ایک اچھا مستقبل ، پاکستان کا مقدر

پیر 5 ستمبر 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

میں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ اتنا بڑا کاروباری نیٹ ورک جو صرف ٹیکس کی مد میں حکومت کو دو ارب روپے ادا ء کرتا ہے ، سود کے بغیر چل رہا ہے ۔جس کے بانی، حاجی بشیر جو نیک، سچے اور خداترس آدمی تھے کی سر پرستی میں چھوٹی سی ایک ٹیکسٹا ئل فیکٹری سے شروع ہو نے والا یہ ادارہ اب ایک بڑے کاروباری ایمپائر میں بدل چکا ہے ۔ میر ی حیرت میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب مجھے معلوم ہوا کہ ستاہ کیمیکلز کے چئیر مین ماہانہ بنیادوں پر ہزاروں مستحق طالبعلموں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہے ہیں ۔

رفاہ عامہ کے جو ادارے انہوں نے بنائے ہیں وہ قابل تحسین ہیں ۔ بیواؤں، یتیموں اور ضرورت مند لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر انکے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے بغیر کسی لالچ و خو شامد کے خدمت خلق کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)


شدید محنت اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزان کرنے کی حسن نیت کے ساتھ خدمت کا نسلی جذبہ بھی ہے جو ان کے پورے خاندان کے ہر فرد میں موجود ہے ۔

اللہ کی راہ میں خرچ کر نے اور اس کی مخلوق کا بھلا چاہنے کی ہی وجہ ہے کہ نہ صرف ان کے کاروبار میں برکت ہو رہی ہے بلکہ ان کی عزت و احترام میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ اللہ سے تجارت کے بدلے میں پھر جس کے نتیجے میں قرآن کریم کی روشنی میں ایسے لوگوں ہر طرح کے غم اور خوف و حزن سے بچا لئے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کامیابیوں کی منازل طے کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت کوئلہ سے چلنے والا 40میگاواٹ کا پاور پلانٹ سوا دوسال کی مدت میں ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے مکمل کر لیا گیا ہے جو چین کے فنی تعاون سے ممکن ہوااور جسے مزید 50میگاواٹ تک بڑھانے کی گنجائس ہے ۔

لاہور اور راولپنڈی میں جب ہنگامہ بر پاکر نے والے ، لوگوں کا رستہ روکنے والے اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے رکاوٹیں کھڑے کر نے والے احتجاج کر رہے تھے وہاں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس پاور پلانٹ کا افتتاح کر نے فیصل آباد پہنچے ہوئے تھے ۔
قارئین! ظلم کی بات تو یہ ہے کہ1960میں جب ہم کوریا سے کئی آگے تھے لیکن اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو کوتاہیوں کی وجہ سے اب کوریا کہاں اور ہم کہاں؟جبکہ1999میں پاکستان پورے ساؤتھ ایشاء میں سب سے آگے تھا لیکن 2013کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا شمار سب سے پیچھے تھا۔

بلا شبہ چند ایک کو تاہیوں کے علاوہ ہماری جمہوری اور فو جی قیادت کی انتھک محنت اور پیشہ وارانہ صلا حیتوں کی وجہ سے کئی سالوں سے پستی کی جانب بڑھتا ہوا پاکستان اپ اپنا کھویا ہوا مقام واپس لے رہا ہے۔ اب ایک دفعہ پھر سے پاکستان کا شمار ساؤتھ ایشیا ممالک میں سر فہرست آرہا ہے اور اب پاکستان کو ایمرجنگ اکانومی کا درجہ مل چکا ہے جس کا سہرا مسلم لیگ کی حکومت کو جا تا ہے ۔

پاور پلانٹ کے افتتاح کے موقع پروزیر اعظم میاں نواز شریف اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انتہائی پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے ۔ایک رو ز قبل کالا شاہ کاکو میں ایسٹرن بائی پاس کے شاندار افتتاح کے بعد ملک کو اندھیروں سے اجالے کی جانب لے جانے والے عظیم الشان منصوبے کا آغازاس چیز کا ثبوت ہے کہ آئندہ سال میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گاجس کا اظہار خود وزیرا عظم نے بھی کیا ۔


وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران جہاں کئی منصوبوں کا ذکر کیا وہاں اپنے دور حکومت میں کئے گئے اقدامات کا پر بھی روشنی ڈالی ۔ جس میں ڈھائی سالوں میں 15سے16گھنٹے اذیت ناک لوڈ شیڈنگ کو صرف 6گھنٹوں پر لانا ایک بڑا کار نامہ ہے ۔ پچھلے دور حکومت میں لوڈشیڈنگ کے عذاب کی وجہ سے جہاں عام عوام پریشان تھی وہاں کاروباری طبقہ اور بالخصوص فیکٹریوں میں کام کر نے والے مزدور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے تھے ۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ اس دوران تما م فیکٹریوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی اکانومی مستحکم ،غربت میں کمی اور بے روزگاری ختم ہورہی ہے ۔ انہوں نے موٹر ویز کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ 1998میں موٹر وے کے تکمیل کے افتتاح کے بعد اس میں ایک انچ بھی اضا فہ نہیں ہوا ۔ ہمارے دور حکومت میں لاہور سے ملتان ، ملتان سے سکھر ، کراچی سے حیدرآبادکا آغاز ہو چکا اور اسی سال حیدرآباد سے سکھر تک موٹر وے کا آغاز ہو جائے گا ۔

پورے بلو چستان میں بھی موٹر ویز کا کام شروع ہو چکا ہے اور انشا ء اللہ کراچی سے پشاور تک موٹر وے کا جال بچھ جائے گا ۔ ریلوے، پی۔ آئی،اے اور دوسرے ادارے جو تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے اب پرافٹ والے ادارے بن چکے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی، تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے سمیت پورے ملک میں چالیس بڑے ہسپتال بنا ئے جا رہے ہیں ۔
قارئین کرام ! سچی بات تو یہ ہے کہ اب ملک میں کام ہو تا دکھائی دے رہا ہے ، کاروباری طبقے سمیت عام عوام بھی خوشحالی کی جانب سفر کر رہے ہیں ۔

مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم نے کامیابی کے سفر کو یونہی جاری تو کچھ بعید نہیں کہ کچھ ہی عرصے میں پاکستان کامیاب ترین ملکوں میں شمار نہ ہو جبکہ دوسری طرف میاں محمد ادریس دوسرے کاروباری افراد کے لئے رول ماڈل ہیں جن کی خوبیوں کو اپنا کے وہ تما م لوگ بھی کامیابی کے میدان میں سر خرو ہو سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :