کڑواسچ

جمعرات 1 ستمبر 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

کہنے کو تو ہم بڑے پاک صاف۔۔۔ قانون پسند۔۔ شریف ۔۔۔ تعلیم یافتہ۔ ۔۔ باشعور ۔۔۔ عقلمند ۔۔۔ سچے اور کمال درجے کے فرمانبردار ہیں لیکن حقیقت میں ۔۔۔ ؟ ان اوصاف اور ہم میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔۔ ہم سے بڑے گندے ۔۔۔ آئین شکن ۔۔۔ بدمعاش ۔۔۔جاہل ۔۔۔ جھوٹے اور کمال درجے کے نافرمان اور کوئی نہیں ۔۔۔ ضد اور انا پرستی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں نہ ہمارامقابلہ کوئی کر سکتاہے ۔

۔ یہ حقیقت کہ سچائی کیلئے ہم جان بھی دے دیتے ہیں لیکن یہ بھی کڑواسچ کہ اگر جھوٹ بولنے کے موڈ میں آئیں تو پھر کسی کی جان لینے سے بھی ہم دریغ نہیں کرتے۔ گلی محلے کی کتابوں میں تو ہم سب بڑے شریف اور فرمانبردار گرداننے جاتے ہیں لیکن جب ہماری بدمعاشی کا روپ اور ضدی آنکھیں سامنے آتی ہیں تو پھر گلی ۔

(جاری ہے)

۔محلوں۔۔شہروں اورصوبوں کے نہیں پورے ملک کے عوام گلوبٹوں کو بھی بھول جاتے ہیں ۔

۔ چند دن پہلے ایک تعلیمی ادارے کے قریب سے گزر ہوا ۔۔۔ سکول کی بیک سائیڈ دیوار پر ایک جملہ اور اس کے عین نیچے گندگی و غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس دیوار پر لکھا تھا۔۔ ”یہاں کوڑا کرکٹ پھینکنا منع ہے“ دیوار پر جس جگہ یہ جملہ تحریر تھاعین اسی کے نیچے لوگوں نے گند پھینک پھینک کر اس کو فلتھ ڈپو میں تبدیل کر دیا تھا۔

گندگی و غلاظت کے وہاں اتنے ڈھیر تھے کہ اس دیوار کے قریب سے گزرنا بھی محال ہورہا تھا۔ اسی طرح ایک مہربان سے ملنے کیلئے ان کے آفس جانا ہوا۔ نرم و ملائم صوفے پر بیٹھنے کے بعد وہاں اس وقت میری حیرت کی انتہاء نہیں رہی جب وہاں بھی میں نے اس سکول جیسا منظر دیکھا۔۔۔۔ آفس میں انہوں نے نمایاں طور پر ایک بورڈ آویزاں کیا تھا جس پر لکھا تھا ۔۔

۔ دفتر میں سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں ۔۔۔ اسی بورڈ کے نیچے سگریٹ کے اتنے ٹکڑے تھے کہ جس کو دیکھ کر وہ دفتر کم اور چرسیوں ۔۔۔ پوڈریوں اور نشئیوں کا گڑھ زیادہ لگ رہا تھا۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔۔ میں نے اس مہربان سے پوچھا کہ کیا یہ کھلا تضاد اور ظلم نہیں ۔۔۔ اس نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔جوزوی صاحب ۔۔ ان لوگوں کو جس کام سے منع کرو یہ اس کے کرنے کو پھر اپنی غیرت اور بہادری سمجھ بیٹھتے ہیں ۔

اس نوٹس لگانے کے بعد اب اس دفتر میں سگریٹ کا دھواں اڑانے والے کیاکہ باہرکے چرسی اورنشئی بھی سگریٹ کے ٹکڑوں کو یہاں پھینکنا اپنی بہادری اور غیرت سمجھ بیٹھے ہیں۔ سگریٹ تو یہاں اکثر لوگ پیتے ہیں لیکن پہلے دفتر میں دروازے کے پیچھے یا کسی کونے میں ایک آدھ سگریٹ کا ٹکڑا پڑا ہوتا تھا۔ کوشش تھی کہ یہاں سگریٹ کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو۔ اس مقصد کیلئے یہ نوٹس لگایا لیکن جب سے یہ نوٹس لگا ہے اس کے بعد سے باہر بھی جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں وہ بھی اختتامی لمحات میں دفتر کا رخ کرکے ٹکڑے یہاں پھینک دیتے ہیں۔

جس ملک میں ہرچیزاوربات کاالٹ مطلب لیاجائے۔۔جہاں ہاں کونا اورناکوہاں میں تبدیل کرکے اپناالوسیدھاکیاجائے وہاں مسائل پرمسائل ۔۔جھگڑوں پرجھگڑے۔۔سکون پربے سکونی اورقتل وغارت کابازارگرم نہیں ہوگاتواورکیاہوگا۔۔اتنے ضدی اوراناپرست توبچے بھی نہیں ہوتے ۔۔جتنے ہم ہیں ۔۔دوسروں کومعمولی اورچھوٹی سی غلطی پرگھنٹوں گھنٹوں لیکچردیتے ہوئے توہم تھکتے نہیں ۔

۔لیکن ہمیں اگرکوئی سیدھاراستہ دکھائے توہم اس کاحشرنشرکئے بغیرپھراس کی جان ہی نہیں چھوڑتے۔۔مساجد۔۔مدارس۔۔سکولوں۔۔ہسپتالوں ۔۔سرکاری عمارتوں۔۔گلی اورمحلوں میں اگرکسی نے ”یہاں کوڑا کرکٹ پھینکنا منع ہے“ کے بورڈآویزاں کردےئے یانوٹس لگادےئے ہیں تواس میں برائی کی کیابات۔۔؟اس ایک جملے کے لکھنے سے غیرت اوربہادری کاکیاتعلق۔

۔؟مساجد۔۔مدارس۔۔سکولوں۔۔ہسپتالوں ۔۔سرکاری عمارتوں۔۔شہروں۔۔گلی اورمحلوں کوصاف ستھرارکھناہماری ذمہ داری اورفرض ہے۔۔ہم میں سے اگرکوئی گلی ۔۔محلے اورگھروں کے باہرکوڑاکرکٹ پھینکتاہے تویہ ظلم ہی نہیں جرم بھی ہے۔۔اب اگراس ظلم اورجرم سے ہمیں کوئی بازآنے کاحکم نہیں مشورہ دے توبجائے نام نہادغیرت اوربہادری کوجگاکراس جگہ کوفلتھ ڈپومیں تبدیل کرنے کی بجائے ہمیں اپنی غلطی کااحساس کرکے اس ظلم اورجرم سے بازآجاناچاہئے۔

غیرت اوربہادری تویہ ہے کہ ہم گلی ۔۔محلوں کے ساتھ اپنے شہروں کوبھی صاف ستھرارکھیں ۔۔بہادری یہ نہیں کہ کوئی اچھائی کامشورہ دے اورہم ان کاجیناحرام کردیں ۔۔بہادری یہ ہے کہ ہم خوددوسروں کے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ۔۔بہادری یہ ہے کہ ہم اپنے گھر۔۔گلی اورمحلے کے ساتھ اپنے شہروں کوبھی ماحولیاتی آلودگی۔۔چوروں ۔۔ڈاکوؤں اورراہزنوں سے محفوظ رکھیں ۔

۔مگرافسوس ہوش کی بجائے جوش کے بھوت ہمارے دل ودماغ ،ذہن اورکندھوں پرایسے سوارہوچکے کہ وہ اترنے کے نام ہی نہیں لے رہے ۔آج پورے ملک میں دیکھاجائے توجہاں بھی جس گلی۔۔محلے یاکسی گھرکی دیوارپر”یہاں کوڑا کرکٹ پھینکنا منع ہے“ لکھاہوگااس کے نیچے آپ کوگندگی اورغلاظت کے انبارہی نظرآئیں گے۔۔یہ ہماری جاہلیت اورپاگل پن نہیں تواورکیاہے۔

۔؟مہذب شہری آئین اورقانون کے ساتھ تو عوامی رائے کابھی دل وجان سے احترام کرتے ہیں ۔۔والدین اوربڑے اگرکسی کام سے منع کردیں توپھراس کام کوکرنامہذب لوگوں کاشیوہ نہیں بلکہ ایساکرناپھربدترین جاہلیت ہے۔ہم توایک بہادر۔۔باغیرت ۔۔تعلیم یافتہ ۔۔انصاف اورقانون پسندقوم ہے ۔۔ہم توان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے خالی ہاتھوں تحریک پاکستان کی صورت میں دنیاکے اندرجرات ۔

۔بہادری اورقربانیوں کی ایسی لازوال اوربے مثال داستان رقم کی کہ جس پر70سال بعدآج بھی اپنوں کے ساتھ غیربھی رشک کررہے ہیں ۔۔کوئی سیدھی بات کرے اورہم اس کاالٹامطلب لے۔۔یہ ہماراشایان شان نہیں۔۔یہ ہمارے اخلاق کے ساتھ کردارکے بھی خلاف ہے ۔۔ہمیں دنیامیں باعزت طورپررہنے اوراپناایک مقام بنانے کے لئے اپنی ان الٹی اداؤں پرہرحال میں غورکرناہوگا۔

عدم برداشت کی بیماری نے آج ہمیں تعلیم وشعورکے ہوتے ہوئے بھی جاہلیت کے دورجیسی زندگی گزارنے پرمجبورکردیاہے۔۔چھوٹوں پرشفقت اوربڑوں کااحترام یہ تومہذب قوم کی پہچان اورنشانی ہے مگرافسوس کہ ہم آج اپنی یہ پہچان بھی بھلابیٹھے ہیں ۔۔آج ہمارے اردگردمسائل کے یہ جوانبارلگے ہوئے ہیں یہ کوئی آسمان سے نہیں اترے ۔نہ ہی کسی طوفان میں امریکہ،برطانیہ یاکسی اورملک سے آئے۔

نہ ہی یہ مسائل اورپریشانیاں زمین کے اندرسے نمودارہوئیں۔اگرٹھنڈے دل ودماغ سے سوچاجائے تویہ سارے مسائل ہمارے اپنے پیداکردہ ہیں۔۔مہنگائی ۔۔غربت ۔۔بیروزگاری ۔۔چوری ۔۔ڈکیتی ۔۔بدامنی ۔۔دہشتگردی سمیت دیگرتمام مسائل ہمارے اپنے ہاتھوں کے لگائے گئے ہیں۔۔جب تک ہم خودان مسائل کوختم کرنے کی تدبیراورعلاج نہیں کریں گے۔۔اس وقت تک یہ مسائل کبھی ختم نہیں ہوں گے۔۔ہم اگرآج ہی اپنے رویوں میں تبدیلی لاکرمثبت سوچ۔۔پیارومحبت سے آگے بڑھیں تودنیاکی کوئی طاقت ہمیں ترقی وکامرانی کی منزل چھونے سے نہیں روک سکتی لیکن جب تک ہم نا کوہاں اورہاں کونامیں لیں گے تب تک دنیاکی کوئی طاقت ہمیں ان مسائل کے گرداب سے باہربھی نہیں نکال سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :