رضو شاہ

جمعہ 15 جولائی 2016

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ستمبر 1997ء میں مجھے ملتان میں ڈاکٹر لال خاں، منوبھائی،جاوید شاہین سمیت ملک بھر سے آنیوالے اپنے متعدد ساتھیوں کو اپنی معیت میں فورٹ منرولیکر جانا تھا۔میں دوپہر کوہی ملتان پہنچ گیا تھا اور اسٹیشن پر کراچی سے آنے والی ٹرین کے انتظارمیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر شخص ‘جنہوں نے چلنے کے لئے ایک آہنی چھڑی کا سہارالیا ہوا ہے سامنے کھڑے مجھے گھورے جارہے ہیں۔

آخر کا ر وہ میرے سامنے آگئے اور میرا نام لیکر پکارا۔میں نے حیرانگی میں ڈوبتے اثبات میں سرہلایا اور ان سے ہاتھ ملانے کے لئے بڑھادیا۔گاڑی آنے کا اعلان ہوچکاتھابلکہ گاڑی پلیٹ فارم میں داخل ہوچکی تھی،میں نے عجلت میں ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے اپنا تعارف سردار افتخار فخر چھاوڑی ایڈووکیٹ کے نام سے کرایا۔

(جاری ہے)

میری حیرانگی بھانپتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے منو بھائی نے آپ کے متعلق بتایا تھا اور یہ بھی کہ آپ اسٹیشن پر اپنے ساتھیوں کے استقبال کے لئے ہونگے۔

مگر آپکی اور میری تو کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی تو پھر آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا ؟ میں نے سوال کیا ۔ایک انٹرنیشنلسٹ مارکس وادی کیسا ہوسکتا ہے ؟کیا میں اتنی بھی نہیں پہچان سکتا،ایڈووکیٹ صاحب نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔ میں حیران تھا اور شک کررہا تھا کہ مبادہ !یہ صاحب کسی ایجنسی سے تعلق رکھتے ہوں اور ہماری تنظیمی سرگرمی کو مانیٹر کرنے کی ڈیوٹی میں حد سے بڑھ چکے ہوں۔

ٹرین سے دوستوں کو رسیو کیا تو ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے ایک ہی جگہہ رک جانے والے چھاوڑی صاحب پھر آن دھمکے۔اسی اثنا میں لاہور سے آنے والی شالیمار ایکسپریس بھی منو بھائی ،لال خان اور جاوید شاہین کو لیکر پہنچ گئی۔انکے پہنچنے کے بعد چھاوڑی ایڈووکیٹ کی تصدیق ہوگئی بلکہ مجھے پہچان لینے کی انکی پراسرار صلاحیت کا وہ مزے لے لیکر تذکرہ کرتے رہے۔

اسٹیشن سے تیس سے زائد لوگوں کی معیت کو ہم اسٹیشن سے باہر لیکر نکلے تو جاوید شاہین نے سب سے پہلے چائے پینے کی فرمائش کردی۔میں اسٹیشن سے باہر کسی ریستوران پر جانے لگا تو چھاوڑی صاحب نے فرمایا چھوڑیں کامریڈ! باہر کسی اچھی جگہ چلتے ہیں۔ عزیز ہوٹل والے چوک سے چند لوگ چھاوڑی صاحب کی آٹومیٹک گاڑی میں اور باقی پبلک وین میں بیٹھے او ر نذدیک ہی ایک کافی اچھے ریستوران میں پہنچ گئے۔

میرا ماتھا ٹھنکا،میں ایک غریب کامریڈ اور تیس بندوں کو یہاں چائے پلانے کا اہتمام میری جیب سے بہت ہی بھاری بھرکم تھا۔میری تو چائے اسی سوچ میں حرام ہوگئی کہ بل کیسے دونگا۔مگر چھاوڑی صاحب بھانپ گئے اور میری اس مشکل کو اپنی’ دریا دلی‘ سے حل کردیا۔ ہم فورٹ منرو روانہ ہوگئے۔ چار دن کے بعد پھر واپسی بذریعہ ملتان ہوئی۔اسی اثنا ء میں ملتان میں انقلابی کام کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوچکی تھی،لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ کچھ دن میں ملتان میں ہی رہ جاؤں اور کام کے امکانا ت کا جائیزہ لوں۔

منوں بھائی نے میری رہائش اور کھانے پینے کے معاملات کی ذمہ داری اپنے طور پر ہی سردار افتخار فخر چھاوڑی پر ڈال دی اور کہا کہ میں ان سے با ت کرلوں گا۔ملتان علی الصبح پہنچے تو چھاوڑی صاحب نے تیس لوگوں کے ناشتے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ناشتہ ! کیا تھا،میں نے تو اپنی زندگی میں اتنے لوازمات ایک ساتھ ایک میز پر نہیں دیکھے تھے۔شہد،مکھن،لسی ،پراٹھے،ساگ،چکن،آملیٹ ،فرائی انڈے،بریڈ اورطرح طرح کی ڈشیں۔

ہم سب دم بخود رہ گئے۔ناشتہ ‘دستر خوان اور میزبانی کے انداز کی مرعوبیت میں ہی دب کے رہ گیا ۔منوبھائی،لال خاں اور جاوید شاہین اور ایک دو کے علاوہ سب ساتھی روانہ ہوگئے۔ دوپہر کا کھانا بھی چھاوڑی صاحب کے گھر ہی تھا،اس کھانے کے سامنے صبح والا ناشتہ شرمارہا تھا۔بلامبالغہ تیس سے زیادہ ڈشیں تھیں اور کھانے والے دس سے بھی کم۔مجھ جیسا غربت کی لکیر سے بہت ہی نیچے رہنے والا اور اکثر وبیشتر فاقہ کشی کا شکار شخص ‘اس دستر خواں پر عجب شرمندگی اوربے گانگی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔

خیر دوستوں کی موجودگی میں چند لقمے حلق سے نیچے اس احساس کے ساتھ اتارے کہ جانے کھانے کی ڈشوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے حفظ مراتب کو ملحوظ بھی رکھ پایا ہوں کہ نہیں۔رات کو ملتان کے دانشور چھاوڑی صاحب کے ہاں مدعوتھے۔حیدرعباس گردیزی،الیاس خاں،حبیب اللہ شاکر،روف خاں لنڈ،لالہ اسد پتافی،طارق چوھدری سمیت بیس سے زائد افراد تھے،ہاں ان میں رضو شاہ بھی تھے،میری اس سادہ وضع قطع والے عظیم انسان سے پہلی ملاقات تھی۔

عالمی صورتحال اور پاکستان کے مستقبل کے ساتھ پاکستان میں سوشلزم کے امکانات پر رات گئے بحث ہوئی۔رضو شاہ ان تمام لوگوں میں زیادہ سوالات کرنے وا لوں میں شامل تھے اور ان کا عمومی طور پر اس بات پر اتفاق تھا کہ سوائے طبقاتی جدوجہد کے کوئی اور طریقہ نہیں ہے جس میں ہمہ قسم کے حقوق کی طرف بڑھا جاسکے۔سرائیکی قومی سوال پر انکے جذوی قسم کے تحفظات یا سوالات تھے مگر وہ عمومی بحث سے اتفاق کررہے تھے۔

حبیب اللہ شاکر جن کاماضی این ایس ایف سے تھا وہ بحث میں اور بعد میں ’تائب‘ ہی نظر آئے۔کوئی ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس بھی تھے جو ہم سے پچھلے بیس سال کی ”جدوجہد“ اور انکے نتائج کا حساب مانگ رہے تھے۔اختتام محفل پر چھاوڑی،حیدر گردیزی،الیاس خاں اور رضو شاہ نے مکمل اتفاق سے ملتان میں مارکسسٹ سٹڈی سرکل قائم کرنے اور محنت کش طبقے میں کام کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

مجھے ان دوستوں کے ساتھ کوارڈینیٹر کے طور پر کام کرنے کا کہا گیا ۔ اگلے دن لاہور کے کچھ دوستوں نے بائی ائیر جانا تھا اور مجھے ابھی کم ازکم ایک ہفتہ ملتان میں ہی رہنا تھا،اطمنان بخش بات یہ تھی کہ ملتان میں قیام و طوام کا تو بندوبست ہوچکا تھا۔چھاوڑی صاحب کی گاڑی میں ملتان ائیر پورٹ گئے، منوبھائی،جاوید شاہین کے طیارے نے ابھی اڑان نہیں بھری تھی کہ چھاوڑی صاحب نے واپسی کا رخت باندھا۔

پرانے ایئرپورٹ کے مین گیٹ سے نکلتے ہیں ’سردار افتخار فخر چھاوڑی ایڈووکیٹ‘ یکا یک نے زناٹے دار سوال داغ دیا ‘گویا مجھ پر بم گرادیا ہو۔پوچھنے لگے ،آپ کو کہاں ڈراپ کردوں؟میرا سر گھوم گیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا…اوسان بحال کرنے میں زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے میں نے جواب دیا،یہیں اتاردیں۔نہیں نہیں یہاں کہاں؟چھاوڑی صاحب بولے،کامریڈ !جہاں بولو میں وہیں اتاردوں گا،آپ تکلف سے کام نہ لیں۔

میرے لئے تو پورا ملتا ن ہی اجنبی تھا ،میں نے کہا سردار صاحب بس آپ مجھے یہیں اتاردیں۔سردار صاحب نے بھی بلاوجہ کا ’بوجھ ‘ اتارنا ہی تھا،گاڑی کو بریک لگائی اور دروازہ ان لاک کردیا۔نیچے اترا ،اب کہاں جاؤں؟کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ آٹومیٹک گاڑی میری آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو میرے ذہن میں مسکین ،سادہ اور عاجزی کا پیکر نظر آنے والے رضو شاہ کا سراپا گھوم گیا۔

میرے ذہن میں زمان جعفری ،امام بارگاہ اور چوک کمہاراں والا کے لفظ چل رہے تھے۔ مکان ڈھونڈنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔دروازے پر ناگہانی آفت بن کر آنے والے بن بلائے مہمان کو دیکھ کر ’رضو شاہ‘ کے نیک نیت چہرے پر ذرا بھی پریشانی نظر نہ آئی۔ انہوں نے بیٹھک کا دروازہ کھولا،ایک پرانی وضع کا پلنگ، ایک ٹوٹا ہوپرانا صوفہ اور ایک کرسی ،یہی سامان تھا اس ڈرائنگ روم کا۔

اگلے چار دن رضو شاہ نے اپنی زندگی کے سارے اسباب مجھے دان کردئے۔ سید فیملی اور پردہ داری پھر ایک ایسا اجنبی جس کا کوئی اتاپتا تھا نہ رضو شاہ نے پوچھ گوچھ کی۔البتہ رحیم یارخاں کے دوستوں کے تذکرے ہوتے رہے۔گھر میں کھانا کھلاتے،بیٹھک مجھے ہی سونپ دی ۔ملتان بھر کے انقلابیوں سے ملادیا، بلکہ بیشتر کے پاس اپنی گرہ سے کرایہ خرچ کرکے لے گئے۔

میں نے اپنا کام چار دنوں میں ہی مکمل کرلیا۔یہ چار دن اور اس سے پچھلے دودنوں نے مجھے مڈل کلاس کی نفسیات،عادات اور ترجیحات ،شوبازی اور اصلیت کے ساتھ انکی انقلاب کے ساتھ منسلکیت کی حقیقت آشکار کرنے میں مدد دی اور رضو شاہ جیسے ایک غریب ،سادہ اور من کے سچے سیاسی کارکن نے مجھے ساری زندگی کے لئے گرویدہ بنا لیا۔ہماری سیاسی ہم آہنگی کے پروان نہ پانے کی مکمل ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ میرے پاس وسائل کی کمی نے اس ربط کو فعال نہ ہونے دیا۔

ابھی مئی کے دوسرے ہفتے‘رات کو ہم حیدر عباس گردیزی کے ہاں تھے کہ میں نے رضو شاہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔صبح ملتان آرٹ کونسل میں منعقدہ تقریب میں ہماری مختصر اورآخری ملاقات ہوئی۔افسوس کہ اب سوائے یادوں کے کہیں مدبھیڑ نہیں ہوسکے گی۔رضو شاہ جی! آپ دنیا سے سدھارگئے مگر میرے دل میں آخری دھڑکن تک زندہ رہیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :