احتساب ،کرے کون ؟

جمعرات 21 اپریل 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

اخبار کے جس صفحے پر آرمی چیف کا ”بلاامتیاز“ احتساب کی ضرورت بارے بیان شائع ہوا، اس صفحے پر موجودہ حالات کے تناظر میں اور پھر کیا شائع ہوگا؟صرف ایک اخبار کے صفحہ اول پر احتساب کی ضرورت اور آرمی چیف کے بیان کی تائید میں کم و بیش بیس بیانات موجود ہیں اور سوائے ایک ، ہاتھی کے پاوٴں میں سب کا پاوٴں ۔قبلہ اعتزاز احسن تو شائد ذہنی خلجا ن کا شکار ہیں، وزیراعظم میاں نواز شریف یا مسلم لیگ ن سے متعلق حسن ظن کی رعایت کے بھی موصوف روادار نہیں ہیں لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ ان کا اصل نشانہ چودھری نثار علی خان ہیں جن کے بارے میں وہ وزیراعظم نواز شریف کو بدظن کرنا چاہتے ہیں۔

آرمی چیف نے ایک تقریر بارہ اپریل منگل کے دن گوادر میں بھی کی تھی ،لب لباب جس کا یہ تھا کہ” سب لوگ اچھے بچوں کی طرح محاذآرائی چھوڑیں اورباہمی تعاون پر توجہ دیں“۔

(جاری ہے)

تب سابق وزیرداخلہ کی لن ترانیوں کی اٹھان بہت اونچی تھی ،اسی دن انہوں نے فرمایا تھا کہ نواز شریف زرداری کے دربار میں حاضری دینے جا رہے ہیں ۔ گویا وزیراعظم پر انہوں نے بہتان تراشا کہ وہ بیماری کا بہانہ بنا رہے ہیں۔

ساری عمر کے تجربے کے بعد انسان میں اگر اتنا بھی رکھ رکھاوٴ اور انسانیت نہ ہو کہ وہ بیماروں پر طعن و تشنیع کرے تو کیا حاصل؟۔ وزیراعظم پر تنقید کے لئے ہزار موضوع وہ تلاش کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ٹی وی سکرینوں اور اخبارات میں جگہ پانے کے لئے آسان نسخہ آزمایا،اور پھر اس ایک تیر سے قیادت کی خوشامد کا دوسرا شکار بھی انہوں نے آسانی سے فرما لیا۔

ایک ٹی وی اینکر نے جب ان سے آرمی چیف کے بیان پر تبصرہ چاہا تو فرمایا ” وہ کون ہوتے ہیں مجھے تنقید سے روکنے والے؟“۔ اینکر نے تو کسی کا نام نہ لیا تھا تو پھر چودھری اعتزاز کو اپنی داڑھی میں تنکا کیوں دکھائی دیا؟تب آرمی چیف کا بیان کڑوا تھا آج بلاول زرداری سمیت ساری پیپلزپارٹی اور اپوزیشن ہپ ہپ کر رہی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ادوار پر نظر ڈالیں تو پیپلزپارٹی کی طرف سے احتساب کی باتوں پر ہنسی آتی ہے جس کے ایک وزیرشائد عبدالقیوم نے ببانگ دہل فرمایا تھا کہ کرپشن ہمارا حق ہے۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والی پیپلزپارٹی کی ایک سابق خاتون وزیر سے خاکسار نے سوال کیا ”اپنے گزشتہ دور حکومت کی کارکردگی پر آپ کیا فرمائیں گی ؟“ احتیاط مگر سچائی کے ساتھ انہوں نے جوا ب دیا NOTHING SPECIAL۔اب اس پر کوئی اور کیا تبصرہ کرے۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی سے ایسی توقع تو نہ تھی لیکن تحسین ضرور کی جانی چاہیے کہ انہوں نے سول قیادت کی بالادستی میں احتساب کی ضرورت پر زوردیا جو پوری مہذب دنیا میں رائج طریقہ ہے۔

میں نے پہلے بھی ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستانی ریاست کا سیاسی بازو ابھی اس قدر طاقتور نہیں ہوا جتنا ایک حقیقی جمہوری ریاست میں ہونا چاہیے لیکن اس کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ سیاسی بازو کو بالکل ہی مفلوج کردیا جائے ،دودھ کے دھلے چند ہی دانے ہوں گے ہمارے پاس۔ظاہر ہے اس بیان پرحکومت کی طرف سے کس ردعمل کی توقع کی جاسکتی ہے !بدعنوانی کے سرطان کے خاتمے کی کوششوں سے انکار کون کر سکتا ہے ۔

لیکن ایک جھٹکے میں ساری کی ساری اپوزیشن یہ بھول گئی ہے کہ احتساب فوج کا کام نہیں ، مولوی کینیڈوی کو تو میں قابل ذکر ہی نہیں سمجھتا لیکن کنٹینر پر چڑھ کر حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے والے شیخ رشیدصا حب کو تو دن میں ہی الیکشن کے تارے نظر آنے لگ گئے ہیں۔اللہ ان کی نظر سلامت رکھے ان کو راتوں کے دھرنے میں ہونے والی شادی دوردور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

خدا کے بندو!احتساب سے اختلاف نہیں لیکن اپنا سول نظام حکومت بہتر کرو، حکومت پر تنقیدکا شو ق ہے، ضرور کرو لیکن اس کی ٹانگیں مت کھینچو اور اگر یہی ڈرامہ کرنا ہے تو آمریت کا رونا بند کرو ۔اک ذرا سے چھوٹوکو سنبھالنے کے لئے اگرآرمی بلانی پڑے تو یہ فوج کی کامیابی نہیں بلکہ پورے ریاستی نظام کی کمزوری ہے اس کے استحکام پر توجہ دو۔عمران خان سے تو اب امید رہی ہے نہ شکوہ،آرمی چیف کے بیان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے انہوں نے پوری قوم کو فوج کے پیچھے کھڑا کردیا ہے۔

لگتا ہے عمران خان نے ایک بار پھر کسی ان دیکھے ایمپائر سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ کاش کوئی سیاستدان کھل کر یہ بیان دیتا کہ احتسا ب ضروری ہے اور بلاامتیاز ہونا بھی چاہیے لیکن یہ کام فوج کا نہیں بلکہ سول اداروں کا ہے ۔کرپشن میں ملوث حکومت کے کسی ریٹائرڈ ملازم کو اگر آپ کرپشن کی یہ سزا دیں کہ آ ج سے آپ حکومت کے ملازم نہیں ہیں تو ایسا احتساب کس کام کا؟۔

کسی کا مقصداگر میاں نواز شریف کی حکومت گرانا ہے تو اس خاکسار کا خیال تو یہ ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ سیاستدان،وکیل اور سب سے بڑھ کر عوام اب اس مہم جوئی کو بالکل برداشت نہیں کریں گے۔گو کچھ لوگ اب بھی ٹیکنو کریٹ حکومت کی تجویز کی آڑ میں اپنی خواہشات کو نظریہ ضرورت کے تحت بڑے موٴثر انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ سیاسی قیادت گزشتہ آٹھ برس میں کم از کم اتنا تو کر ہی چکی ہے کہ اب ایسا ماحول پیدا نہ ہونے دے گی۔


پانامہ دستاویزات کاطوفان اب کچھ تھم رہا ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ان فرشتوں کے نام بھی پانامہ دستاویزات سے ہی برآمد ہوں گے جنہیں ا ٓج دو سو پچاس کے قریب ناموں کی فہرست میں تنقید کے لئے صرف وزیراعظم میاں نواز شریف ہی کے اہل خانہ نظر آرہے ہیں۔ نہیں معلوم شفا ف تحقیقات کے نام پر حشر بپا کردینے والے تب کیا موٴقف اپنائیں گے لیکن بلا امتیاز احتساب اگر کوئی طاقت سول اداروں کے علاوہ کسی اور کے سپرد کرنے کی خواہش مند ہے تو پوری قوم کی خواہش ہے کہ وہ صرف ایک پرویز مشرف کا احتساب کرا دے ،سیاستدانوں کا احتساب تو ایک شفاف انتخاب کی مار ہے جو اس ملک کے عوام خود ہی کر لیں گے ، مجھے یقین ہے ان دو حسابوں کے بعد آنے والی حکومت بچ جانے والے بدعنوانوں کے پیٹ خود ہی پھاڑ لے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :