چومکھی لڑائی

جمعہ 7 اکتوبر 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

پاکستان میری محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز اس نظریے کی وجہ سے ہے جو اس مملکت کے قیام کا بنیادی اور اصل محرک تھا۔ ریاست مدینہ کے بعد دنیا کے نقشے پر یہ مملکت رنگ و نسل، زبان اور جغرافیائی اشتراک کی بجائے مشترکہ نظریہ حیات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔ یہ وہی نظریہ تھا جس نے یوم فرقان پر بدر میں دنیا پر واضح کردیا کہ قوم کی تشکیل رشتہ داری، علاقہ اور زبان نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

چوہدری رحمت علی کے نظریہ اور تصور کو مسلم لیگ نے قبول کرکے پاکستان کو اپنی منزل قرار دیا اور مملکت خداداد دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس نظریاتی مملکت کے مخالفین آج بھی اس کے وجود کو برداشت نہیں کررہے اور اسے ختم کرنے کے درپہ ہیں۔ کوئی اسے محض جذباتیت کہے اور متفق نہ بھی ہو تب بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اسے چومکھی لڑائی کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

چاروں جانب سے اس یلغار میں اپنے بھی شامل ہیں اور دشمن بھی۔ اندرونی محاذ بھی کھلا ہے اور بیرونی تو ہے ہی۔ پاکستان کے نظریاتی مخالفین کا جانب سے پہلا محاذ قیام پاکستان سے قبل ہی جاری تھا جو اب بھی پوری شدت سے موجود ہے۔ اس میں وہ عناصر وہ ہیں جو اسلام کا نام بھی لیتے ہیں لیکن نظریہ پاکستان کے شدید مخالف ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اسلام کو محض مذہب کی حد تک تسلیم کرنے کے لئے تو تیار ہیں لیکن پولیٹیکل اسلام ان کے قابل قبول نہیں۔

اسی فہرست میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو پیدا تو مسلمانوں کے گھروں میں ہوئے لیکن اسلام ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا اور برملا اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔ پاکستان اور اسلام کے خلاف ہر محفل میں بولنا اور ہر تحریر میں اس کا اظہارکرنا ان کا مقصد زندگی ہے۔یہ عناصر تحریر و تقریر سے نوجوان نسل میں نظریہ پاکستان کے حوالے سے خلفشار پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

ترقی پسندی اور سیکولرازم کے یہ علمبردار قیام پاکستان کی بنیاد کو مسمار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تجاہل عارفانہ سے تاریخی تناظر ، مسلم لیگ کی جدوجہد، فکر اقبال اور قائد اعظم کی ایک سو سے زائد تقریرں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا قانون قرآن کی روشنی میں ہوگا ، کو فراموش کردیتے ہیں۔ ایسے کالم نگار اور اینکر بکثرت پاکستانی میڈیا پر اپنے محاز پر جنگ رکھے ہوئے ہیں۔

ان کی تحریروں اور گفتگو سے ان کو پہچاننا مشکل نہیں۔
پاکستان کے خلاف دوسرا محاذ لسانی، علاقائی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی صورت میں کھلا ہے۔ جب کسی قوم اور ملک کی نظریاتی اساس کو ختم کرنا ہو تو ایسے تعصبات ناگزیر ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت سے نہ صرف اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچتا بلکہ جو مملکت اس نظریہ کے تحت حاصل کی گئی اس کی بنیادیں بھی کمزور ہوتی ہیں۔

زبان اور علاقائی بنیادوں پر قوم پرستی کے تصورات بھی زہر قاتل ہیں۔ تیسرا محاذ پاکستان کے دشمنوں اور بیرونی طاقتوں کا ہے جو اسے غیر مستحکم کرنے کے لئے سر گرم ہیں۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ وہ پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے اپنے مالی وسائل کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ حالیہ دو عشروں میں اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ جو ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

غیر جاندار عالمی مبصرین اور سفارتی حلقے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس قدر مخالفت اور سازشوں کے باوجود پاکستان کس طرح اپنی سالمیت برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ پاکستان کی سلامتی کے خلاف چوتھا اور اہم محاذ خود اس کے بالا دست طبقے کی جانب سے ہے۔ اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں یہی طبقہ اس سے قبل مشرقی پاکستان کو الگ کرچکا ہے۔

اس میں حکمران اور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو ملک کے آئین اور قانون کا کھلم کھلا مذاق اڑاتی ہیں۔جمہوریت کو نام پر آمریت کی صورت ہیں کیونکہ جمہوریت خود ان جماعتوں میں نہیں۔ یہ جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات کو سمجھتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں ان کی خاندانی صنعت کے مانند ہیں۔ غریب عوام خوار ہوتے رہیں ، انہیں اپنی عیاشی اور کرپشن سے غرض ہے۔

ملک کے وسائل لوٹ کر اسے معاشی بدحالی کی اس منزل تک پہنچنا چاہتے کہ یہ اپنے دفا ع کے لئے مالی وسائل بھی مہیا نہ کرسکے۔ انہوں نے ایسا نظام مسلط کررکھا ہے جس کے شکنجے میں پاکستانی عوام مجبور اور بے بس ہو کر پھنسی ہوئی ہے۔غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں لیکن یہ طبی معائینہ کے لئے بھی بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں لیکن ان کی سیکورٹی پر کروڑوں خرچ ہورہے ہیں ملک کی کا عدالتی نظام انصاف دلانے میں ناکام ہے۔

طاقت ور اور بالا دست طبقہ کے خلاف عدالتیں خاموش رہتی ہیں۔ ملک میں احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ افسر شاہی کو اپنی مراعات سے غرض ہے۔ ضمیر نام کوئی چیز باقی نہیں رہی اور حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی ہے اور کسی کو احساس تک نہیں۔ یہ محاذ سب سے سنگین ہے کیونکہ یہ اس طبقے نے کھولا ہے جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے ۔ یہ اس لحاظ سے بھی خطرناک ہے کہ ان کی وجہ سے عوام کا مملکت سے ہی اعتبار اٹھ جائے گا اور جب کسی عوام کا اپنی مملکت سے اعتبار اٹھ جائے تو اسے ختم کرنے کی ضرورت ہی رہتی۔

ان ناگفتہ بہ حالات میں امید کی کرن محب وطن عوام اور نوجوانوں ہیں جو اپنی افواج کے ساتھ مل کر ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔ پاکستان عطیہ خداوندی ہے اور قائد اعظم نے درست فرمایا تھا کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :