مزید نئے راستے !

منگل 7 جون 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہم راستوں کی تلاش میں تھے ،پچھلے ہفتے ہم نے دو تین راستوں کی نشاندہی کی تھی ۔ آج ہم مزید کچھ راستوں کا تعاقب کرتے ہیں کہ وہ کون سے راستے تھے جن راستوں سے ہو کر اسلامی علوم وفنون اور مسلمانوں کی تہذیب و دانش یورپ تک پہنچی تھی۔ ان راستوں میں سے ایک اہم راستہ سلطنت بازنطینی کا دارلحکومت قسطنطنیہ تھا ، قسطنطنیہ بازنطینی حکومت کا پایہ تخت تھا اوریہاں اسلامی علوم کے تراجم کا سلسلہ تقریبا نوویں صدی عیسوی میں شروع ہو گیا تھا ، نوویں صدی کے آغاز میں قسطنطنیہ میں علم طب، کیمیا اور فلکیات کی بعض کتب کا عربی سے یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا لیکن اس وقت بازنطینی سلطنت اس قدر تعلیم یافتہ نہیں تھی اور نہ اس وقت علم کے اتنے قدر دان لوگ موجود تھے جو ان تراجم سے استفادہ کرتے اس لیے ترجمے کی یہ تحریک ذیادہ زور نہ پکڑ سکی اور چند کتب کے سوا تراجم اور تہذیب و دانش کی منتقلی کا یہ سلسلہ یہیں رک گیا ۔

(جاری ہے)

تراجم نگاری کا بھرپور ریلا بارھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا جب جیرارڈ کرمونی اور قسطنطین افریقی نے درجنوں کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا ۔ اس دور میں تراجم نگاری کا یہ سلسلہ قسطنطنیہ سے تبدیل ہو کر برطانیہ ، سسلی اور شمالی اٹلی کی جانب منتقل ہو چکا تھا ۔ سسلی ایک عرصے تک مسلمانوں کے زیر نگین رہا اور یہاں کئی نامور مسلم اسکالرز نے جنم لیا تھا اس لیے سسلی اسلامی علوم کی بہترین آماجگاہ تھا ۔

اٹلی میں تراجم نگاری کا سلسلہ دو اطراف سے داخل ہوا ، ایک شمالی اٹلی اور دوسرے کچھ عناصر جنوب کی طرف سے اٹلی میں داخل ہوئے ۔تراجم نگاری کا یہ سلسلہ نوویں صدی عیسوی میں بازنطینی سلطنت سے شروع ہر کر اندلس، سسلی ،اٹلی اور فرانس سے ہوتا ہوا یو رپ میں داخل ہواتھا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ تیرھویں اور چودھویں صدی میں عیسائی حکمرانوں نے تراجم نگاری کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کیے تھے، عربی اور فارسی کتب کے یونانی میں تراجم کے لیے بحر اسود کے کنارے پر توطرابزون میں باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا ، اسی عرصے میں اسی طرح کا ایک اداراہ قسطنطنیہ میں بھی قائم کیا گیا تھا ۔

جب بھی مسلمان مفکرین ، دانشور اور علما کوئی نئی کتاب لکھتے ، کوئی نئی تحقیق اور ریسرچ سامنے آتی تواس ادارے کے طلبا فورا اس کا ترجمہ کر کے اپنے ملکوں اور قوموں کو بھجوا دیتے تھے ۔عربی سے لاطینی میں تراجم کا ایک سلسلہ دسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور سب سے پہلے جس چیز کا ترجمہ ہوا وہ فلکیات کی ایک کتاب تھی ،اس دورکے مغربی علما ابھی اس قابل نہیں تھے کہ عربوں کی دقیق نظری مباحث کو سمجھ سکتے اس لیے انہیں نے پہلے آسان اور سہل کتابوں کو ہدف بنایا اور ان میں اسطرلاب اور ہندسے سے متعلق کتب شامل تھیں ۔

اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان مغربی مترجمین کو عربی اصطلاحات کے لیے کوئی مناسب اصطلاح نہیں ملتی تھی اوروہ عربی اصطلاحات کو مستعار لینے پر مجبور ہوجاتے تھے ،آج بھی آپ کو انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں عربی کے ایسے ہزاروں الفاظ مل جائیں گے۔ تراجم نگاری کے بعد یورپ میں تالیف نگاری کا سلسلہ شروع ہوا اور سلسلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ دسویں صدی کے بعد سے جو لاطینی کتب تالیف کی گئیں بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ وہ عربی کتب سے ماخوذ تھیں اور ان کے مصنفین نے انہیں سرقہ بازی سے کام لیتے ہوئے اپنی طرف منسوب کر لیا تھا ۔

شاید اہل یور پ کی تنگ نظری نے انہیں یہ رویہ اپنانے پر مجبور کیا ۔ گیارویں صدی عیسوی میں طلیطلہ علمی تحریک کا مرکز بنا ، بارہویں صدی عیسوی میں اخذ و اکتساب کا یہ سلسلہ پیرس ، تور اور طولوز سمیت دیگر شہروں میں منتقل ہو گیا ، اس صدی میں فن ترجمہ نگاری میں کافی بہتری آئی اور ایسے لوگ سامنے آئے جنہیں ترجمہ نگاری پر بھرپور قدرت اور دسترس حاصل تھی ، اس زمانے میں عربی کی کئی مشہور اور ضخیم کتب کا ترجمہ کیا گیا ۔

اس عرصے میں فلکیات ، ریاضیات ، طب ، موسیقی ، کیمیا اور دیگر علوم پر مشتمل کئی لاطینی تالیفات سامنے آئیں اور یہ سب کی سب عربی کتب کا چربہ تھیں ۔ تیرھویں صدی عیسوی تک اہل یورپ فن ترجمہ نگاری سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے ، چناچہ اس صدی میں لاطینی زبان میں کئی کتب تحریر کی گئیں اور بعض کا از سرنو لاطینی میں ترجمہ کیا گیا ۔ اس زمانے میں لکھی گئی یورپی کتب کا موازنہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ان کے مصنفین نے جا بجا عربی کتب اور عربی مصنفین کی تقلید کی ہے ۔

اور بعض جگہ پر تو یورپی مصنفین عربوں کی تقلید اور ان کی شاگردی پر فخر کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔ عربی کتب کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تواس دور میں لکھی جانی والی لاطینی کتب میں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ عربی کتب کے مواد کو چوری کر کے اپنی تصنیفات کا نام دے دیا گیااور سرقہ بازی کا یہ سلسلہ نوویں صدی سے شروع ہو کر پندرھویں صدی تک جاری رہا۔

یہاں ایک اور مزے کی بات وہ یہ ہے کہ اس دور میں صرف عربی کتب نہیں بلکہ ان کی شروحات کا بھی لاطینی میں ترجمہ کیا گیا ، اس زمانے کی لاطینی کتب میں ارسطو، جالینوس اور بطلیموس کا نام کثرت سے ملتا ہے اور اب یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے اہل یورپ کو ان یونانی دانشوروں کے بارے میں واقفیت عربی کتب کے ذریعے ہی حاصل ہوئی ۔ یورپ کی تحریک احیا کا اہم دانشور البرٹس جو حیوانیات ، نباتات ، فلکیات اور کیمیا کا ماہر سمجھا جاتا تھا اس کی ساری دانش ابن سینا ، ابن رشد اور جابر بن حیان کی کتب سے ما خوذ تھی ، راجر بیکن اور رابرٹ گرو سٹسٹے کا بھی یہی حال تھا، راجر بیکن تو تھا ہی عربوں کا شاگرد اور گرسٹسٹے کا انحصار الکندی ، ابن سینا اور ابن رشد کی دانش پر تھا۔

اس عرصے میں ایک اور رجحان سامنے آیا جس میں عربی کتب اور ان کی ایجادات کو دانستہ طور پر یونانی علما کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ مشہور مترجم مائیکل سکاٹ نے فلکیات پر نورالدین البطروجی کی کتاب اور ابن رشد نے ارسطوکی کتاب کی جو شرح کی تھی مائیکل نے ان دونوں کو نکو لاوٴس دمشقی کی طرف منسوب کر دیا حالانکہ یہ بندہ پہلی صدی قبل مسیح وفات پا چکا تھا۔

اسی طرح حنین بن اسحاق کی کتا ب کو حکیم جالینوس کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ مالیخولیا پر اسحاق بن عمران کی کتاب کو روفوس یونانی اور ابن سینا کی کتاب الاحجار کو ارسطو کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ ہم اگر تیرھویں صدی کے یورپ کو دیکھیں تو سب سے بڑا یہ سوال سامنے آتا ہے اس عرصے میں یورپ میں یونیورسٹیوں کا اچانک قیام کیسے عمل میں آ گیا حالانکہ اس سے پہلے یورپ، روم اور یونان میں اس طرح کے کسی ادارے کا وجود نہیں تھا ، اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ یونیورسٹیاں عربوں کی تقلید میں بنائی گئی تھیں ، اس سے پہلے جرمنی کے ایک شہر میں یورپ کا سب سے پہلا کلیہ ( کالج ) بھی عربوں کی تقلید میں قائم ہوا ، آپ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کی ابتدائی عمارات دیکھ لیں آپ کو ان میں اسلامی فن تعمیر کی واضح جھلک نظر آئے گی ۔

جرمنی کے ایک مشہور دانشور شپرجس نے تحقیق سے ثابت کیا ہے باررھویں اور تیرھویں صدی میں یورپ کے یہ کالج اور یونیورسٹیاں طلیطلہ کے راستے عربوں کی تقلید میں بنائی گئیں تھیں اور یورپ کی تحریک احیا اور نشاة ثانیہ کی تحریک مکمل طور پر اسلامی علوم کی یورپ منتقلی کے بعد منظر عام پر آئیں تھیں۔یہ چند راستوں کی ہم نے نشاندہی کی ہے باقی تحقیق اور جستجو کے نے والوں کے لیے یہ میدان بہت وسیع ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :