بیت الحکمت اور عمران خان

جمعرات 11 اگست 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

مسلمانوں کی تاریخ کا سنہرا دور وہ تھا جب علم وتحقیق اور سائنس و فلسفہ عروج پر تھا۔بغداد اس دور زریں کا مرکز تھا اور عباسی خاندان کی حکومت تھی۔ اس دور میں خلیفہ ہارون الرشید نے علم وتحقیق کے ایک مرکز کی بنیاد رکھی جسے دنیا دارالحکمت House of Wisdom کے نام سے جانتی ہے۔ ہارون الرشید کے بعد اُن بیٹے مامون الرشید نے اس بیت الحکمت کو مزید ترقی دی اور اُس وقت وہ دنیا کا سب سے بڑا تعلیم و تحقیق کا مرکز تھا جہاں تمام اہم علوم کے ماہرین اپنے اپنے شعبہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

طب، زراعت، فلکیات، کیمیا، طبیعات، فلسفہ، ادب، آرٹ،انجینئرنگ اور دیگر تمام علوم و فنون کے ماہرین دن رات تعلیم و تحقیق میں مصروف رہتے تھے اور علم کی روشنی آگے پھیلاتے تھے۔

(جاری ہے)

اسی علم کی روشنی سے یورپ منور ہوا جو اس وقت تاریک دور Dark Agesسے گذر رہاتھا۔ دنیا میں علم اور سائنس جو ترقی ہمیں آج نظر رہی ہے اس میں بغداد کے بیت الحکمت کا اہم حصہ ہے۔

اسلامی سلطنت اور بغداد جب تاتاریوں کے ہاتھوں تباہ ہوئی تو امت مسلمہ کا زوال شروع ہوا اور پھر کوئی اور بیت الحکمت قائم نہ ہوا جبکہ اہل مغرب نے اُس بیت الحکمت جیسے کئی ادارے بنائے اور علم و تحقیق کی میراث وہ لے اڑے جس کی بدولت وہ آج دنیا میں ترقی کی معراج پر متمکن ہیں۔ دور حاضر میں پچاس سے زائد مسلمان ممالک ہیں لیکن کسی ایک اسلامی ملک میں بیت الحکمت جیسا ادارہ نہیں بنایا گیا۔

نوے لاکھ کے ملک سویڈن کی تین جامعات کارولنسکا انسٹیٹیوٹ، اپسالا اور لند دنیا کی پہلی سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں لیکن عالم اسلام کی کوئی ایک یونیورسٹی پہلی پانچ سو میں بھی نہیں۔ مالی وسائل رکھنے کے باوجود کسی جگہ ہمیں بیت الحکمت جیسا علم و تحقیق کا مرکز نظر نہیں آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے حکمران جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں اور علم و تحقیق اُن کی ترجیح ہے ہی نہیں۔


عمران خان کی سیاست اور طریقہ کار اور انداز سے اختلاف ممکن ہے۔ کار زار سیاست میں انہوں نے کئی غلطیاں بھی کی ہیں۔ اُن کے کئی سیاسی فیصلوں اور سیاسی جدجہد سے اتفاق لازمی نہیں لیکن اُن کی پاکستان کے لیے تڑپ اور جذبہ سے ہر ذی شعور اور منصف المزاج شخص اتفاق کرے گا۔ شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل لاہور ، پشار اور اب کراچی اس کی مثالیں ہیں۔

میں ہمیشہ اپنی تحریوں میں یہی زور دیتا ہوں کہ معاشرہ کی ترقی کی تکون صحت، تعلیم اور عدل ہے۔ عمران خان عدل کے لیے سیاسی جدوجہد کررہے ہیں جبکہ صحت عامہ کے لیے انہوں نے شوکت خانم کی صورت میں پاکستانی عوام کے لیے گراں قدر کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں انہوں نے نمل کالج قائم کرکے ایسا عظیم کام سرانجام دیا ہے کہ جس کی تعریف بھی ممکن نہیں۔

میاں والی کے پسماندہ علاقہ میں دشوار گذار علاقہ میں علم و حکمت کے پھول اگانے میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ ان کی ہمشیرہ اور نمل کالج کے بورڈ آف گورنر کی رکن محترمہ علیمہ خانم سٹاک ہوم تشریف لائیں اور جب وہ شرکاء کو نمل کالج کی تفصیل بصری سلائیڈوں سے دیکھا رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا یہ کس قدر مشکل کام تھا جس کا بیڑا اٹھانے کا انہوں نے ذمہ لیا۔

۲۰۰۸ء میں اس کی ابتداء کی جہاں نوے فیصد طالب علم مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں اور انہیں ڈگری بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی ملتی ہے۔
نمل کالج کا قیام اپنی جگہ ایک عظیم کارنامہ ہے لیکن اس سے بھی اہم کام وہاں Namal Knowledge City قائم کرنے کا منصوبہ ہے جو میرے نزدیک بغداد میں قائم بیت الحکمت کا اجراء ہے۔ اس نالج سٹی میں بھی بیت الحکمت کی طرز پر سائنس، زراعت، طب، انجینئرنگ، ادب، بزنس اور ٹیکنالوجی پارک شامل ہے۔

اس منصوبے کی تعمیر کاآغاز گذشتہ سال سے ہو چکاہے اور۲۰۲۰ء میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ اس بیت الحکمت میں چھ سکول مل کر علم و تحقیق کی دنیا میں اپنا نام پیدا کریں گے۔ محترمہ علیمہ خانم سے اس منصوبہ کے بارے میں گفتگو کرکے امید کی کرن نظر آئی جس کے ہم سب منتظر ہیں۔ اُن سے ایک گذارش بھی کہ نمل کالج میں صرف تعلیم ہی نہ دی جائے بلکہ تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے جس کا ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی فقدان ہے جس سے انہوں نے مکمل اتفاق کیا۔

عمران خان کی طرح وہ بھی فکر اقبال کی شیدائی ہیں اور انہوں نے مجھے یہ د عوت بھی دی کہ نمل کالج جا کر وہاں لیکچر دوں جو میرے لیے بہت عزت افزائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے عوام اور حکومت نمل کالج اور نالج سٹی کے منصوبہ میں تعاون کریں کیونکہ اس سے فائدہ کسی ایک سیاسی جماعت یا علاقہ کے طلبہ نے نہیں اٹھانا بلکہ پورے ملک کو اس کا فائدہ ہوگا۔ بیرون ملک مقیم لوگوں کو اس منصوبہ کی بھر پور مالی معاونت کرنی چاہیے جو پاکستان کا مقدر سنوارنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انشاء اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :