ن والقلم ومایسطرون

پیر 11 جولائی 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

یقینا قلم حرمت کاباعث ہے کیونکہ خداوندقدوس نے خود اس کی قسم اٹھائی ہے۔ قلم تقدیر لکھتا ہے ‘قلم تقدیر سنوارتا ہے ‘ظاہر ہے کہ جس کی قسم خود خداوند قدوس نے اٹھائی ہو اس کی حرمت پر شک کیسا؟؟اسی سلسلے کو لیکر آگے بڑھتے ہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تعلیم کے ضمن میں ایک بار نہیں باربار تاکید فرمائی حتیٰ کہ ایک حدیث مبارکہ تو بہت ہی مقبول ہے آپ نے ارشاد فرمایا”تعلیم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کیوں نہ جاناپڑے“پھر آگے بڑھتے ہوئے ایک تصور ذہن میں رکھئے کہ تعلیم قلم کے بغیر اور قلم تعلیم کے بغیر نامکمل ہیں‘ ظاہر ہے کہ جو صاحب قلم ہوگا جسے لکھنے کی ضرورت پڑے گی تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ علم رکھتاہو‘ پھر طالبعلم جو علم کامتلاشی ہوتا ہے وہ بھی قلم ہاتھ میں لئے بغیر علم پر فیض حاصل نہیں کرپاتا۔

(جاری ہے)

گویا یہ بات ثابت ہوگئی کہ قلم اورتعلیم ایک دوسرے کیلئے بیحد ضروری ہیں۔موجودہ دور میں دونوں ہی تنقید کی زد میں رہتے ہیں علم ایک جزولاینفک اگر ایسے بیچاجائے تو پھر علم ذمہ دار نہیں ہوگا ایسے ہی قلم کو بیچنے خریدنے کی بات کی جاتی ہے‘ قلم کبھی نہیں بکتا‘ ہاں اگر بکنے والے ہاتھ بک جائیں تو دوش قلم کا نہیں بلکہ ان ہاتھوں کا ہوتا ہے جو بک جاتے ہیں ‘ہاں اگر یہ قلم ایسے مزدور کے ہاتھ میں ہو جس کی زندگی سچ بولنے اورلکھنے میں گزرگئی ہو تو یہی قلم اسے اتنی عزت‘ عظمت عطا کرتا ہے کہ زمانہ تک رشک کرتا ہے آگے بڑھئے ۔

فی زمانہ جہاں ان قلم کے مزدوروں کی کمی نہیں وہاں ایسے کئی ضمیر فروش بھی میدان عمل میں ہیں جن کی انگلیوں میں پھنسا قلم بھی بذات خود پناہ کاطالب ہوتا ہے مگر کیا کہئے کہ بیچنے والے بیچ دیتے ہیں مگرانہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ لفظ نہیں بلکہ حقیقت میں اپنا آپ ہی نہیں بیچ رہے بلکہ وہ قلم کی حرمت کے پاسدار بھی نہیں رہے۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ قلم والے ہاتھ اگر بک جائیں تو پھر زمانہ روتا ہے ۔

آج اگر زمانہ رو رہاہے تو اس کے پیچھے وہ ہاتھ بھی ہیں جو بک گئے‘ مگر قلم نہیں بکا اور نہ ہی بیچاجاسکتا ہے اور یہ صرف انہی لوگوں کی مرہون منت ہے جو قلم کے لکھے کو عبادت تصورکرتے ہیں۔
اپنی سرزمین کاذکر کریں تو مولانا ظفرعلی خان سے لیکر آغاشورش کاشمیری تک ایک پوری داستان صفحات پربکھری نظرآتی ہے۔آج ان شخصیات کا ذکر احترام سے کیاجاتاہے جو یقینا صاحبان علم وقلم کیلئے باعث فخر بھی ہے گو کہ فی زمانہ لکھنے والے ہاتھ بھی بک گئے اوران کا لکھا ”سکرپٹ“ دراصل دوسرے اذہان کا عکاس ہوتاہے مگر وہ ہاتھ عزت کے قابل نہیں ہوپاتے
یہ تمہید ہم نے یوں باندھی ہے کہ ان دنوں لکھاری برادری میں لرزہ طاری ہے کچھ لوگوں کو دستار چھن جانے کاڈر ہے تو کسی کو اپنے دامن پر لگے داغوں کی فکر ۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ جو قلم کی حرمت کاخیال کرتے ہوئے اس سے لکھے گئے جملوں کو عبادت تصورکرتے ہیں آج خوش نہال ہیں کہ انہیں ایک بھرپور پلیٹ فارم میسرآیا ہے۔ حضرت شورش کاشمیری کے روحانی شاگرد خاص حافظ شفیق الرحمن کی سربراہی اور ہماری نہایت ہی محترم ‘ قابل صد تکریم جناب جبار مرزا کی سرپرستی میں ” ورلڈ کالمسٹ کلب “ سرگرم ہوچکا ہے۔


’لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا“ کے مصداق اب اس کارواں میں ایسے ایسے چہرے نظرآرہے ہیں جن کے چہرے پر اعتماد واضح جھلکتا دکھائی دیتاہے جو قوم کے آج بارے تو پریشان ہیں ہی مگر کل کے بارے میں پریقیں ہیں۔ کلب کے صدر ناصر خان سے اتنی واقفیت تو نہیں تھی مگر یہ پتہ تھا کہ یہ سچے اورسُچے کالم نگار ہیں‘ ایک اورقومی اخبار میں بھی ان کے ”کلاس فیلو “ رہے یعنی ان کے بھی کالم اسی اخبار میں چھپتے رہے اورہمارے بھی۔

عبدالستاراعوان ہمارے ہی شہر کے خوبصورت لکھاری ہیں ان کے لفظ جتنے خوشبودار ہوتے ہیں ان کی شخصیت اور طرز تکلم بھی اتنا ہی پرشکوہ ہے۔ جس قومی اخبار کا ذکر کیا اسی میں لکھتے ہوئے ناصف اعوان سے تعارف ہوا تھا کئی دفعہ موبائل پر گپ شپ بھی ہوئی یقینا کھرے انسان ہیں تبھی تو ورلڈ کالمسٹ کلب کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹرشاہد شاہ بھی خوبصورت شاعر‘کالم نگار اور ماہر تعلیم ہیں‘ صاحب کتاب شاعرہ ہیں جتنی اچھی شاعر‘کالم نگار ہیں اتنی ہی خوبصورت گفتگوکرتی ہیں سیدبدر سعید کھوجی طبیعت کے باعث بہت جلد مقبولیت کی بلندیوں کو پہنچ چکے ہیں اس نوجوان کی جتنی عمر ہے اس سے کہیں زیادہ تجربہ ان کی باتوں سے چھلکتا ہے۔

‘ان سب سے ہٹ کر اب جناب سعید کھوکھر کی آمد کے بعد کلب کا وقار بڑھا ہے‘ یقینا صحافتی اعتبار سے موصوف قابل ستائش کردار رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ کئی نامور شخصیات بھی اس کلب کا حصہ بلکہ خاصہ ہیں ان تمام کی موجودگی اور دو نہایت ہی خوبصورت تخلیق کار‘لکھاریوں کی سرکردگی بذات خود اس بات کا مظہرہے کہ قلم کی حرمت‘ اس کے تقدس کا خیال رکھنے والے ابھی زندہ ہیں۔

قلم کو قابل فروخت سمجھنے والوں کی سمجھ میں یہ بات آجانی چاہئے کہ قلم کبھی فروخت نہیں ہوتا ‘ ہاں قلم رکھنے والا ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس ہاتھ میں قلم ہو اوروہ فروخت ہوجائے تو وہ یقینا قلم ہوجانے کے مترادف ہے۔ جناب جبار مرزا‘حافظ شفیق الرحمن جیسی قدآور شخصیات کی موجودگی کے باعث ہم پوری ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں بلکہ ان شخصیات کے مقام سے آشنا لوگ بھی مان چکے ہیں کہ ورلڈ کالمسٹ کلب جہاں مثبت طر زعمل اختیار کریگا وہاں قلم والوں کی لاج بھی رکھے گا کیونکہ بعض قلم والوں نے اس کے تقدس ‘حرمت کو نقصان پہنچایا ہے مگرہمارا ایمان کامل ہے اس عظیم ترنقصان کا ازالہ اب ضرور ہوگا۔


اللہ کریم اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طفیل اس کلب کے تمام ممبران کو قلم کی حرمت ‘تقدس کا محافظ بنائے اورجس امید کی ان سے توقع کی جارہی ہے وہ ان پر پورا اترنے میں کامیاب ہوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :