اِسے کہتے ہیں ریفرینڈم

ہفتہ 2 جولائی 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ایک ریفرنڈم ضیاء الحق نے کروایا تھا جس میں انھوں نے اپنے آپ کو دین کا چھٹا رکن ہی بنا ڈالا۔ ریفرنڈم کی عبارت یہ تھی کہ اگر آپ پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو گویا آپ نے ضیاء الحق کی صدارت کے حق میں ووٹ دے دیا۔ گویا اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، انبیاء پر ایمان، تمام آسمانی کتابوں پر ایمان اور یومِ آخرت پر ایمان کے ساتھ ہی دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضیاء الحق کی صدارت پر ایمان بھی ضروری ٹھہرا۔

ظاہر ہے کہ ایک مسلمان تو ملک میں اسلامی نظام ہی چاہے گا اور جو ایسا ہی نہیں چاہتا وہ دوسرے لفظوں میں دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا۔ اس ریفرنڈم کا حال یہ ہوا کہ ”گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے“ کے مصداق لوگ گھروں سے ووٹ دینے کے لیے باہر ہی نہیں نکلے۔

(جاری ہے)

بس پولنگ کا عملہ ہی سڑکوں پر نظر آیا جو لوگوں کو گھیرگھار کر ووٹ دینے کے لیے منتیں کر رہا تھا۔

لیکن رات کو ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ ضیاء الحق 99 فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہو چکے تھے۔ یقینا یہ ووٹ فرشتوں نے ہی ڈالے ہوں گے یا پھر بے چارے پولنگ کے عملے نے کہ نوکری بچانے کا سوال تھا۔
پھر ایک ریفرنڈم ہمارے سابق کمانڈو پرویز مشرف نے کروایا حالانکہ انہیں ایسے کسی ریفرنڈم کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ انھیں تو ہماری اعلیٰ عدلیہ ہی نظریہ ضرورت کے تحت ”بن مانگے“ 3 سال کے لیے بلاشرکت غیرے حق حکمرانی عطا کر چکی تھی۔

اگر وہ مزید تین سال مانگتے تو ہماری مہربان عدلیہ چھ سال دے دیتی لیکن انہوں ں نے ریفرنڈم کا ”چسکا“ لینے کی ٹھانی۔ اس ریفرنڈم میں محترم عمران خان جھنڈا پکڑ کر گلی گلی پرویزمشرف کے حق میں ”ریفرنڈمی مہم“ چلاتے نظر آئے۔ علامہ طاہر القادری صاحب نے بھی پرویزمشرف کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔ اندر کی بات یہ تھی کہ پرویزمشرف نے ہر دو حضرات کو الگ الگ بلا کر ”وزارت عظمیٰ“ کا لالچ دے رکھا تھا، اسی لیے دونوں بڑی شدومد کے ساتھ پرویزمشرف کی کمپین کر رہے تھے۔

وہ تو ان پر 2002ء کے انتخابات کے بعد کھلا کہ ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔“ وہ دونوں منہ دیکھتے رہ گئے اور بازی لے گئے ظفراللہ جمالی۔ پرویزمشرف تو قصہٴ پارینہ بن گئے لیکن علامہ صاحب اور کپتان صاحب تاحال عشقِ اقتدار میں غلطاں و پیچاں نظر آتے ہیں۔ علامہ صاحب تو محمودغزنوی کے حملوں کی طرح کبھی کبھار پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن کپتان صاحب تب سے اب تک ”اِن“ ہی ہیں اور ”آؤٹ“ ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

اگر کوئی انھیں ”آؤٹ“ قرار بھی دیتا ہے تو وہ تسلیم کرنے کی بجائے یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ ”میچ فکس تھا، جو امپائروں کو ساتھ ملا کر کھیلا گیا۔“ آج کل وہ امپائروں کو ساتھ ملانے کی تگ و دو میں ہیں اور اس کی ساری سیاست سُکڑ سمٹ کر امپائر کی انگلی میں آ گئی ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی، بات ہو رہی تھی پرویزمشرف کے ریفرنڈم کی جس کا وہی حال ہوا جو ضیاء الحق کے ریفرنڈم کا ہوا تھا۔

لوگ تو گھروں سے باہر نہیں نکلے البتہ پرویزمشرف 99 فی صد ووٹ لے کر کامیاب ضرور ہو گئے۔
پچھلے دنوں ایک ریفرنڈم برطانیہ میں ہوا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے 2015ء کی انتخابی مہم میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو یورپی یونین سے علیحدگی یا ساتھ رہنے پر ریفرنڈم کروائیں گے۔ انھوں نے اپنا وعدہ ایفاء کیا اور باوجودیکہ وہ یورپین یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں تھے، انھوں نے ریفرنڈم کروا دیا جس میں علیحدگی کے حق میں 52 فی صد اور ساتھ رہنے کے حق میں 48 فی صد ووٹ آئے۔

اس لیے فیصلہ ہو گیا کہ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا۔ ریفرنڈم میں ناکامی کے بعد ڈیوڈکیمرون نے اکتوبر میں وزارتِ عظمیٰ سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا۔ اس ریفرنڈم میں نوجوانوں کی اکثریت نے یورپین یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیے جبکہ بزرگوں کی اکثریت یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں تھی۔
یہ یورپی یونین تو 1957ء میں معرض وجود میں آ گئی تھی جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا شاخسانہ تھا۔

جب پہلی جنگ عظیم میں 15ملین اور دوسری میں ساٹھ ملین لوگ جنگوں میں بھینٹ چڑھے تو یورپ ایک یونین بنانے کی تگ ودو کرنے لگا تاکہ جنگوں کی ہولناکیوں سے بچا جا سکے۔ برطانیہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے 1973ء میں اس کا رکن بنا اور ایک ریفرنڈم ہی کے ذریعے 2016ء میں الگ بھی ہو گیا۔
4عشروں تک لوگ یورپی یونین کی مثالیں دیتے رہے لیکن پھر یورپی یونین ممالک، پولینڈ، رومانیہ اور سلواکیہ سے ہجرت کرکے آنے والے تقریباً 30 لاکھ باشندوں نے امیگریشن کے ایسے مسائل پیدا کیے جن پر قابو پانا ناممکن نظر آنے لگا۔

اس کے علاوہ ہیلتھ کیئر اور سوشل ویلفیئر پر بھی ان مہاجرین کا برا اثر ہوا اور برطانوی ”بابے“ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ برطانیہ یہ بوجھ کیسے اٹھا سکے گا۔ اس لیے برطانیہ میں ”فری یو کے“ نامی مہم نے جنم لیا، جس کے نتیجے میں بالآخر برطانیہ نے یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اس ریفرنڈم کے بعد دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں اور صنعتی ایوانوں میں زلزلے کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔

یورپ اٹھائیس ممالک کے اس اتحاد سے برطانیہ کی علیحدگی کو جنگ عظیم سے بھی بڑا سانحہ قرار دے رہا ہے اور خود برطانیہ کے ایک موٴثر حلقے میں بھی سوگ کی کیفیت طاری ہے کیونکہ سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ اب دونوں برطانوی یونین سے نکل کر یورپی یونین کا حصہ بن جائیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کو اقتصادی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

اس سب کے باوجود یہ جمہور کی آواز اور جمہور کا فیصلہ ہے جس کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنا حکمرانوں کا فرضِ عین۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جمہوری ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے جبکہ ہماری ”بی بی جمہوریت“ کا یہ عالم ہے کہ وہ حکمرانوں کی قدم بوسی میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔ غالب نے کہا تھا #
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ہم بھی اپنے حکمرانوں سے استدعا کرتے ہیں کہ اگر واقعی ہم ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کے باسی ہیں تو پھر جمہوریت سے وفاداری بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر جانے دیجیے جمہوریت نامی ڈرامے کو کہ اب ”جمہور“ بھی تنگ آ چکی اس ڈرامے سے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :