اے وادیٴ کشمیر

جمعہ 29 جولائی 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

کشمیر ، جنت نظیر ، لہو لہو ۔ قدم قدم پرموت کے ڈیرے ، وحشتوں کے بسیرے ، عالمی ضمیر مگرپھر بھی خاموش ، بے حمیتی اوربے غیرتی کی بُکل مارے خوابِ خرگوش کے مزے لیتاہوا ۔ عالمی ضمیرمگر ہے کہاں؟۔ وہ توکب کا زورآوروں کے دَر پر سجدہ ریز ہوچکا ۔ سمجھ سے بالاتَر کہ انسانیت آخر کہاں سوگئی ۔ امریکی دانشور نوم چومسکی بھی چیخ اُٹھا کہ وحشت و درندگی کے ایسے مظاہرکبھی دیکھے نہ سنے ۔

بھارتی درندوں کے ہاتھوں میں اسرائیل کی طرف سے بھیجی گئی ”پیلٹ گَنز“جن سے بیک وقت معصوموں کے جسم میں داخل ہونے والے بیشمار ”چھَرے“ ۔ دردسے چلاتاہوا معصوم بچہ کہتاہے ”ابو ! مجھے بہت درد ہورہا ہے“۔ ڈاکٹر کہتاہے کہ اِس معصوم کے جسم میں جگہ جگہ بیشمار چھَرے پیوست ہیں ، کوئی حصّہ محفوظ نہیں ، کئی آپریشن کرنے ہوں گے ۔

(جاری ہے)

مائیں دُہائیاں دیتی ہیں کہ اُن کے بچے اِن چھَروں کی بدولت اندھے ہوچکے ، بہنیں پکاررہی ہیں کہ اُن کے بھائیوں کی بینائی ختم ہوچکی اور بیٹیوں کے بَین کہ وہ یتیم ہوچکیں ۔ صرف چنددنوں میں وحشی مودی کے بُزدِل ”سُورما“ 50 سے زائد لاشیں گراچکے۔ کشمیریوں کا آخر قصور کیاہے؟۔حقِ آزادی۔۔۔۔ صرف آزادی جوہر کسی کاپیدائشی حق ہے لیکن لَگ بھَگ 7 عشرے گزرچکے ، زورآوروں نے اُن کایہ حق سَلب کر رکھاہے ۔

آفرین ہے کشمیری حریت پسندوں پر جن کاعزم جواں اور آزادی کی تَڑپ ، کَسک اورلَگن بھی جواں ۔ وادیٴ کشمیرکی تیسری نسل آزادی کی جنگ لڑتے لڑٹے جوان ہوچکی ۔ یہ نسل کہتی ہے
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تُم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
کشمیری رَہنماء توہمیشہ افہام وتفہیم اورمذاکرات پرہی زوردیتے رہے لیکن نَسلِ نَو کہتی ہے کہ مذاکرات کی بات کرتے کرتے عشرے بیت چکے ، تحریکِ آزادیٴ کشمیرکے کمانڈر بُرہان وانی سمیت ایک لاکھ سے زائد شہادتیں ہوچکیں ، مسلسل ہڑتالیں بھی کی گئیں، مظاہرے بھی ہوئے لیکن درندہ تودرندہ ہی ہوتا ہے وہ بھلا درسِ انسانیت کیاجانے ۔

اب پیلٹ گَن کا جواب AK-47سے دیا جائے گا ۔ اِن نوجوانوں کو نہ اقوامِ متحدہ پراعتبار ہے نہ بین الاقوامی قوانین پر ۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیرکا مسٴلہ توخود بھارت اقوامِ متحدہ میں لے کرگیا اوروہاں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر دستخط بھی کیے کہ کشمیرمیں استصواب رائے کروادیا جائے گا ۔ خودبھارتی وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرونے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے استصواب رائے کاوعدہ بھی کیا لیکن 1948ء سے لے کرآج تک اُس پرعمل درآمد تو نہ ہوسکا البتہ یہ ضرورہوا کہ امریکی دَرکی لونڈی ، گھر کی باندی اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے مارچ 2001ء میں بھارت کے دَورے کے موقعے پرکہہ دیاکہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے متعلق پاس کی گئی قراردادوں کی حیثیت محض مشاورتی ہے ۔

پھرنومبر 2010ء میں سیکیورٹی کونسل میں موجود تنازعات کی فہرست سے کشمیرکو خارج کردیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اقوامِ متحدہ آزادی کی جدوجہد میں مصروف لوگوں کی مددگار ہوتی ہے لیکن آزادیٴ کشمیر کے معاملے میں اقوامِ متحدہ ہمیشہ طَرح ہی دیتی رہی ۔ اِس لیے اقوامِ متحدہ یابین الاقوامی قانون پر اعتبار کون کرے ۔
اُدھر کشمیرکی اخلاقی اورسفارتی سطح پرحمایت کرنے والے پاکستان کایہ عالم کہ یہاں مسندِاقتدار کی خاطر جوتیوں میں دال بَٹ رہی ہے ۔

سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اورپاک فوج کو دعوت دینے والے رَہنما پھولوں کے ہاراور میٹھائیوں کے ٹوکرے لیے محوِانتظار ۔ ”اُن“ کی بے چینی توقابلِ دید جو ”امپائر“ کی انگلی کھڑی ہونے کے انتظارمیں کروٹیں بدل رہے ہیں ۔ ہم تودَست بستہ یہی عرض کرسکتے ہیں کہ فوج ہمارے لیے انتہائی محترم ادارہ ہے اورفوجی جوان قوم کافخر اِس لیے خُدارا ! اِس قسم کے بیانات دے کر فوج کومتنازع مت بنائیں ۔

ہمیں یقین کہ محترم سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے وہم وگمان میں بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہوگا لیکن نیوزچینلز پر بیٹھے ”کھمبیوں کی طرح اُگے اینکرزاور کچھ عاقبت نا اندیش سیاستدان بِلاوجہ چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھا رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو ارسطوانِ دہرسمجھنے والے یہ اصحاب شاید بے خبرکہ پاکستان کوعالمی تنہائی کا شکار کرنے کی بین الاقوامی سازشیں پَل کر جوان ہوچکیں ۔

پڑوسی اشرف غنی (اشرف غنی)بھارتی دوستی کادَم بھرتے ہوئے کہتے ہیں” افغانستان کواتناخطرہ القاعدہ اورطالبان سے نہیں جتنا ریاستِ پاکستان سے ہے “۔ احسان ناسپاسی کی انتہا کہ ہم توعشروں سے 30 لاکھ سے زائد زبردستی کے افغانی مہمانوں کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور اشرف غنی ہمیں ہی آنکھیں دکھارہے ہیں ۔ قولِ علی یادآیا ”جس پر احسان کرو ، اُس کے شَرسے بچو“ ۔

اگر یہی ”مہمان“ اشرف غنی کے دوست بھارت میں ہوتے توبھارت اُنہیں”گھُس بیٹھیئے“ کاخطاب دے کر دھتکار دیتا ۔دوسرے پڑوسی ایران کے ساتھ سرد مہری عروج پر اور تیسرا پڑوسی بھارت توہے ہی ہماراازلی وابدی دشمن۔ایسے میں اگرہمارے رَہنماء اتحاد ویگانگت کاثبوت نہیں دیں گے تومظلوم کشمیریوں کی مدد توکُجا ، ہم اپناوجود بھی خطرے میں ڈال لیں گے۔


آزادکشمیر کے انتخابات میں محیرالعقول کامیابی کے بعدخوشی سے نہال میاں نواز شریف صاحب کشمیریوں کا شکریہ اداکرنے مظفرآباد پہنچے ، جہاں اُن کاوالہانہ استقبال ہوا ۔ اپنے خطاب میں میاں صاحب نے ”کشمیر بنے گاپاکستان“ کانعرہ لگاکر اقوامِ عالم کویہ پیغام دے دیا کہ کشمیر بھارت نہیں ، پاکستان کااٹوٹ انگ ہے اور پاکستان کشمیریوں کی حمایت سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ۔

اب تونوجوان بلاول زرداری کی سمجھ میں یہ بات آجانی چاہیے کہ کشمیرکے معاملے پر نوازلیگ کا موٴقف کتنا دوٹوک ہے ۔ میاں نواز شریف صاحب نے تو اقوامِ متحدہ میں بھی واشگاف الفاظ میں کشمیریوں کی حمایت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیاتھا کہ تنازع کشمیرکا حل نہ ہونا اقوامِ متحدہ کی شدید ناکامی ہے ۔ امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات پربھی وزیرِاعظم نے اپنے اِسی موٴقف کا اعادہ کیاتھا البتہ پیپلزپارٹی کے کسی بھی دَورِ حکومت میں کشمیریوں کی یوں کھُل کرکبھی حمایت نہیں کی گئی ۔ ہم اپنے رَہنماوٴں سے یہی گزارش کرسکتے ہیں کہ وہ کم ازکم مسلہٴ کشمیرپر تومتحد ہوجائیں کہ لہورنگ کشمیرکی یہی پکارہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :