ایم کیو ایم کی پیدائش ۔آخری قسط

پیر 5 ستمبر 2016

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

اِس مافیا تنظیم کو اپنے کرتوت چھپانے اور مثبت تاثر ابھارنے کے لئے حامی میڈیا کی ضرورت تھی۔ ایم کیو ایم کی ابتدائی اُٹھان کے دِنوں میں کراچی کے پریس کی اسے مکمل حمایت حاصل رہی۔ بڑے روزناموں کے ساتھ ساتھ دوپہر اور شام کے اوقات میں نکلنے والے اخبارات نے بڑی آزادی سے ایم کیو ایم کے نقطہ نظر کو بھرپور کوریج دی۔ ایم کیو ایم کے مضبوط ہونے اور اسکی مافیا طاقت بڑھنے کے ساتھ ہی وہ میڈیا جو پہلے آزادی سے ایم کیو ایم کے پروپیگنڈے کی ترویج کر رہا تھا اب مکمل طور پر ایم کیو ایم کی خوفناک گرفت میں آگیا۔

کراچی سے شائع ہونے والے اخبارات کی خبریں نائن زیرو کے اشاروں پر ایڈٹ ہونے لگیں۔ اکثر اخباروں کے فرنٹ پیج مکمل طور پر ایم کیو ایم کے پریس ریلیزوں سے سجے پارٹی ترجمان بن گئے۔

(جاری ہے)

بڑے بڑے اخبارات میں قائد تحریک پیر صاحب کی جعلی کرامات، مصدقہ خبروں کے طور پر شائع ہونے لگیں۔ کروٹن کے پتوں پر قائد تحریک کی شبیہیں ابھرے لگیں ، میڈیا نوے گز کے مکان اور متوسط طبقے کی نوجوان قیادت کے پروپیگنڈے سے جگمگاتا رہا۔

آج بھی میڈیا یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ متوسط اور غریب طبقے کی نوجوان قیادت زندگی بھر کوئی کام کئے بغیر کروڑ او ر ارب پتی کیسے بن گئی اور کراچی، حیدر آباد ، میر پور خاص کے علاوہ برطانیہ، امریکہ، جنوبی افریقہ، دبئی اور کینیڈا میں لاکھوں ، کروڑوں ڈالروں کی پراپرٹیز کی مالک کیسے بن گئی۔ متوسط طبقے کا راگ الاپتے میڈیا نے کبھی نہیں بتایا کہ کراچی اور حیدرآباد سے بلکہ پاکستان کے کئی شہروں سے ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی قیادت ہی منتخب ہوتی رہی تھی۔

یہ میڈیا کا کمال تھا کہ اپنے قیام کے ابتدائی دِنوں سے ہی ایم کیو ایم نے مار دھاڑ، جلاوٴ گھیراو، فائرنگ کی جو نیٹ پریکٹس شروع کی اور کراچی اور حیدر آباد کو کرفیو زدہ شہروں میں تبدیل کردیا مگر کراچی کے اخبارات کو کبھی کِسی بھی واقعے میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کا قصور نظر نہیں آیا، اخبارات ہمیشہ پولیس کی زیادتیوں کے قِصّوں سے بھرے ہوتے۔

ایم کیو ایم کے اشاروں پر چلنے میں ذرا سی غلطی کرنے والے اخبار کے نہ صرف دفتر پر حملے کئے جاتے بلکہ اخبارات سے بھری گاڑیاں جلا جلا کر اس اخبار کی تقسیم ہی ناممکن بنا دی جاتی۔ ایم کیو ایم کے جبر کا یہ عالم ہو چُکا تھا کہ کراچی سے شائع ہونے والے شام کے ایک اخبار نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم رہنما کے قتل پر خصوصی ضمیمہ چھاپنے کی غلطی کر دی۔

اس غلطی کی وجہ سے اُس اخبار کو کئی دِنوں تک چھپنے کی اجازت ہی نہ دی گئی۔ اخبارات پر مکمل کنٹرول اور بھرپور پروپیگنڈہ بھی ایم کیو ایم ہتھیاروں کی طرح ہی استعمال کر رہی تھی۔اپنے جلسوں میں، قومی جماعتوں میں شامل مہاجر لیڈروں کا مضحکہ اڑانا ایم کیو ایم کا طرہ امتیاز تھا۔ایم کیو ایم کے رہنما اپنے جلسوں میں بلا دھڑک کہتے تھے کہ ’ پاکستان کسی کے باپ کے خواب کی تعمیر نہیں ہے‘۔

اِس بات سے قطعہ نظر کہ قیام پاکستان کے اعلان کے بعد ۱۹۴۷ میں راجھستان ، کھوکھرا پار کے راستے ہجرت کرتے ہوئے کتنے اردو بولنے والے مہاجر شہید ہوئے یاانیس سو پچاس ، ساٹھ، ستر ، اسی اور نوے کی دہائی کے آغاز تک کتنے اردو بولنے والے مسلمان اطمینان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ، ایم کیو ایم کراچی کے پریس کی مکمل حمایت سے بڑی کامیابی سے یہ پروپیگنڈا کرتی رہی کہ پاکستان کے قیام میں صرف مہاجروں کی قربانیاں شامل ہیں ۔

اس نے اپنے پیروکاروں کو یقین دلا دیا تھا کہ پنجابی اور سندھی وغیرہ تو اپنے اپنے گھروں میں آرام سے سوئے ہوئے تھے ، صبح اٹھے تو پاکستان بن چُکا تھا، قربانیاں تو صرف مہاجروں نے دیں۔کراچی کا پریس عوام کو کبھی نہیں بتاتا کہ آزادی کی تحریک کے دوران انگریزوں نے تاریخ کا سب سے بڑا قتلِ عام جلیانوالہ باغ ، پنجاب میں کِیا، ۱۹۱۹ میں مارشل لاء بھی پنجاب میں ہی لگایا گیا، نہ ہی یہ بتا تا ہے کہ پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جو پاکستان کی خاطر دو ٹکڑے ہُوا، اور ہجرت کے دوران سب سے زیادہ قتل و غارت گری پنجاب میں ہوئی جس کے نتیجے میں پنجاب کے دونوں حصوں میں مسلم اور غیر مسلم آبادی کا مکمل انخلاء ہو گیا جو ہندوستان ، پاکستان کے کِسی اور حصے میں نہیں ہُوا، نہ ہی یہ بتاتا ہے کہ اگر پنجابی ، تحریکِ پاکستان سے لاتعلق سوئے ہوئے تھے تو قراردادِ پاکستان لاہور میں کیوں منظور ہوئی۔

اگر سندھی ، تحریکِ پاکستان میں شامل نہیں تھے تو سب سے پہلے سندھ میں کیسے مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی، اُسے ووٹ کیا سندھی مسلمانوں نے نہیں دیئے تھے؟ ۱۹۲۹ میں قائدِ اعظم کے مشہور چودہ نکات میں سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرنے کا نقطہ کیسے آگیا؟ سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان میں شامل ہونے کی قرارداد کیسے منظور کر لی۔ کیا پیر صبغت اللہ شاہ پیر پگارا کی انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور شہادت ، سانگھڑ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں انگریزوں کی فوج کشی تحریکِ آزادی نہیں تھی؟ مسلسل جاری پروپیگنڈے اور مہاجر قوم پرستی ابھارنے کی بدولت ایم کیو ایم کو عام افراد کی حمایت بھی حاصل ہوئی اور اسکا ووٹ بینک بھی قائم ہُوا۔


چونکہ تنظیم کا خمیر ہی منفی نعروں سے اُٹھا تھا اور جرائم اسکی بنیادوں میں شامل تھے ، اس لئے اِس تنظیم کو شروع سے ہی پابندی کا خوف بھی رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم نے کئی الیکشن آزاد امیدواروں کے طور پر ” حق پرست“ کے ڈمی نام سے لڑے۔ متحدہ کا نقاب اوڑھنے کے بعد ایم کیو ایم کی نظریں سندھ پر مکمل کنٹرول کے ساتھ ساتھ اسلام آباد فتح کرنے پر بھی تھیں۔

جاگیردارانہ نظام، وڈیرہ شاہی کے خاتمے اور اٹھانوے فیصد طبقے کی حکمرانی قائم کرنے جیسے خوشنما خواب بیچنے کی کوشش شروع ہوئی مگر تنظیم کے اندر ظالمانہ آمرانہ نظام اور اندرونی اور بیرونی مخالف نقطہ نظر کو کچلنے کے فسطائی ہتھکنڈے اِس تنظیم کا امتیازی نشان بن گئے۔ الطاف حسین تنظیم کو کٹھ پتلی کی طرح نچاتے رہے۔ تنظیمی طاقت کے بل پر نا معلوم غیر معروف افراد کو اسمبلیوں کے ممبر بنوایا گیا جو خواب میں بھی قائد سے اختلاف کرنے کے قابل نہ تھے۔

کِسی مافیا انقلابی لیڈر کی طرح ان تمام افراد کو جو تنظیم کے بانیوں میں شامل تھے اور قیادت کو چیلنج کر سکتے تھے یا تو موت کی نیند سلا دیا گیا یا منظر سے ہٹنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کچھ عرصے کے لئے کِسی چہرے کو سامنے لایا جاتا اور پھر اچانک بغیر کِسی وجہ کے پس منظر میں دھکیل دیا جاتا،میڈیا کے سامنے عوام کو نظر آنے والی کٹھ پتلیوں کو عجیب و غریب دھنوں پر نچایا جاتا۔

ان کٹھ پتلیوں کو کوئی موضوع دے کر دِن رات میڈیا پر ہر بات میں گھُما پھرا کراسی موضوع کی جگالی پر مجبور کیا جاتا اور پھر ایک دن اچانک قائد چھڑی گھما کر موضوع تبدیل کردیتے اور کٹھ پتلیاں نئے موضوع کی جگالی پر لگ جاتیں۔ وڈیرہ شاہی، دو فیصد اٹھانوے فیصد، انیس سو چالیس کی قرارداد کے مطابق صوبائی خود مختاری ، کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل ، کراچی کے ستر فیصد ٹیکس وغیرہ کے راگ مخصوص مدت کے لئے الاپے جاتے، اور کبھی تنظیم میں بڑے معتبر سمجھے جانے والے رہنما کو اوقات میں رکھنے کے لئے سرِ عام پارٹی کے مبینہ عام کارکنوں سے ذلیل کر وایا جاتا اور مناسب ٹھکائی بھی لگوا دی جاتی ۔

عظیم طارق، طارق جاوید، اجمل دہلوی، اشتیاق اظہر، شیخ لیاقت حسین، آفتاب شیخ وغیرہ کے ساتھ ایسا ہی کِیا جاتا رہا۔ فاروق ستار بھی کئی بار اِن اور آوٴٹ کئے جاتے رہے۔ ایم کیو ایم کئی بار وفاقی اور صوبائی اقتدار میں شریک رہی مگر جن مہاجروں کے نام پر سیاست کرتی رہی ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے بجائے اپنی مافیا طاقت کو مضبوط کرتی رہی اور اپنے جرائم پیشہ کارکنوں کو مختلف اداروں میں بھرتی کرکے ان اداروں کا ستیاناس مارتی رہی۔

ہزاروں حلف یافتہ کارکنوں کی بھرتی سے بلدیہ کراچی، واٹر بورڈ، کے ڈی اے جیسے اداروں کی جو حالت ہوئی اسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اپنے اقتدار کے دوران ایم کیو ایم نے کبھی کوٹہ سسٹم کے خاتمے، بہاریوں کی واپسی اور حیدرآ باد میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے نہ تو کوئی کوشش کی اور نہ ہی کبھی آواز اٹھائی۔ ایم کیو ایم کی، حکومتوں میں آنیاں جانیاں، استعفے، ہڑتالیں، بھوک ہڑتالیں، دھرنے، گھیراوٴ جلاو ہمیشہ نا معلوم مطالبات کے لئے ہی رہے، عوام کو کبھی علم نہ ہوسکا کہ اِس طرح کے اقدامات سے ایم کیو ایم کیا حاصل کرتی تھی۔


الطاف حسین کے پاکستان مردہ باد کے نعرے اور بھارت سے ملک توڑنے کے لئے مدد اور مداخلت کی اپیلیں مہاجروں اور دیگر پاکستانیوں کی دل آزاری کا باعث تو ہیں مگر یہ انیس سو سینتالیس میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کے بہنے والے خون کی بھی توہین ہے۔ پاکستان کی بدولت اتنی اہمیت ملنا، اقتدار اعلیٰ تک رسائی، بغیر کوئی کام کئے پاکستان کے پیسے سے کروڑوں پونڈز کی جائیدادوں کا مالک بننے کے باوجود مُلک سے غداری کرنا اور بار بار مُلک میں قتل و غارت کا بازار گرم کروانے کو آخر کیا نام دیا جائے۔

بھارت سے مدد کی اپیلیں کرتے الطاف حسین کیا بھارتی مسلمانوں کا حال احوال بھی پوچھ سکتے ہیں؟ ذرا یہ ہی پوچھ کر بتادیں کہ کیا کوئی بھارتی مسلمان لیڈر بھارت کے خلاف اشاروں کنایوں میں بھی کوئی بات کر سکتا ہے؟ اپنی پیدائش کے بعد سے ایم کیو ایم کے پاس پہلی بار صحیح موقع آیا ہے کہ الطاف حسین اور انکے جرائم پیشہ وفاداروں سے مکمل طور پر پارٹی کی اور مہاجر قوم کی جان چھُڑادی جائے۔

جرائم پیشہ عناصر کوشہری سندھ کی سیاست سے علیحدہ کرکے گذشتہ تین دہائیوں میں پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کی طرف قدم اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اگر کراچی پر تین دہائیوں سے یہ عفریت مسلط نہ ہوتے تو بلاشبہ آج عروس البلاد کراچی لندن، نیویارک ، ٹوکیو اور شنگھائی کے مقابلے کا بلکہ شاید ان سے بھی بہتر شہر ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :