سیکولرزم کی بحث، چند سوالات ! ۔ قسط نمبر 1

منگل 19 اپریل 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر دو افراد آپس میں جھگڑ رہے تھے ،جیمس کا دعویٰ تھا کہ ولیم بندر کی اولاد ہے ،ولیم اپنی اس توہین پر چیخ رہا تھا ،تھوڑی دیر میں وہاں کافی لوگ جمع ہو گئے ، سب نے مل کر جیمس کو سمجھایا کہ تم غلط کہہ رہے ہو لیکن وہ نہ مانا ، لوگوں نے مطالبہ کیا کہ تمہارے اس دعوے کی دلیل کیا ہے ؟ وہ بولا ” میں نے ڈارون کے نظریہء ارتقاء کو پڑھا ہے اور میں ڈارون کو اپنا لیڈر مانتا ہوں چونکہ ڈارون نے کہا ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے لہذا شخص ولیم بھی بندر کی اولاد ہے “ ۔

آپ ایک اور مثال دیکھیں ،جہاز میں ایک دہریہ اور مسلمان ساتھ بیٹھے تھے دونوں میں بحث چھڑ گئی ، دہریے کا دعویٰ تھا کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آ ئی ہے اور آج بھی یہ خود کار نظام کے تحت چل رہی ہے ، اور لوگ بھی بحث میں شریک ہو گئے ، لوگوں نے اس سے دلیل کا مطالبہ کیا تو بولا ” میں دنیا کے ذہین ترین سائنس دان رچرڈ ڈکنس کے نظریہ تخلیق کائنات کا قائل ہوں ،چونکہ ڈکنس نے کہا ہے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے لہذا میری دلیل یہی ہے“ ۔

(جاری ہے)

یہ ہے خلاصہ اس سیکولر سوچ کا جو قائد اعظم کی تقاریر کی بنا ء پر پاکستان کے آئین اور دستور کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں ، جن کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ قائد اعظم کی تقاریر سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ وہ ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے، ملک کے نامور دانشور اور کالم نگار اس پر تفصیل سے بات کر چکے ہیں اور اگر باالفرض یہ مان بھی لیا جائے تو بحثیت مسلم کیا قائد اعظم کی رائے ہمارے لیے حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے ؟ میرے ناقص خیال میں ایک مسلم سماج میں حرف آخر کا درجہ صرف قرآن و سنت کو ہی حاصل ہے اور وہیں سے ہمیں بہتر راہنمائی مل سکتی ہے ۔

ریاست کے مذہبی ہونے اور ریاست و مذہب کے باہمی تعلق کے لیے قرآن وحدیث میں واضح راہنمائی موجود ہے اس لیے آج انہی دو ماخذوں سے راہنمائی لینے اور انہیں حرف آخر کا درجہ دینے میں ہی ہم سب کی بھلائی اور اسی میں خیر ہے ورنہ کل کو کوئی دانشور اٹھ کر دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں دن میں پانچ نمازیں نہیں پڑھا کروں گا کیونکہ قائد اعظم بھی اکثر پانچ نمازیں نہیں پڑھتے تھے۔


گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام اور سیکولرزم کی بحث بار بار دہرائی جا رہی ہے ، سوشل میڈیا پر تو ایک طوفان برپا ہے ، ایک ہی بات کو بار بار لہجہ بدل کر دہرا یاجا رہا ہے اور اس سارے منظر نامے میں قائد اعظم کی شخصیت کو اس قدر پیچیدہ بنا دیاگیا ہے کہ ایک عام قاری سمجھنے سے قاصر ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اور کیا قائد اعظم کی رائے بحیثیت مسلم سماج ہمارے لیے حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے ۔

سیکولرزم پر گفتگو سے پہلے چند بنیادی امورکا طے کرنا ضروری ہے ۔اگر کسی چیز کی کوئی واضح بنیاد نہ ہو تو اس پر کھڑی ہونے والی عمارت مضبوط نہیں رہ سکتی اس لئے با مقصد اور نتیجہ خیز گفتگو کے لیئے بنیاد کا طے ہونا ضروری ہے،جب تک اصول طے نہیں ہوجاتے اس وقت تک فروعی مسائل پر گفتگو فضول اور لایعنی ہو گی۔کیونکہ اگر ایک شخص اللہ کے وجود سے ہی انکار ی ہے تو آپ اس سے جنت و جہنم اور بعث بعد الموت کی بحث نہیں کر سکتے ۔

اگر ایک انسان مذہب کی ضرورت واہمیت کا ہی منکر ہے تو آپ اس سے عبادات کی بحث کس بنیاد پر کریں گے؟ اگر ایک انسان مادیت کا پرستار اور مذہب کا سرے سے منکر ہے تو اس سے فروعی مسائل پر گفتگو مضحکہ خیز ہی ہو سکتی ہے۔ فروعی مسائل سے پہلے بنیادی عقائد و نظریات کا تعین بحث کے نتیجہ خیز ہونے کیلئے ضروری ہے اور اس کی دلیل ہمیں اسوة رسول ﷺسے بھی ملتی ہے کہ جب آپ نے حضرت معاذکو یمن کی طرف بھیجا تھا تو آپ نے ان سے کہا تھا کہ معاذ پہلے لوگوں کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

اگر وہ اس بات کو دل وجان سے تسلیم کر لیں تو کہنا کہ اللہ نے تم میں سے مالداروں پر زکوتہ فرض کی ہے وغیرہ۔اس حدیث مبارکہ سے منطقی طور پر یہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہ ثانوی اور فروعی نوعیت کے مسائل زیر بحث لانے سے پہلے بنیادی عقائد و نظریات کا پختہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس لیے سیکولرزم کا دفاع اور سیکولرزم کی بات کرنے والے دانشور وں سے گزارش ہے کہ پہلے وہ اپنے بنیادی عقائد و نظریات واضح کر یں تا کہ بات آگے بڑھائی جا سکے ۔

ایک طرف وہ اسلامی شریعت کا کھلے بندو ں مذاق اڑاتے ہیں ،اسے فرسودہ روایات کا حامل دین قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی مسلمانیت کا دم بھرتے نھیں تھکتے ۔ اور اگر ان کے سیکولرزم کو لادینیت کا نام دے دیا جائے تو یہ بات بھی انہیں ہضم نہیں ہوتی اور اس بات پر بھی وہ چیخ اٹھتے ہیں۔
پہلے آپ یہ واضح کریں کہ کیا آپ اللہ کی وحدانیت اور اس کے مختارکل ہو نے پر یقین رکہتے ہیں،کتاب اللہ کے وحی منزل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے،رسول اللہ کے آخری نبی ہونے اور ختم نبوت پر آپ کا ایمان کس حد تک ہے،کیا آپ اس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ قرآن میں بیان کردہ احکام ہر دور کے لیئے قابل عمل ہیں،کیا آپ دین اسلام کو ایک آفاقی اور قیامت تک رہنے والا دین مانتے ہیں،آپ کے خیال میں اکسویں صدی میں مذہب اور دین کی ضرورت باقی ہے یا نہیں اورآپ دین اور سیاست کے بارے میں اسلام کے ا صولوں کو دنیا کے بہترین اصول مانتے ہیں یا نہیں ۔


سادہ لفظوں میں ان سوالات کا مطلب یہ ہے کہ آیا آپ مسلمان بھی ہیں کہ آپ سے ان موضو عات پر بحث کی جائے کیونکہ بقول آپ اور آپ کی برادری کے، مو جودہ زمانے میں مذہب کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ ضرورت ، جیسا کہ آپ سے قبل آگست کومٹ ،کارل مارکس،ول ڈیورانٹ،برٹرینڈ رسل اوران جیسے بہت سارے دانشوراس بات کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ آپ اور آپ کی برادری کے نزدیک موجودہ زمانہ سائنس اور ایٹم کا زمانہ ہے ،یہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ،یہ موبائل اور کیمرے کا زمانہ ہے اور یہ ٹچ سسٹم اور جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے لہذا آ ج کے دور میں پیغمبر وں کی شریعت نافذنہیں کی جا سکتی ۔

اس ترقی یافتہ اور جدید دور میں حد اور کوڑے نہیں لگائے جاسکتے ، آزادی اظہارکے زمانے میں کسی کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ کسی کو زبردستی فحا شی و عریانی پھیلانے سے نہیں روکا جا سکتا ،اس لیے پہلے آپ اپنا موقف اور عقائدو نظریات واضح کریں ،آپ یہ بتائیں کہ آپ ہیں کون؟ آ پ کس مذہب کے پیروکار ہیں اور آپ کس پیغمبرکے امتی ہیں ۔ آ پ مذہب ،خداور رسول کو زندگی میں کیا درجہ دیتے ہیں؟دین اسلام کی کاملیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ۔نبی اکرم ﷺ کی احادیث کو آپ کیا مقام دیتے ہیں اور قرآنی حکم اعلائے کلمة اللہ کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟باقی ہم کون ہیں اور ہمارا موقف کیا ہے یہ ہم بتائے دیتے ہیں ۔ ( جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :