بندہ مزدور

منگل 3 مئی 2016

Abdur Rehman

عبدالرحمن

دنیاکی تعمیروترقی میں بڑے بڑے دماغ استعمال ہو رہے ہیں. تعمیر و ترقی کے اس سفر میں تخلیقی صلاحیتوں کی حامل اعلی شخصیات اس سفر کا ہراول دستہ ضرور ہیں مگر اس سفر کو عملی جامہ پہنانے والے مزدوروں کی عظمت کسی سے کم نہیں. مزدوروں کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے لئے یکم مئی کا دن مخصوص ہے. استحصالی نظام کی چھتری کے نیچےپھلنے پھولنے والے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے تحت مزدور وں کی فلاح و بہبود ,,روزگار کے تحفظ,,,اجرت کی بروقت ادائیگی,, اوقات کار کی پابندی پر عمل درآمد کرنے کی بات بے معنی ہے.عمومی نظر سے جائزہ لیا جائے توعالمی سطح پر یوم مزدور منانے کا مقصد مزدوروں کے ساتھ بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں .

(جاری ہے)

اقوام متحدہ سمیت دنیا بھرکی حکومتیں عالمی استحصالی مافیا کے ہتھے چڑھی دکھائی دے رہی ہیں. ان حکومتوں کے زیر سایہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو تو ہر طرح کاتحفظ فراہم کیا جاتا ہے مگر مزدوروں کے لئے تسلیم شدہ عالمی اور ملکی قوانین پر عمل درآمدیکسرنظر انداز کر دیا جاتایے. حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی تجارتی اداروں سمیت ملکی سطح پر سرکاری ,,غیر سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے مزدور غلام بنا لئے گئے ہیں.مزدور کی عظمت ہی استحصالی نظام کی ضد ہے تو پھر مزدور کا استحصال کرنے والی حکومتیں,سرکاری اور نجی ادارے مزدور کے حق میں اچھے اقدامات کیسےکرسکتے ہیںں,,,,ان سے اچھائی کی توقع رکھنا سورج کو چراغ دکھانے کی مانند اور بالکل بیکار ہے.بدقسمتی سے پاکستان میں بھی استحصالی فلسفے اور فکر کے پیروکار حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے کاروبار بڑھانے کے ساتھ ساتھ,,,نفع بخش قومی اداروں کو اونے پونے بیچنے,,,ان اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کو جبری بیروزگار کرنے میں مصروف عمل ہیں.استحصالی فکر کے حکمرانوں نے قومی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے اداروں کو بھی باپ کی جاگیر سمجھ کر خود مختار اداروں کی حیثیت سے فروخت کرنے یا ٹھیکے پہ دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے.عوامی جلسوں میں عوام کے دکھ اور غم میں منافقانہ اداکاری کا ڈھونگ رچانے والے حکمران اداروں کی فروخت کے ساتھ ساتھ ان میں کام کرنےاور مزدور کے نام سے پہچانے جانے والی زندہ لاشوں کا بھی اپنی ذہنی سوچ کے مطابق سودا کرتے دکھائی دے رہے ہیں.یہی وجہ ہے ایک دو سرکاری اداروں کو چھوڑ کر کسی سرکاری ادارے میں سروس سٹرکچر نہیں بنایا گیا,,,,تعیناتیوں اور ترقیوں میں سیاسی وابستگیاں دیکھی جاتی ہیں,,,ملازموں کی ترقی کے راستے چاروں اطراف سے بند کر کے انہیں کنٹریکٹ یا گولڈن شیک ہینڈ پالیسی کے ساتھ ہی دفن کر دیا جاتا ہے.خوش قسمتی سے اگر کوئی ملازم پینشن کی مراد پا جائے تو وہ پینشن کی حصول کے لئے سرکاری دفتروں میں چکر کاٹنے اور رشوتیں بانٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے.استحصال پسند حکمرانوں کی انہیں پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہےکہ آج نہ صرف ڈاکٹر,,,اساتذہ,,,پائلٹ,,,,کسان,,,,مزدور ,,,قلم کار صحافی,,سڑکوں پہ ہیں بلکہ خود حکومتی منشی یعنی پٹواری اور بیوروکریٹ بھی سڑکوں پر نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ نظام خراب نہیں نظام کے سٹیئرنگ پہ بیٹھے حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے.اب آتے ہیں نجی اداروں,,, عام ہوٹلوں یا اینٹوں کےبھٹوں پہ کام کرنے والے عام مزدور کے حالات کی طرف.

سرکاری اداروں سے متعلق بات شروع ہی اس لئے کی گئی تھی کہ جب آئین کا حلف اٹھانے والی سرکار,,,قوانین کے نتیجے میں وجود پذیر اداروں کو غیر آئینی,,غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقے سے چلاتی ہو اور اس پر ڈھٹائی کا بھی مظاہرہ کر رہی ہو تو پھر ایسی ریاست میں افراد کے ہاتھوں چلنے والے نجی اداروں کے مزدوروں کا حال مصر کی منڈی میں یوسف کے بکنے جیسا ہی ہے.مزدورں کے عالمی دن کے موقع پرگلے پھاڑ کےاور لمبی لمبی زبانیں منہ سے باہر نکال کے مزدور کی عظمت کے راگ الاپنے اور ان سے کئے وعدوں کو پورا کرنے والے حکمرانوں کے دعوے ایک طرف رکھ کر حقیت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو صورتحال کھل کر واضح ہو جاتی ہے.روزگار کی ضمانت کے بغیر بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دے کرسائیکل یا عوامی بس کے ذریعے سفر کر کے کرائے کے گھر لوٹنے والے دو بچوں کے مزدور باپ کو بارہ ہزار روپے ماہانہ ملنے والی اجرت سے دنیا کا بڑے سے بڑا ماہر اکاونٹنٹ اس کے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائے.کیامزدورکسی زندہ مشین کا نام ہے,,,,,بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد دو گھنٹے کا سفر کر کے گھر لوٹنے والے مزدور کو آرام کرنے,,اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا کسی نے لحاظ رکھا ہے.کیا سال کے تین سو پینسٹھ دن اپنے خون پسینے کو ایک کرنے اور ہاتھوں کو زخمی کر نے والے مزدور کو بیماری کی صورت میں بھی ایک چھٹی کی سہولت میسر ہے.کیا مزدورں کے سینے میں دل نییں دھڑکتا,,,,,کیا مزدور اپنے بچوں کو بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا دل سے خواب نہیں دیکھ سکتا,,کیا مزدور کو قبر کے علاوہ کبھی چھت میسر نہیں آئے گی.اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یوم مزدور منانے کا کیا فائدہ ,,, مزدور اچھا ہی کرتا ہے وہ پتھر توڑ توڑ کر اپنے ہاتھوں اور دل کو بھی پتھر بنا لیتا ہے,,,وہ خواب دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھیں پتھرا لیتا ہے.
ہیں بہت ہی تلخ بندہ مزدور کے اوقات

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :