ایک فتوے کی ضرورت ہے
جمعرات 16 جون 2016
اب بات اگر ایسے ثواب کے عوامل کی ہو کہ جس میں پیسے کی لین دین کا کوئی سلسلہ نہیں ہے تواُس قسم کے معاملات میں انسان کا ڈاریکٹ معاملہ اللہ سے ہے،جیسے کے نماز،روزہ،یا حج وغیرہ،یہ عمل وہ ہیں کہ جنہیں چاہے تووہ معاف بھی کرسکتا ہے۔
(جاری ہے)
اور نہ چاہے تونہ کرے، یہ سب معاملہ اُس کی مرضی پر منحصر کرتا ہے۔یوں تو اور سب معاملات میں بھی قبول کرنا یا نہ کرنا، معاف کرنا یا نہ کرنا سب اُسی کے ہاتھ میں ہے،لیکن کچھ کام کرتے وقت ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے،اوروہ سوال ایسے ثواب کے عوامل کرنے کے متعلق ہے کہ جس میں ہم پیسے خرچ کر رہے ہوتے ہیں یا پیسے دے رہے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی شخص ،اِدارے یا پھر مدرسے وغیرہ کوزکوة ،خیرات یا صدقات وغیرہ دیتے وقت ہمیں صرف اور صرف اپنی نیت دیکھنی چاہئے، یا پھر ہمیں یہ دیکھنے سوچنے اور پرکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو رقم ہم کسی کو دے رہے ہیں وہ ٹھیک جگہ خرچ ہوگی بھی یا نہیں ؟یا پھر کہیں وہ رقم کسی ایسے عمل میں استعمال تو نہیں ہو رہی کہ جس سے مُلک مذہب یاپھر انسانیت کو خطرہ ہو۔ اورآج اسی سوال کے حوالے سے مجھے ایک فتوے کی ضرورت ہے۔مُسلمانوں کی فلاح و بہبود کے حولے سے کچھ اسلامی ممالک اپنے اپنے نظریے اور فرقے کو سپورٹ کرنے کے لئے بے شُمار رقم مدارس اور اپنی اپنی دینی درسگاہوں کی سرپرستی کے نام پر پاکستان بھیجتے ہیں،اور اُس کا مجموعی طور پر نتیجہ پاکستان میں ایک فرقہ ورانہ آگ کو بھڑکانے کی صورت میں نکلتا آیا ہے،پیسے اورطاقت کی پیٹھ ہونے کی وجہ سے یہ کافر اوروہ کافر کے فتوے پاکستان میں پانی کی طرح بہتے نظر آتے رہے ہیں،جس کے نتیجے میں اس مُلک میں جوکچھ ہمیشہ سے ہوتا آیاہے اور جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آپ بھی اچھے طریقے سے جانتے ہیں اور میں بھی ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس سارے معاملے نے نہ جانے کتنے سالوں سے ہمیں بحیثیت ایک انسان ،بحیثیت ایک مُسلمان ،اور بحیثیت ایک پاکستانی کہیں کا نہیں چھوڑا،اور آخرکار پوزیشن یہ ہے کہ پاکستان کا شُمار ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پسماندہ،شدت پسند اور خطرناک مُلکوں میں ہوتا ہے۔
میرے کہنے کا مقصد ہر گزیہ نہیں ہے کہ زکوة ،خیرات اور صدقات وغیرہ دینا کوئی غلط عمل ہے،بلکہ بحیثیت ایک اچھے انسان
اورایک اچھے مُسلمان کے یہ سب کرتے رہنا ہمارا فرض ہے،اورمیرا خیال ہے کہ یہی وہ عمل ہیں جو ریزہ ریزہ جمع ہوکر ہمیں جہنم کی آگ سے بچانے کا کچھ نہ کچھ باعث ضرور بنیں گے،انشاللہ۔
مجھے صرف اس سارے معاملے میں اپنے سوال کے جواب میں ایک فتوے کی ضرورت ہے،اوروہ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شخص ،اِدارے یا پھر مدرسے وغیرہ کوزکوة ،خیرات یا صدقات وغیرہ دیتے وقت ہمیں صرف اپنی نیت دیکھنی چاہئے یا پھر ہمیں یہ دیکھنے سوچنے اور پرکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو رقم ہم کسی کو دے رہے ہیں وہ ٹھیک جگہ خرچ ہوگی بھی یا نہیں ؟یا پھر کہیں وہ رقم کسی ایسے عمل میں استعمال تو نہیں ہو رہی کہ جس سے مُلک مذہب یاپھر انسانیت کو خطرہ ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ندیم گُلانی کے کالمز
-
الوداع۔۔۔۔۔امجد صابری۔۔۔۔۔الوداع
جمعرات 30 جون 2016
-
ایک فتوے کی ضرورت ہے
جمعرات 16 جون 2016
-
”اندھوں کے شہر میں آئینے“
اتوار 5 جون 2016
-
آہ۔۔۔۔صادق فقیر
جمعرات 12 مارچ 2015
-
اساتذہ اور سوشل میڈیا
ہفتہ 3 جنوری 2015
-
کیسا لگتا ہے دور ذلّت کا
پیر 28 جولائی 2014
-
مُشاعرے،میرا دُکھ اور کُل پاکستان مُشاعرہ ٹنڈوآدم2014
بدھ 18 جون 2014
-
سیکھنے کی ضرورت ہے
جمعرات 3 اپریل 2014
ندیم گُلانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.