کیاپانامہ کے گناہ دھل چکے۔۔۔۔؟

بدھ 20 جولائی 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

حاجی صاحب واقعی بڑے دل وگردے کے مالک ہیں ۔۔اپنی خوش اخلاقی۔۔خوش مزاجی اورچہرے پرہمہ وقت کی بے قابومسکراہٹ کے ذریعے انہوں نے بڑوں کے ساتھ ہمارے جیسے چھوٹوں کوبھی اپناگرویدہ اورمریدبنائے رکھاہے۔ہرجانے اورانجانے سے فری گپ شپ کے باعث کئی لوگ حاجی صاحب کوبے سراوربے محل باتیں کہنے کے ساتھ بسااوقات برابھلابھی کہہ دیتے ہیں ۔اکثراوقات توغیروں کے ساتھ کئی اپنوں کی مبارک زبانوں سے بھی حاجی صاحب کیلئے اوپوڈری۔

۔اوچرسی۔۔لگتاہے تازہ تازہ پی کے آئے ہوجیسے کئی ناقابل برداشت جملے ہونٹوں کوچھوتے ہوئے ہوامیں معلق ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجودحاجی صاحب اپنی زبان سے شکوے اورشکایت کے کسی ایک پھول کوبھی زمین پرگرنے نہیں دیتے۔حاجی صاحب کی جگہ ہمارے جیسے چھوٹے دل اورگردے کاکوئی شخص ہوتاتویقیناًہرروزدوسروں کے سرپھاڑنے کے ساتھ اس کے اپنے سرمیں بھی درجن کے قریب ٹانکے ضرورلگتے۔

(جاری ہے)

۔عدم برداشت کے موجودہ دورمیں حاجی صاحب میاں محمدنوازشریف جیسے برداشت کاسالم پتھر۔۔کالابت اورپہنچی ہوئی سرکارہے۔کمپلیکس ہسپتال کامینٹیننس ڈیپارٹمنٹ توآبادہی حاجی صاحب پرہے۔کام سے جنون کی حدتک محبت کے باعث حاجی صاحب ہروقت کسی نہ کسی کوچھیڑنے یاکسی شے کوٹھیک کرنے میں لگے رہتے ہیں۔۔ وہ الگ بات ہے کہ حاجی صاحب کاسیدھاکام بھی ہمیشہ الٹاہوتاہے۔

۔کمپلیکس ہسپتال میں اگرکہیں کسی نلکے میں پانی نہ آتاہوتوسمجھ لوکہ اس نلکے کوحاجی صاحب کے مبارک ہاتھ لگے ہوں گے ورنہ نلکے کی اتنی مجال نہیں کہ وہ پانی کوروک سکے۔کہیں سے تیل وپانی نکالناتوحاجی صاحب کے بس کی بات نہیں لیکن وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کی طرح پانی کے رواں دواں سمندراوردریاخشک کرناحاجی صاحب کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں ۔

وزیراعظم سے یادآیامیاں نوازشریف کوپانامہ سے دل میں جوتکلیف شروع ہوئی تھی وزیراعظم اس کاکامیاب علاج کرانے کے بعدکب کے لندن شریف سے واپس آچکے ہیں ۔۔وزیراعظم میاں محمدنوازشریف۔۔ان کے ر فقائے کار۔۔مسلم لیگ ن کے نادان کارکن اوردن رات میاں مٹھوکے گیت گانے والے اس غلط فہمی کے شکارہیں کہ پانامہ کی کہانی رات گئی بات گئی کی طرح تمام ہوچکی۔

یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کے بائی پاس آپریشن کے ذریعے دل کی صفائی کے ساتھ میاں صاحب سے پانامہ کے گناہ بھی دھل چکے ہیں لیکن حقیت اس کے بالکل برعکس ہے۔ رواں دواں سمندراوردریاخشک کرنے والوں کے گناہ بھی پھرسمندراوردریاکے برابرہوتے ہیں جن کاکسی ایک آپریشن سے دھلناآسان نہیں نہ ہی وہ اتنی جلدی دھل سکتے ہیں ۔۔پانامہ کی روسے وزیراعظم میاں نوازشیریف بھی شریف ہونے کے باوجودملک کے 19کروڑعوام کے مجرم ہیں ۔

۔باہرکی دنیامیں جنہوں نے بھی آف شورکمپنیاں بنائیں وہ سب گناہ گارلیکن میاں صاحب ان سے بھی زیادہ گناہ گاراورمجرم اس لئے کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں ۔وزیراعظم کاکام عوام کے حلق سے نوالہ نکال کرسات سمندرباہرپھینکانہیں بلکہ اٹھ سمندرپارسے لاکرعوام کے منہ میں ڈالناہوتاہے۔جوشخص شیر۔۔گیدڑ۔۔لومڑی اوربلی کی طرح دوسروں کے منہ سے نوالہ چھینے وہ لٹیراتوہوسکتاہے پر عوام کاوزیراعظم نہیں ۔

۔اس ملک کے 19کروڑعوام نے میاں نوازشریف کواس لئے ووٹ نہیں دےئے تھے کہ میاں صاحب پانامہ میں نام کمائیں بلکہ عوام نے تونوازشریف سے یہ امیدیں وابستہ کی تھیں کہ میاں صاحب اقتدارمیں آکرملک سے دہشتگردی ۔۔مہنگائی ۔۔۔۔غربت وبیروزگاری کاخاتمہ کریں گے ۔۔جن لوگوں کواپنی رعایاسے زیادہ آف شورکمپنیوں کی فکراورمال بنانے کاشوق ہووہ عوام کے حکمران بننے کے اہل نہیں ۔

اللہ کی لاٹھی بے آوازہوتی ہے ۔۔جولوگ دوسروں کے منہ سے نوالہ چھین کرتجوریاں بھرتے ہیں وہ کبھی آرام وسکون سے نہیں رہتے۔۔ملک کے عوام بھوک وافلاس سے مریں اورحکمران آف شورکمپنیوں کے مالک بنتے پھریں ایسے میں یہ حکمران پھراللہ کے عذاب سے کیسے محفوظ رہیں گے۔۔پانامہ کے ٹی آراوز۔۔اپوزیشن اتحاد۔۔لانگ مارچ ۔۔احتجاج اوردھرنوں کی دھمکیاں یہ حکمرانوں کے لئے عبرت حاصل کرنے کی واضح نشانیاں اوراشارے ہیں ۔

۔اپنی طرف بڑھتے خطرات اورجمہوریت پرکالے بادل دیکھ کربائی پاس کے باوجودبھی اگرمیاں نوازشریف کانرم ونازک دل آج بھی بے وقت۔۔بے ضرورت اوربے محل دھڑک رہاہے اورمیاں صاحب دردسے کراہ رہے ہیں تواس کی بڑی وجہ دوسروں کے منہ سے نوالہ چھین کران کے حقوق پامال کرناہے۔میاں نوازشریف کوجس طرح مریم نوازاورحسین نوازسے پیاراوران کی فکرہے اسی طرح اس ملک کے ہرغریب کوبھی اپنے بچوں سے حدسے زیادہ پیاراوران کے کھانے پینے کی فکرہے۔

اس ملک میں روزانہ کتنے لوگ مہنگائی اورغربت کے ہاتھوں بھوک وافلاس اوربنیادی سہولیات نہ ملنے کے باعث ایڑھیاں رگڑرگڑکرجان دے دیتے ہیں ۔۔کتنے معصوم اورپھول جیسے بچے تہجدکے وقت گرمی اورسردی کی پرواہ کئے بغیرگھرکانظام چلانے کے لئے بڑے شاپراورتھیلیاں ہاتھ میں اٹھائے گندگی کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرنے کیلئے اپنی جونپڑیوں سے نکل پڑتے ہیں ۔

۔کتنے غریب اپنی غربت اورقسمت پردن بھرآنسوبہاتے ہیں ۔۔کتنے بچے گھرکاچولہانہ جلنے کے باعث خالی پیٹ روروکرنیندکی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔۔کتنے لوگ انصاف کی تلاش میں دردرکی ٹھوکریں کھانے کے باوجودشام کوخالی ہاتھ اورمایوس واپس لوٹتے ہیں ۔۔اس ملک کی گلی ۔۔محلوں ۔۔شاہراہوں ۔۔چوکوں اورچوراہوں پرایک نظردوڑائی جائے توہرروزگرمی ہویاسردی ہاتھ میں تولئے۔

۔شاپر۔۔شربت۔۔جوس۔۔ٹافیاں وغیرہ اٹھائے کبھی ایک گاڑی اورکبھی دوسری گاڑی کی طرف یہ آوازلگاتے ہوئے۔۔شاپرلیں۔۔جوس لیں۔۔ٹافیاں لیں کی آوازلگانے والے چھوٹے اورمعصوم بچے ضرورنظرآئیں گے ۔۔یہ بھی آخرکسی کے پھول ہونگے۔۔کسی کے لخت جگرہونگے۔۔ان میں بھی کسی کاحسین ہوگا۔۔کسی کی مریم ہوگی ۔۔یہ بچے بھی مریم نوازاورحسین نوازکی طرح اپنے والدین کے بہت لاڈلے اور پیارے ہونگے۔

۔نوازشریف کی طرح ان بچوں کے والدین کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ ان کے ان پھول جیسے بچوں پربھی گرمی کی تپش۔۔اورٹھنڈی یخ ہواکی آمیزش ن لگے۔۔مگرافسوس وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی غربت اورمہنگائی کے ہاتھوں ان کوگرمی کی تپش۔۔اورٹھنڈی یخ ہواکی آمیزش سے بچانہیں سکتے۔۔جس ملک کوحکمرانوں کواپنے بچوں کے روشن مستقبل کے سواکسی چیزکی کوئی فکرنہ ہو۔

۔۔۔اس ملک کے غریبوں کے بچے پھراسی طرح گلی ۔۔محلوں ۔۔شاہراہوں ۔۔چوکوں اورچوراہوں میں تماشابنتے ہیں ۔۔اورجس ملک میں غریب تماشابنے وہاں کے حکمرانوں کوپھرایک نہیں دل کے تین تین بائی پاس آپریشنوں سے گزرناپڑتاہے۔۔جودل غریب کے لئے نہ دھڑکے ۔۔وہ پھرویسے ہی اس طرح دھڑکتاہے کہ پھردھڑکتاہی رہتاہے۔۔وزیراعظم نوازشریف کایہ پہلابائی پاس تھا۔

۔اب بھی اگریہ نہ سنبھلے توپھرایسے ایک اوربائی پاس سے بھی گزرناپڑے گا۔اللہ کی لاٹھی بے آوازہے۔۔اللہ کے ہاں دیرہے اندھیرنہیں ۔۔غریبوں کے حقوق اوروسائل پرشب خون مارنے والے کبھی بھی سکون کی زندگی نہیں گزارسکتے۔۔نوازشریف اگرچاہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی ۔۔پیپلزپارٹی ۔۔جماعت اسلامی سمیت دیگرسیاسی جماعتوں کی شرسے محفوظ رہے تواسے ملک کے 19کروڑعوام کے حقوق کوتحفظ دیناہوگا۔

۔عوام کاحق اگرآف شورکمپنیوں یاکسی دیگرمقاصدکے لئے باہرمنتقل کیاگیاہے تواسے فوری طورپر واپس لاناہوگا۔۔ اللہ جوبڑارحیم وکریم ہے وہ بھی اپنے حقوق معاف کرلیتاہے لیکن لوگوں کے حقوق کبھی معاف نہیں کرتا۔۔ایسے میں نوازشریف جب تک عوام کے حقوق نہیں دیں گے یہ اسی طرح کبھی بائی پاس ،کبھی سیاسی اورکبھی فوجی آپریشنوں سے گزرتے رہیں گے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :