ترکی میں فوجی بغاوت

جمعرات 21 جولائی 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے ترکی میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل سے سب آگاہ ہیں‘ لیکن یہ شاید کوئی نہیں جانتا کہ اس کے پس منظر میں کیا عوامل کارفرما تھے اور ہیں۔زیر نظر سطور میں ہم انہی کا جائزہ لیں گے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ترکی میں ہونے والی حالیہ فوجی بغاوت پوری فوج کی جانب سے نہیں تھی بلکہ فوج کے ایک حصے نے بغاوت کی تھی۔

ترکی کے کل حاضر سروس فوجیوں کی تعداد6لاکھ39ہزار ہے۔ ان میں سے محض چند ہزار نے اس بغاوت میں حصہ لیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 6000سے زیادہ فوجیوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘ جن میں اعلیٰ رینک کے فوجی بھی شامل ہیں جبکہ 104باغی فوجیوں کی ہلاکت کی خبر ملی۔ بغاوت کے ہنگاموں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک جزوی بغاوت تھی‘ اسی لئے یہ کامیاب نہیں ہو سکی۔

(جاری ہے)

اگر یہ ترکی کی کل فوج کی جانب سے ہوتی تو شاید عوام کے لیے بھی اسے روکنا ممکن نہ رہتا۔ پاکستان میں ترکی کی فوجی بغاوت ناکام ہونے پر بڑی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں تو اس میں خوش ہونے والی کوئی بات نہیں‘ کیونکہ ہمارے ہاں جب بھی مارشل لگا یا لگے گا تو وہ براہ راست چیف آف آرمی سٹاف کے حکم پر ہوا اور کا یہ ڈسپلن ہے کہ فوج اپنے سربراہ کا کہنا مانتی ہے‘ چنانچہ یہ طے ہے کہ جب آرمی چیف نے ایسا کوئی فیصلہ کر لیا تو ان کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔

حکمران اگر ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر دل بہلانا چاہتے ہیں تو بہلا لیں۔
یہ یقیناً ایک بڑی بات ہے کہ عوام اپنے حکمرانوں کے دفاع میں باہر نکل آئے اور انہوں نے باغی فوجیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا؛ تاہم یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترکی کے سارے ہی عوام صدر طیب اردوعان اور وزیر اعظم یلدرم سے خوش ہیں۔

ترکی عوام کی ایک بڑی تعداد ان سے ناخوش بھی ہے اور اس کا اظہار گزشتہ برس ہونے والے احتجاجی اجتماعات میں کیا بھی گیا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدر طیب ادوعان نے ترکی پریس کے ایک بڑے حصے پر قدغن لگا رکھی ہے اور کسی کو کوئی بات آزادی سے کہنے کی اجازت نہیں ہے۔جو ایڈیٹر یا پبلشر بھی ان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا ہے‘ اسے قید کر دیا جاتا ہے؛ چنانچہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ حالیہ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد طیب اردوعان طاقت کے نشے میں بدمست تو نہیں ہو جائیں گے؟ رابرٹ فسک نے دی انڈی پنڈنٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس صورتحال کی کچھ غمازی ان الفاظ میں کی ہے: ”اصل سوال یہ ہے کہ اس کامیابی سے شہ پا کر اب طیب اردوعان فوجی افسروں کے خلاف کے خلاف کس طرح کے ٹرائل کا آغاز کرتے ہیں‘ کتنے صحافیوں کو جیلوں میں ڈالتے ہیں‘ کتنے اخبارات بند کرتے ہیں‘ کتنے کرد شہریوں کو موت کی نیند سلاتے ہیں… شاید ہم چند ماہ یا چند برسوں بعد ایک اور شب خون دیکھیں‘ لیکن وہ موجودہ شب خون جیسا نہیں ہو گا “۔

پچھلے کچھ عرصے سے مسلمانوں کی تحریروں اور خطابات میں مسلم امہ کا لفظ بڑی تکرار اور شدو مد کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ مسلم ممالک پچھلے دو تین سو سال کے دوران کوئی ایسا رہنما‘ کوئی ایسا لیڈر ہی تلاش نہیں کر سکی‘ جس پر سب کا اتفاق ہو۔ یہ خود لیڈر بننے یا کسی مقامی لیڈر شپ پر اکتفا کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہ بھی مسلم امہ کا ایک المیہ ہے‘ چنانچہ جو لوگ اب طیب ادوعان کو صلاح الدین ایوبی کے روپ میں دیکھ رہے ہیں‘ یا مسلم امہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ وہی ادوعان ہیں جو کبھی اسی فتح اللہ گولن کا ایسوسی ایٹ یا پیروکار تھا‘ جس کو وہ اب حالیہ بغاوت کا ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ قرار دے رہے ہیں۔

دونوں کے اختلافات پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فتح اللہ گولن مذہبی بنیادوں پر کام کرتا اور آگے بڑھتا رہا‘ جبکہ طیب اردوعان سیاسی میدان میں کود پڑا۔ اورسیاسی ہتھکنڈے‘ دھونس‘ زور آزمائی کو رواج دیا۔ترکی کی پڑھی لکھی مڈل کلاس گولن کی تحریک سے متاثر ہے اور ان میں ججوں اور اساتذہ کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے‘ اور ظاہر ہے کہ سیاست میں کسی دوسرے کو طاقت پکڑتے کوئی نہیں دیکھ سکتا؛ چنانچہ اب صدر ادوعان کے ہاتھ ایک موقع آیا ہے تو وہ ”گولن “کو اڑا کر رکھ دینے کو تیار نظر آتے ہیں۔

آپ سمجھ لیں کہ یہ اختلافات ویسے ہی ہیں‘ جیسے بھارت میں انا ہزارے اور کیجری وال کے مابین پیدا ہو گئے تھے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ دہلی کا موجودہ وزیر اعلیٰ کیجری وال انا ہزارے کی تحریک کا حامی تھا اور انا ہزارے کی تحریک سوشل موٹیویشنل تحریک تھی۔ کیجری وال نے اسی مقبولیت کو کیش کرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب ہو گیا۔دونوں میں اختلافات ہی اسی بات پر ہوئے تھے کہ کیجری وال انا ہزارے کے دیے ہوئے فیم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا۔


صدر طیب اردوعان نے بغاوت فرو ہونے کے تین روز بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قرار دیا کہ امریکہ ترکی کو توڑنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغاوت ایسی قوتوں کی آشیر باد سے کی گئی‘جو ترکی کو متحد نہیں دیکھنا چاہتیں۔ ان کا یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے‘ لیکن ملک اور قوم کو متحد رکھنے کی ذمہ داری ان کی تھی اور ہے‘ نہ کہ امریکہ یا یورپ کی۔

یہ بڑی خوفناک بات ہے کہ وہ طاقتیں ترک فوج کو تقسیم کرنے کامیاب ہو گئی ہیں‘ جن کی طرف صدر ادوعان نے اشارہ کیا ہے۔ بغاوت کی ناکامی پر خوشی منانے والوں کو غالباً اس بات کا احساس نہیں ہے کہ جیتنے کے باوجود ہار ترکی کی ہوئی ہے کیونکہ اس کی فوج تقسیم ہو گئی ہے‘ داعش جیسا عفریت اس کی ایک سرحد پر کھڑا ہے اور یہود نصاریٰ اس کی دوسری سرحد پر چشم براہ بیٹھے ہیں کہ ترکی کا انجام کیا ہوتا ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی کا بھی مستقبل قریب میں کوئی انجام ہوتا نظر نہیں آتا۔ طیب ادوعان کی آمریت بچ گئی ہے گوعوام نے جمحوریت بچانے میں اپنے حصے کا کردار ادا کر دیا ہے لیکن ترک فوج کے اندر بغاوت ظاہر ہونا ترکی کے لئے اچھا نہیں ہے۔بغاوت کچلی گئی اور عوام زندہ باد لیکن اللہ کے بندو ترکی کی فوج ہی ملک و قوم کی محافظ ہے۔ بالفرض داعش حملہ کر دے یا یورپ کی طرف سے کوئی طالع آزمائی کی کوشش کرے یا پھر روس اپنا بدلہ اتارنے کے لئے اپنی فوجیں روانہ کر دے تو ملک کو بچانا تو فوج نے ہی ہے؛ چنانچہ موجودہ صورتحال میں ترک فوج کا منقسم ہونا نہایت خطرناک ہے اور ترکی کے رہنما اس کا جتنا جلدی ادراک کر لیں ‘ اتنا ہی اچھا ہو گا‘ ورنہ بقول رابرٹ فسک ”… شاید ہم چند ماہ یا چند برسوں بعد ایک اور شب خون دیکھیں‘ لیکن وہ موجودہ شب خون جیسا نہیں ہو گا “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :