ایم کیو ایم کی پیدائش ۔ قسط نمبر1

منگل 30 اگست 2016

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

نظریاتی طور پر ایم کیو ایم اسی وقت وجود میں آگئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں لسانی بل منظور کیا اور کوٹہ سسٹم کا نفاذ کیا، صرف اس کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہونا باقی تھا۔ ظالمانہ کوٹہ سسٹم کا نفاذ اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ کم از کم سندھ کی حد تک تمام پاکستانیوں کو برابر نہیں سمجھا جاتا۔ اگر اس اقدام کے پیچھے سندھی وڈیرہ شاہی کے تعصب کے بجائے مقصد دیہی پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو بتدریج ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا ہوتا تو اس صورت میں پسماندہ علاقوں کے لئے اوپن میرٹ سے ہٹ کر ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے تین چار یا پانچ فیصد کوٹہ مختص کر دیا جاتا تاکہ ان پسماندہ علاقوں کے لوگ اوپن میرٹ کی پچانوے فیصد سیٹوں پر مقابلہ کرتے اور اپنی پسماندگی کی وجہ سے پانچ فیصد مخصوص کوٹے سے فائدہ اٹھاتے۔

(جاری ہے)

لیکن ہوا یہ کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی، سندھ کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہروں حیدرآباد اور سکھر کے شہری علاقوں کے لئے چالیس فیصد اور باقی سندھ کے لئے ساٹھ فیصد کوٹہ مختص کر دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں، ہوا یہ کہ شہری اور دیہی کوٹے کو بھی بڑی باریک بینی سے سندھی اور مہاجر کوٹہ بنایا گیا۔کراچی اور حیدر آباد کے وہ ملحقہ مضافاتی علاقے جن میں سندھی زبان بولنے والے افراد مقیم تھے ان علاقوں کو سندھ دیہی میں شامل کیا گیا چاہے وہ علاقے مرکز شہر سے چند کلومیٹر ہی دور تھے، جبکہ ان شہروں کے مرکزی مہاجر اکثریتی علاقے سندھ شہری ٹھہرائے گئے۔

اس دیہی اور شہری کوٹے کو تعلیمی اداروں میں داخلے کے معاملے میں ضلعی کوٹے میں تبدیل کر دیا گیا اور ہر ضلعے کی میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلوں کی سیٹیں مخصوص کر دی گئیں۔ متعصبانہ ذہن کو یہ بھی پتا تھا کہ مہاجر آبادی کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے علاوہ سندھ کے بہت سے دیگر شہروں مثلاً میرپور خاص، نوابشاہ، سانگھڑ، بدین،ٹنڈو آدم، شہداد پور، خیرپور، لاڑکانہ وغیرہ میں بھی مقیم ہے، اور اندرون سندھ کے ان شہروں میں مقیم سندھی زبان بولنے والے تقریباً نوے فیصد لوگ کسی قریبی گاوٴں کا مستقل پتا اور ڈومیسائل رکھتے ہیں یعنی درحقیقت کسی قریبی گاوٴں کے باشندے ہیں جبکہ مہاجر وں کا کوئی گاوٴں نہیں ہے، وہ ہندوستان سے ہجرت کر کے براہ راست ان چھوٹے شہروں اور ٹاوٴنز میں رہائش پذیر ہوئے ہیں۔

لِہٰذا مکمل غیر آئینی طور پر ایک اور زیریں کوٹہ تخلیق کیا گیا اور ان چھوٹے شہروں اور ٹاوٴنز کو شہری علاقے قرار دے دیا گیا۔ تاکہ سندھیوں کا سو فیصد فائدہ یقینی بنایا جاسکے۔ مثال کے طور پر اس زیریں کوٹے کے تحت اگر ضلع بدین میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلوں کی پچاس سیٹیں تھیں تو بدین اور اسکی تحصیلوں کی ضلع اور تحصیل کی شہری کونسلوں کی حدود ، جہاں مہاجر آبادی مقیم تھی کو صرف پانچ سیٹوں کا کوٹہ دیا گیا اور باقی پینتالیس سیٹیں ضلعے کے دیہاتوں میں تقسیم کر دی گئیں جہاں سندھی زبان بولنے والی آبادی مقیم تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی لگائی گئی ضربوں نے مہاجروں کی سیاسی اور سرکاری طاقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد سے ملک بھر میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص مہاجروں کو جو سیاسی، سرکاری، انتظامی اور معاشی قوت حاصل ہوئی تھی اس پر ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو نے شدید ضر بیں لگائیں۔ اس پر طرہ سندھ میں ہونے والے لسانی فسادات تھے۔

اس وقت کی پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس بات کا چنداں ادراک نہ کیا کہ سندھ نہ صرف دو لسانی صوبہ ہے بلکہ اس صوبے میں پنجابی اور پختون بھی کثیر تعداد میں مقیم ہیں۔ اندروں سندھ مہاجر اور پنجابی آبادگاروں پر حملوں نے غیر سندھی آبادی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا۔ حیدرآباد میں نواب مظفر حسین نے مہاجر پنجابی پٹھان اتحاد بنا کر غیر سندھی آبادی کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائی۔

ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی یہی مہارت تھی کہ محض چند سالوں بعد الطاف حسین اور انکے ساتھیوں عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق نے پہلے آل پاکستان مہاجر اسٹودنٹس آرگنائزیشن اور پھر ایم کیو ایم کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی۔ ایم کیو ایم کے قائدین نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اسکی بنیادوں میں چند ایسے فکری مغالطے اور گھتیاں شامل کر دیں جو آج تک نہیں سلجھ سکیں۔

ان مغالطوں کا ذکر چند لمحوں بعد پہلے ان مطالبوں کا ذکر ہوجائے جو ایم کیو ایم کا نصب العین ٹھہرائے گئے۔ اردو زبان بولنے والے مہاجروں کے حقوق کے حصول کے لئے قائم کی گئی اس جماعت کے دو سب سے اہم مطالبے سندھ میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور بنگلہ دیش میں کیمپوں میں محصور پاکستانیوں کی واپسی تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کے انگریز وں کے خلاف لگائے گئے آزادی یا موت والے نعرے کا چربہ حقوق یا موت ایم کیو ایم کا نصب العین ٹھہرا۔ تاہم طاقت حاصل ہوتے ہی ’ جو قائد کا غدار ہے ، موت کا حقدار ہے‘ اور ’ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘ جیسے فسطائی نعرے پارٹی کی پہچان بن گئے۔ (جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :