، آرمی چیف کا پاک چائنہ کوریڈور پربرائے راست بیانات اور ذاتی دلچسپی وغیرہ وغیرہ۔اس میں کوئی شق نہیں کہ آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں جسے رب تعالیٰ نے بنا کسی امتحان اور کوشش کے دیا ہے ۔مگر آج آپ کو جو مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہیں ان کا ایک ہی حل ہے ملک سے مخلص ہو جائیں اور بجائے اپنی افواج سے سینگ پھسانے کے دشمن کے خلاف اکھٹے ہو جائیں ۔ورگرنہ یہاں کبھی دھرنا ، کبھی لیکس، کبھی بل ، کبھی لوڈ شیڈنگ یہ آپ کی حکومت کو تو لے ڈوبیں گے ۔یہ تمام صورتحال میاں نواز شریف کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ سیاسی صحت پر بھی منفی اثرات ڈالتے نظر آرہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :