مسئلہ کشمیر آخر کیسے حل ہوگا

ہفتہ 24 ستمبر 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر یہ سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے لیکن اقوام عالم کشمیر کی وادی میں بہتیہوئے خون کا شور سننے سے قاصر ہیں اور وہاں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کیئے ہوئے ہے۔ محکوم اور مجبور اقوام کے پاس عالمی حمایت ہی آخری سہارا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے بہت موثر انداز میں ایک بار پھر اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرانے میں اپنا کرادر ادا کرے۔

عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کیا جانا ایک مستحسن قدم ہے لیکن مقبوضہ کشمیرمیں تمام تر بھارتی مظالم کے باوجود عالمی رائے اس پر توجہ نہیں دیتی اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ آزادکشمیر حکومت کو یہ کرادر ادا دیاجائے کہ وہ خود عالمی برادی کے سامنے مسئلہ کشمیر پیش کرے۔ اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ جب خودکشمیری اپنی بات کہتے ہیں تو دنیا توجہ سے سُنتی ہے لیکن جب وہی بات پاکستان کرتا ہے تو اسے پاک بھارت تنازعہ سمجھا جاتا ہے اور وہ موثر نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

حکومت پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے لیکن وزیر خارجہ کی عد م موجودگی کے باعث یہ کیسیممکنہو سکتا ہے۔ بھارت الٹا پاکستان کو دہشت گر ملک ثابت کرنے کے لئے کوشاں ہے اور اسے تنہا کرنے کے لئے عمل پیرا ہے۔عالمی رائے عامہ کو گمراہ کی کوشش میں ایک باقاعدہ مہم شروع ہے لیکن پاکستان کی جوابی حکمت عملی کہیں نظر نہیں آرہی ۔

اندرونی استحکام کے بغیر نہ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی کا ضامن ہو سکتاہے۔ قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف، بد عنوانی سے پاک طرز حکمرانی اور قومی یکجہتی کے بغیر مضبوط پاکستان کا تصور محال ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے مشکل کام بھارتی قیادت کو یہ باور کرانا کہ وہ اس مسئلہ کے لئے آمادہ ہو۔

بھارت کی سول سوسائیٹی اس ضمن میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں وہاں کی سول سوسائیٹی اور حقوق انسانی کے علمبرداروں نے جموں کشمیرمیں ہونے والے ظلم کے خلاف دہلی اور بھارت کے دیگر کئی شہروں میں آواز بلند کرکے قابل تحسین کام کیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی سول سوسائیٹی ، صحافی، دانشور، حقوق انسانی کے علمبردار، سیاستدان اور عام عوام کو مل کر کشمیری عوام کے غیر مشروط حق خود آرادیت کی حمایت میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

سب سے اہم کردار یورپ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری مزید متحرک اور متحد ہو کر بھر پور سفارتی مہمسے کرسکتے ہیں۔وہ عالمی رائے عامہ کو بیدار کرسکتے ہیں ۔ جن ممالک میں کشمیری مقیم ہیں وہاں کی حکومتوں، سیاستدانوں، حقوق انسانی کی تنظیموں، میڈیا ، عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے دفاتر کو بار بار اس مسئلہ کی سنگینی سے آگاہ کریں اور ایک ایسے حالات پیدا کردیں کہ بھارت اس مسئلہ کو حل کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجائے۔

مسئلہ کشمیر کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے غیر جذباتی انداز اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں مسئلہ کے تینوں فریقین کی مرضی کے بغیر یہ معاملہ حل ہوجائے۔ کوئی ایک فریق بھی اسے فوجی کارروائی سے حل نہیں کرسکتا کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو کب کا ہوچکا ہوتا دوسرا یہ کہ اگر کوئی فوجی کارروائی سے کچھ علاقے پر قبضہ کربھی لے تو اسے برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔

کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست کی صورت میں بھی پائیدار حل نہیں نکل سکے گا۔ تقسیم بھی اس مسئلہ کا حل نہیں کیوں ریاست جموں کشمیر پہلے ہی منقسم ہے۔ اگر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بھی جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں۔ دونوں ممالک اپنے وسائل دفاع اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے میں صرف کرتے رہیں گے۔ سکولوں، ہسپتالوں، تعلم وتحقیق کے مراکز کی بجائے ایک دوسرے کو تباہ کرنے والے اسلحہ کے انبار لگانے کی دوڑ جاری رہے گی۔

اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ حقیقت پسندانہ حل تلاش کیا جائے۔ بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ کشمیری اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ، کسی قیمت پر نہیں۔ نہ مالی مراعات نے کشمیریوں کو مطمئن کیا اور نہ ظلم نے تحریک آزادی ختم کیا۔ بھارت عالمی میڈیا کی اس آواز کو تسلیم کرلے کہ کشمیریوں کا صرف ایک مطالبہ ہے اور وہ ہے آزادی ۔ بھارت کو اس مسئلہ کے کسی آبرومندانہ حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔

جب تک دونوں ممالک اٹوٹ انگ اور شہ رگ کی پالیسی ترک نہیں کرتے مسئلہ میں پیش رفت ممکن نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کو ایک بفر سٹیٹ کی صورت دینے سے مسئلہ کا ایسا حل نکل سکتا ہے جو سب کے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ریاست کے تمام منقسم حصوں کو ایک وحدت کی صورت میں ایک غیر فوجی خطہ بنایا جائے جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں کا ریاست میں آزادانہ عمل دخل ہو۔

اس کے لئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کا طریقہ کار بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ اگر اس مسئلہ کو حل کرنا ہے تو پاک بھارت قیادت کو اس پر غور کرنا ہوگا وگرنہ مستقبل بھی ماضی کی محاذ آرائی اور اپنے عوام کو روٹی دینے کی بجائے فوجی اخراجات پر رقم خرچ کرتے رہیں۔ سویڈن کے تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا میں اسلحہ اور فوجی سازوسامان کا سب سے بڑا خریدار ہے جبکہ اس کی کروڑوں عوام کو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لئے گھر میسر نہیں۔

بھارت اگر دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے جمہوری اصولوں کو تسلیم کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو آزادانہ رائے شماری کا موقع دینا چاہیے۔اسے اپنے بانی وزیراعظم کا وہ وعدہ پورا کرنا چاہیے جو دنیا اور کشمیریوں کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان کو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے یہ اعلان کرناچاہیے دونوں ممالک کشمیر کو ایک غیر فوجی علاقہ قرار دیں اور اسے سفارتی طور پر عالمی برادی کے سامنے رکھنے سے بھارت پر دباؤ میں بہت اضافہ ہوگا۔

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دونوں حکومتوں کو جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور اسے حل کرنا خود اُن کے اپنے مفاد میں ہے۔
حریت کانفرنس کی طرف سے Justice Delayed نامی ایک کتابچے پرریاست جموں کشمیر کا جو نقشہ شائع کیا گیا ہے اس میںآ زاد جموں کشمیر، پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان اور اقصائے چن کو نکال دیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی بد دیانتی ہے جس سے تقسیم کشمیر کی بُو آتی ہے۔

امید ہے کہ حریت کانفرس اپنی اس غلطی کا ادراک کرتے ہوئے آئندہ پوری ریاست جموں کشمیر کا نقشہ شائع کرے گی اور دیگر جماعتوں اور اداروں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ہوگی۔ آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر جو پوری ریاست کی نمائندہ ہونے کی دعویٰ دار ہے اسے بھی ریاست کو پورا نقشہ سرکاری طور پر شائع کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :