موسٹ وانٹیڈ وفاقی بجٹ

جمعہ 10 جون 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

لطیفہ تو بہرحال لطیفہ ہی ہوتاہے اس کاسنجیدگی یا مزاح سے کوئی تعلق نہیں ‘ ہوسکتاہے کہ جو ہماری نظر میں لطیفہ ہو وہ دوسروں کی نظر میں سنگین مذاق لہٰذا اس امر کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں‘ چند سیاسی لطیفوں کے ساتھ ‘ ایک بات ذہن میں رکھئے کہ ان لطائف کو پیش کرنے کامقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے۔ کیونکہ لطیفے دل آزاری کیلئے نہیں لبوں پر مسکان لانے کیلئے ہوتے ہیں اس لئے ان لطائف کو پڑھئے اورسردھنئے‘ پہلا لطیفہ حالیہ بجٹ کے تناظر میں ہے ‘ جس کامقصد کیا ہے اور اس کے پس منظر کتنی حقیقت ہے ؟؟لیکن پاکستانی قوم کی حالت یقینا نچوڑے ہوئے سوکھے لیموں سے کم نہیں ہے ۔

اس بجٹ میں عوام کے نچڑے اور خون سے خالی بدن سے جس طرح سے ٹیکس ”کشید“ کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ یقینا قابل رحم ہے۔

(جاری ہے)

بہرحال سنجیدگی کادامن ہاتھ سے چھوڑئیے اورپڑھئے ۔ ہوسکتاہے کہ بعض احباب‘ کارپردان حکومت کو اعتراض ہو ‘لیکن وہ جوکہتے ہیں کہ

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
بہرحال پڑھئے اور غور کیجئے کہ ہم ایسے لوگوں کے اسیر رہ چکے ہیں یافی الحال ہیں
ایک پہلوان نے 10 سوکھے لیموں نچوڑ کر پورا ایک گلاس جوس نکال لیا․․․․․لوگ حیرت سے اسے دیکھتے رہے․․․․․اس کے بعد اس نے لوگوں کو چیلنج کیا کہ کوئی ہے جو 20 لیموں نچوڑ کر بھی اتنا جوس نکال سکے جتنا اسنے 10 لیموں سے نکالا ہے․․․․․لوگ خاموش رہے․․․․․کوئی آگے نہیں بڑھا․․․․․سوائے ایک آدمی کے․․․․․اس آدمی نے پہلوان سے کہا میں تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں․․․․․میں 20لیموں سے نہیں․․․․․بلکہ صرف 10 لیموں سے ہی اتنا جوس نکالوں گا․․․․․اور ہاں لیموں بھی وہ جس سے تم پہلے ہی نچوڑ کے سارا رس نکال چکے ہو․․․․․سارا مجمع اسے پاگل سمجھنے لگا․․․․․پہلوان بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگا․․․․․اور لوگوں کو نہایت حیرت اس وقت ہوئی جب اس شخص نے یہ معجزہ کر کے دکھا دیا․․․․․ان سوکھے ہوئے 10لیموں سے ایک گلاس رس اور نکال کے دکھایا․․․․․پہلوان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا․․․․․اس نے حیرت سے پوچھا”بھائی!تم بھی پہلوان ہو؟“وہ آدمی بولا ”نہیں․․․․․میں اسحاق ڈار ہوں“
ہوسکتا ہے کہ یہ لطیفہ ہی ہو تاہم اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت بھی ہے کہ قوم کی رگوں سے آخری قطرہٴ خون نچوڑنے کے حوالے سے وزرا خزانہ کو ملکہ حاصل ہوتاہے سو یہ امکان موجود ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی ایسے ہی اوصاف حمیدہ کے مالک ہوں۔

اوصاف حمیدہ کے ضمن میں ایک بات ذہن میں آگئی کہ اوصاف جمیلہ ہوں یا اوصاف حمیدہ ‘دونوں میں ایک قدر مشترک ہے دونوں میں خواتین کے (عموماً رکھے جانے والے ) نام شامل ہیں اورجس طرح خواتین اپنے شوہروں کی جیب میں کچھ نہیں رہنے دیتیں بالکل اسی طرح سے پاکستان کے وزرائے خزانہ بھی چاہتے ہیں کہ جسم پر کچھ باقی نہ رہے۔
ماضی کی خبر نہیں کہ اس وقت دنیا میں آئے ہی نہیں تھے البتہ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہرسال جون کے مہینے میں لوگوں کو خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے ۔

تاہم 90ء کی دہائی کے بعد یہ ڈر کسی حدتک کم ہو گیا کیونکہ یہ سالانہ ”خوفناک فلم “ اب ہرپندھواڑے پر دکھائی جانے لگی یعنی جب سے پٹرولیم مصنوعات ‘ بجلی کی قیمتوں نے پرپندرہ دن کے بعد اڑان کا ”مشغلہ“ شروع کررکھا ہے اس کے بعد سے لگتا ہے کہ ہرچیز ہی اڑان بھرتی دکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو حاکمین( بشمول پی پی‘ ن لیگ) کا فرمان عالی شان کتنا غور طلب ہے کہ بجلی ‘پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھلا کہاں غریبوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

ان بیچاروں کو پتہ کیا ہوگا جیسا کہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی کم سن امریکی طالبہ کے سامنے پرچہ آیاجس میں غربت کے حوالے سے مضمون لکھنے کو کہاگیا ‘ طالبہ نے لکھا کہ فلاں فلاں ایک بہت ہی غریب آدمی تھا‘ اس کے گھر میں تین تین گاڑیاں موجود رہتی تھیں اس کے بچے ہروقت گاڑیوں میں گھومتے رہتے ہیں ‘بچے بڑے ہی شوق سے پیزا کھاتے ہیں اور پیپسی پیتے ہیں ‘ وہ دن ہو یا رات ہروقت ہی سوتے رہتے ہیں‘ جب جی چاہتا ہے سوجاتے ہیں اورجب جی چاہتا ہے جاگ جاتے ہیں ‘ وہ ہروقت گاڑیوں میں گھومتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی وہ غریب ہیں۔


نجانے کیوں یہ لطیفہ پاکستانی حکمرانوں کی ذہانت کی عکاسی کرتادکھائی دیتا ہے کہ انہیں شاید غربت کاادراک نہیں ہوسکتا۔ ورنہ پاکستان کی ایک وزیراعظم یہ نہ کہتیں کہ ”اگر عوام کے پاس روٹی کھانے کو نہیں ہے تو وہ ڈبل روٹی کھائیں“
خیر وفاقی بجٹ آنا تھا آگیا‘ سنا ہے کہ یہ بھی خسارہ پرمبنی بجٹ ہے‘بہت سے منصوبوں کیلئے بہت سا فنڈز مختص کیاگیا‘کہیں ترقیاتی کاموں کا ذکر ہے تو کہیں تنخواہوں کا تذکرہ ‘ کہیں سگریٹ مہنگے کرنے کی خوشخبری ہے تو کہیں ”عام آدمی کی تعیشات “ مطلب مشروبات پر ٹیکس لگاکر مزید مہنگے کرنے کاتذکرہ‘ اس کامطلب یہ ہوا کہ پورے کا پورا بجٹ ہی ”خوشخبریوں“سے بھرا ہے لیکن یہ خوشخبریاں حاکمین وطن کے لئے ہوسکتی ہیں یا وزیروں ‘مشیروں ‘مشیروں کے مشیروں یا پھروزیروں کے مشیروں کو ان اقدامات سے خوشخبری مل سکتی ہے تاہم عوام کیلئے باقی رہ گیا صرف ”’خسارہ“
صاحبو! جیسا کہ ابتدا ہی میں عرض کرچکے ہیں کہ اسحاق ڈار نے کس طرح سے اس پہلوان کا چیلنج قبول کیا‘ بات سچ نہ بھی ہوتو موجودہ بجٹ سچائی کی علامت بن کرسامنے آگیا ہے کہ پہلے سے ہی مفلوک الحال ‘ خون سے محروم جسموں والے عوام کا خون نچوڑنا بھی ” خالہ جی کاگھر“ نہیں مگر بھلاہو ن لیگی حکومت کا ‘ انہوں نے یہ ناممکن بھی ممکن بنادیا ہے‘ چنددن قبل ایک ہسپتال میں جانا ہوا ‘ ہمارے ساتھ جو مریضہ تھیں ان کا بلڈ ٹیسٹ ضروری تھا‘ تاہم مشکل یہ بن آئی کہ ہسپتال عملہ کاایک جوان گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد وہ رگ تلاش نہیں کرپایا جہاں سے وہ خون نکال سکے ۔

وہ جب تھک ہارکر واپس گیاتو دوسراآیا اس نے دو چار تھپیڑے خاتون کے الٹے ہاتھ پر مارے اور پھر سوئی رگ میں گھونپ دی ‘ہم حیران رہ گئے کہ اس نے پوری سرنج ہی خون سے بھرکر باہر نکالی‘ پہلے والا ساتھ کھڑا حیرانی سے دیکھ رہاتھا ‘ا سکی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر باہر کو ابل رہی تھیں‘ اس نے اشاروں اشاروں میں اس کی وجہ پوچھی تو دوسرے والا ہاتھ نچاتے ہوئے بولا ” اپنا اپنا فن ہے بھئی“ سو ایسا ہی فن اسحاق ڈار کے ہاتھ میں بھی ہے اوروہ سوکھی سڑی ہوئی رگوں سے بھی خون نچوڑنے کا ہنرجانتے ہیں اورانہوں نے مسلسل تیسری مرتبہ یہ کرکے بھی دکھادیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :