امریکی پابندیوں کی داستان

اتوار 29 مئی 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

عظیم دانشور نوم چومسکی نے پاک امریکہ تعلقات کی مختصر مگر جامع تعریف یوں کی تھی: ”جب تک پاکستان امریکہ کی فرماں برداری کرتا رہے گا‘ اس کا اتحادی رہے گا اور جب پاکستان نے یہ فرماں برداری ترک کر دی تو نیوکلیئر خطرات اور جہاد کے بارے میں سرخیاں امریکی میڈیا کا حصہ بننا شروع ہو جائیں گی“ پاکستان کو ایک نہیں دسیوں بار اس کا عملی تجربہ ہوا ہے کہ جب امریکہ کا اپنا مطلب ہوتا ہے تو وہ عنایات کی بارش کر دیتا ہے‘ لیکن جونہی یہ مطلب پورا ہوتا ہے‘ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔

اب جبکہ امریکہ افغانستان سے اپنے پاؤں سمیٹ رہا ہے اور اسے فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر یا لاجسٹک سپورٹ کے حوالے سے پاکستان کی ضرورت نہیں رہی‘ اس لئے امریکی آنکھیں ایک بار پھر‘ پھر چکی ہیں اور دونوں کے باہمی تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں‘ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاصے وقفے کے بعد امریکہ نے پاکستان میں ایک اور ڈرون کارروائی کی ہے‘ مبینہ طور پر جس میں طالبان کا سربراہ ملا اختر منصور مارا گیا ہے اور صدر اوباما نے یہ بیان داغا ہے کہ جب بھی خطرہ ہوا پاکستان میں کارروائیاں کریں گے۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں پاکستان ایک بار پھر امریکی پابندیوں کی زد پر ہے کیونکہ امریکہ کے ایوان نمائندگان نے آئندہ برس کے فوجی اخراجات کے پالیسی بل میں پاکستان کو فوجی امداد کی فراہمی پر عائد شرائط مزید سخت کردیں ہیں۔ 602ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات سے متعلق بل ”نیشنل ڈیفنس آتھرائیزیشن ایکٹ“میں پاکستان کے حوالے سے تین ترامیم پیس کی گئی ہیں‘ جنہیں رائے شماری سے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔

(1) پاکستان کی ساڑھے 45کروڑ ڈالر کی فوجی امداد اس کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی تک روک لی جائے۔ (2) وزیر دفاع کو تصدیق کرنا ہو گی کہ فوجی امداد کے فنڈز یا اس مد میں فراہم کئے گئے دفاعی آلات کو اقلیتی گروہوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا رہا۔ (3) اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ’عالمی ہیرو ‘ قرار دیتے ہوئے اسے جیل سے فوری رہا کیا جائے۔


چند روز قبل مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان معاملات کی جانب اشارہ کر دیا تھا‘ اگرچہ وہ نہایت خفیف اور نامکمل تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کچھ خرابی ہے ‘شکیل آفریدی‘ حقانی نیٹ ورک اور نیوکلیئر پروگرام پر تحفظات سرد مہری کی وجہ ہیں۔ انہوں نے سانحہ بارہ مئی (ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مکان پر حملے کا دن) کو سیاہ دن قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمیں امریکی غلامی سے نکلنا ہو گا۔


امریکی غلامی سے نکلنے کی خواہش بھی خوب ہے۔جب ہمارے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں تو ہمارا جذبہ ایمانی جاگ جاتا ہے اور ہم اس کی غلامی سے نکلنے کے لئے کلبلانے اور کسمسانے لگتے ہیں لیکن جونہی امداد بحال ہوتی اور امریکی عنایات بحال ہو جاتی ہیں‘ ہمارے لیڈر بھول جاتے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے امریکی غلامی سے نکلنا ضروری ہے۔

یہ ہماری پُرانی عادت ہے اور تقریباً راسخ ہو چکی ہے‘ اس لئے اس بارے میں تو مشیر خارجہ کی بات پر کوئی توجہ نہیں دے گا‘ البتہ اس حقیقت سے مشیر خارجہ بھی اتفاق کریں گے کہ اب اچانک امریکہ کی جانب سے شکیل آفریدی‘ حقانی نیٹ ورک اور نیوکلیئر پروگرام پر تحفظات کا اظہار بلا سبب نہیں۔دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ہو سکتا ہے ساری دال ہی کالی ہو۔


یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کام نکل جانے کے بعد پاکستان کو امریکی امداد کے حوالے سے پابندیوں کی زد میں لایا جا رہا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کا آغاز اس وقت ہو اجب قیام پاکستان کے چند سال بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان سوویت یونین کی آفر نظر انداز کر کے امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ آج ان تعلقات کو قائم ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا لیکن ان میں آنے والا اتار چڑھاؤ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔

امریکہ نے پاکستان سے ہمیشہ اپنے نظریاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ پاکستان کی نظر ہمیشہ امریکی امداد پر رہی۔ یہی تعلق اونچ نیچ کا باعث بنتا رہا۔
لیاقت علی خان کے وقت سے قائم ہونے والے پاک امریکہ تعلقات میں 1970کے آغاز تک بالکل ٹھیک چلتے رہے۔ 1971کی پاک بھارت جنگ‘ جو دراصل مشرقی پاکستان کو بچانے کی جنگ تھی‘ میں پاکستان کو پہلی بار شکایت ہوئی کہ امریکہ نے اس کی بروقت مدد نہیں کی۔

پاکستان کی مدد کے لئے اپنا بحری بیڑا نہیں بھیجا۔ پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دونوں ملکوں کے مابین تناؤ اس قدر بڑھا کہ امریکہ نے 1977میں منظور کی گئی سیگمنٹن ترمیم کے تحت پاکستان پر یورینیم افزودہ کرنے والی ٹیکنالوجی رکھنے اور ایٹمی ہتھیار بنانے پر پابندی عائد کر دی۔ مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو روکنا تھا۔ بعد ازاں جب افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد دوسری سپر پاور پر کاری ضرب لگانے کا موقع آیا تو امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نظر انداز کرکے نظر عنایت شروع کر دی‘ لیکن جونہی سرخ افواج نے دریائے آمو پار کیاچنانچہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر دے اور یک طرفہ طور پر این پی ٹی(ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) پر دستخط کر دے۔

پریسلر ترمیم پہلے ہی یعنی 1985میں منظور ہو چکی تھی؛ چنانچہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور اس پر پابندیاں عائد کرنے کے لئے اسی کو بروئے کار لایا گیا۔ اس ترمیم کے تحت پاکستان کو نہ صرف امریکی اقتصادی اور فوجی امداد کے حصول سے محروم کر دیا گیا بلکہ 368ملین ڈالر کے ان فوجی آلات اور 28ایف سولہ طیاروں کی فراہمی بھی روک لی گی جن کی قیمت پاکستان پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔


امریکہ کی جانب سے پاکستان پر کچھ پابندیاں بل کلنٹن کے دور صدارت میں بھی لگائی گئیں۔یہ 1998میں کئے گئے ایٹمی دھماکوں اور اکتوبر 1999میں فوج کی جانب سے جمہوری حکومت کو ہٹانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی وجہ سے عائد کی گئی تھیں۔ ان کے تحت فوج کی سطح پر اعلیٰ نوعیت کے وفود کے تبادلوں اور دوسرے معاملات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اور اب جبکہ افغانستان میں القائدہ کے تعاقب میں امریکی مہم اپنے اختتام کے قریب ہے یا امریکہ اور اس کے اتحادی اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے اس قدر اکتا چکے ہیں کہ اس کو ادھورا چھوڑ کر مکمل طور پر (یاد رہے کہ اب تک اتحاددی افواج تو واپس جا چکی ہیں لیکن امریکی افواج کی جزوی واپسی ہوئی ہے۔

)واپس جانا چاہتے ہیں تو کل تک قریبی اتحادی اور امریکی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے والا پاکستان ایک بار پھر امریکی کج ادائیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ اگرچہ اوپر جس ”نیشنل ڈیفنس آتھرائیزیشن ایکٹ“ کا ذکر کیا گیا ہے‘ حتمی قانون سازی نہیں ہے اور اس کی ماہ رواں کے آخر میں پیش ہونے والے بل سے مطابقت ضروری ہو گی‘ جس کے بعد صدر اوباما کے پاس اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ہو گا اور مشیر خارجہ طارق فاطمی نے امید ظاہر کی ہے کہ اوباما اور جان کیری پاکستان کے دوست ہیں ‘ لہٰذا پاکستان کو پورا یقین ہے کہ وہ امریکی سینیٹ کو قائل کر لیں گے۔


اللہ کرے کہ ہماری ہمیشہ سے قائم یہ امیدیں بر آئیں‘ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان ایک بار پھر معاشی اور فوجی لحاظ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے پُر امید ہونا اپنی جگہ لیکن کیا اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ ا وباما‘ جواگلے چند ماہ میں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو جائیں گے‘ کو پاکستان یا افغانستان میں اتنی دلچسپی ہو سکتی ہے کہ سینیٹ کو منانے کا درد سر مول لیں؟خوش فہمی اگر ایک حد تک رہے تو اچھی لگتی ہے‘ لیکن یہ اگر حد سے بڑھ جائے تو مسائل کا باعث بنتی ہے۔

امریکہ سے توقعات وابستہ کرنے سے پہلے پاک امریکہ تعلقات کا ماضی پرکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے‘ فی الحال یہ ادراک کرلیجئے کہ امریکہ کو کوئی ایسی مہم درپیش نہیں ہے‘ جس میں اسے پاکستان کی مدد درکار ہو‘ لہٰذا اگلے کسی امریکی ایڈونچر تک غنیمت جانیے اور خودانحصاری کی تدبیر سوچیے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :