ٹی اور آر یا عوامی ووٹوں پر ڈاکہ

منگل 9 اگست 2016

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

مبینہ طور پرایک جرمن اخبار کے توسط سے منظر عام پر آئی پانامہ پیپرز دستاویزات کو پڑھنے کا کام ایک سو نوے صحافیوں پر مشتمل صحافیوں کی ایک امریکی تنظیم نے کیا۔ صحافیوں کی یہ امریکی تنظیم ، ایک اور امریکی تنظیم سینٹر فار پبلک انٹگریٹی نے ۱۹۹۷ میں قائم کی تھی۔ سینٹر فار پبلک انٹگریٹی کو امریکی سی آئی اے سے منسلک فورڈ فاوٴنڈیشن، معروف یہودی ارب پتی جارج سارس اور ارب پتی راک فیلر فیملی کی طرف سے فنڈنگ کی جاتی ہے۔

امریکی ارب پتیوں کی فنڈنگ سے قائم ہونے والی اس تنظیم کے ڈونرز میں کئی اور امریکی تنظیمیں اور شخصیات بھی شامل ہیں۔ا س تنظیم کے ایک سو نوے ممبروں میں سے کئی ، دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی ہیں، کیونکہ اس تنظیم نے امریکہ کے علاوہ کئی اور ممالک سے بھی ایک ایک دو دو صحافیوں کو اپنا ممبر بنایا ہُوا ہے ۔

(جاری ہے)

بتایا گیا کہ ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات جو دو اعشاریہ چھ ٹیرا بائٹ یا دوہزار چھ سو گیگا بائٹ کمپیوٹر ڈیٹا پر مشتمل تھیں اور جن میں دولاکھ سے زائد کمپنیوں اور ہزاروں لوگوں کے نام تھے ، پانامہ کی کمپنی موزیک فونسیکا کے ایک سابق ملازم نے چُرا کر ایک جرمن اخبار کے حوالے کردیں۔

مزید بتایا گیا کہ چونکہ ڈیٹا بہت زیادہ تھا اور وہ جرمن اخبار اکیلا اس ڈیٹا کو ہینڈل نہیں کر سکتا تھا ، اسلئے اُس جرمن اخبار نے ایک سو نوے ممبروں پر مشتمل امریکی صحافیوں کی تنظیم کو وہ ڈیٹا دے دیا تاکہ وہ اس ڈیٹا کو پڑھ سکے۔قابلِ غور ہے کہ تین سو سے زیادہ اسٹاف رکھنے والے اس جرمن اخبار نے اپنے ہی ملک کے کسی اور اخبار پر بھروسہ کرنے کے بجائے یہ ڈیٹا امریکی تنظیم کے حوالے کرنا مناسب سمجھا۔

اس فہرست میں سولہ ملکوں کے سابقہ اور موجودہ سربراہان کے نام شامل تھے، ان میں پاکستان سے صرف ایک نام محترمہ بینظیر بھٹو کا ہے۔ اس کے علاوہ انتالیس سے زیادہ ملکوں کے حکمرانوں سے تعلق رکھنے والے عزیز یا دیگر حکومتی عہدیداروں کے نام بھی اس فہرست میں شامل تھے۔ مجموعی طور پر دو سو ممالک کے کئی ہزار لوگوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے۔

تاہم حیرت انگیز بات یہ تھی کہ امریکی تنظیم کی چھانی ہوئی اس فہرست میں کِسی امریکی کا نام نہیں تھا۔ دنیا بھر میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا اور اس پانامہ لیک کے پیچھے چھپے محرکات پر غور شروع ہوگیا۔ شروع میں تو مختلف توجیہات سامنے آتی رہیں مگر بات نہ بنتی دیکھ کر کچھ دنوں کے بعد اڑتیس امریکی ناموں کی پانامہ لیکس میں موجودگی کی اطلاع دی گئی۔

امریکی صحافیوں کی تنظیم یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکہ میں کسی پر کیچڑ اچھال کر سول لائیبلیٹی اور ڈیفیمیشن کیس کی صورت میں کتنا بڑا جرمانہ دینا پڑ سکتا ہے، لہٰذا اس نام نہاد پانامہ لیک لسٹ میں ایک آدھ کے سِوا صرف ایسے امریکی نام شامل تھے جو یا تو پہلے ہی مختلف جرائم کی بناء پر سزائیں بھگت رہے تھے یا اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئیے جہاں اس لسٹ میں روس، چین، ملائیشیا ، ارجنٹینا، جارجیا، آئس لینڈ وغیرہ کے سربراہان ، انکے عزیزوں اور دنیا کے مختلف ممالک کے ارب پتی کاروباری افراد اور کھلاڑیوں کے نام شامل تھے وہیں امریکہ کے ایک بس ڈرائیور کا نام بھی شامل تھا جس نے انڈونیشیا میں فراڈ کیا تھا۔ایک امریکی سیلز مین کا نام بھی شامل تھا۔

یہ ہے امریکی ناموں کی حقیقت۔
پانامہ لیکس کے بعد دنیا بھر کے اخبارات نے ان کو اپنی خبروں میں جگہ تو دی مگر صرف چند ہی ممالک میں ان دستاویزات پر کوئی سنجیدہ رد عمل سامنے آیا۔ بہت سے ممالک جن میں چین ، روس اور خلیجی ریاستیں بھی شامل ہیں ، ان دستاویزات کو مخصوص مفادات پر مبنی صرف ردی کا ایک پلندہ ہی سمجھا گیا اور کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

آج دنیا بھر میں پانامہ لیک بھی وکی لیک کی طرح ردی کی ٹوکری میں پہنچ چُکی ہیں۔ ان دستاویزات پر سب سے زیادہ رد عمل پاکستان اور تین لاکھ آبادی کے حامل چھوٹے سے ملک آئس لینڈ میں تشکیل دیا گیا۔ آئس لینڈ میں ہونے والے رد عمل کے ڈانڈے اس مالیاتی بحران سے ملتے ہیں جب ملک معاشی طور پر مکمل بحران شکار ہو گیا تھا۔آئس لینڈکے وزیر اعظم عارضی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے علیحدہ ہوگئے۔

پاکستان میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوششوں کے پیچھے وہ سیاسی عناصر ہیں جو اس بات کو جانتے ہیں کہ عوامی ووٹوں کے ذریعے ان کے اقتدار میں آنے کا امکان فی الحال کافی دور ہے۔ گذشتہ دھرنوں کی بری طرح ناکامی اور فوج کو حکومت کے خلاف اکسانے کی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد سازشی عناصر ہر صورت حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں، چاہے اس کی قیمت پاکستان کا معاشی اور سیاسی استحکام ہی کیوں نہ ہو۔

مختلف انتخابات میں ہونے والی پے در پے شکستوں نے بھی ان عناصر کو اچھی طرح بتادِیا ہے کہ پاکستان کے عوام معاشی اور سیاسی استحکام کی طرف بڑھتا ہُوا سفر کِسی طور پر روکنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلدیاتی انتخابات، کنٹونمنٹ انتخابات اور تقریباً ہر ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد یہ سازشی عناصر اب دھرنوں اور جلوسوں کے ذریعے موجودہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔

اِن سازشی عناصر کو یاد رکھنا چاہئیے، جلسوں اور جلوسوں کی طاقت ہر جماعت کے پاس ہوتی ہے اور پاکستان کے باشعور عوام اس طرح کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) کی آڑ میں اخباری رپورٹ پر وہ عناصر وزیر اعظم کا احتساب کرنا چاہتے ہیں، خود جِن کے نام کسی اخباری رپورٹ نہیں بلکہ مختلف عدالتی اور تفتیشی اداروں کی دستاویزات میں موجود ہیں۔

کیا سوئس عدالت اور لاس اینجلز کی عدالتوں کے فیصلوں کی ایک اخباری رپورٹ جتنی اہمیت بھی نہیں؟ کیا عدالتی دستاویزات کے پلندے اور ہیروں کے ہار کے لاکر کی اہمیت ایک اخباری رپورٹ جتنی بھی نہیں، کیا سرے محل کی رقم وصول کرنے کی دستاویزات کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا راول پنڈی کے ریونیو آفس میں موجود بے نامی ٹرانزیکشن کی دستاویز کی ، ایک اخباری رپورٹ جتنی اہمیت بھی نہیں؟ کیا آڈٹ ریکارڈ میں موجود زکوٰہ ،صدقات، چندوں کے کروڑوں روپے دوست کو آف شور کاروبار کے لئے دینے کی دستاویز کی، ایک اخباری رپورٹ جتنی اہمیت بھی نہیں؟کیا ایک استانی کو ایل پی جی کوٹے ملنے کی دستاویز کی کوئی اہمیت نہیں؟کیا بڑے بڑے بینک لوٹنے والے لٹیروں سے کروڑوں روپے فیس کی صورت میں اپنا حصہ وصول کرنے والے وکالت ناموں کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا گجرات سے لودھراں تک راتوں رات ارب پتی بننے والے پولیس ملازمین کی اولادوں کی جائیدادوں اور قرضہ معافی دستاویزات کی ایک اخباری رپورٹ جتنی اہمیت بھی نہیں۔

کیا چند برسوں میں مسجد کے مولوی کا ارب پتی بن جانا اور دنیا بھر میں موجود اسکی جائیدادوں کی دستاویزات کی ، ایک اخباری رپورٹ جتنی اہمیت بھی نہیں۔ اگر ہے اہمیت تو پھر ٹی او آر میں سب کا نام ڈالا جائے اور سب کی دستاویزات چیک کی جائیں۔ پاکستان کے عوام ٹی او آر اور پانامہ لیک کے نام پر اپنے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالے جانے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :