صحافت کی ماں بہن
منگل 25 اکتوبر 2016
ہوش کیجئے صاحب ،ہوش!صحافت کا لفظ ہی صحیفے سے نکلا ہے،سوچئے کہ اس ملک کے باسیوں کا ذرائع ابلاغ سے اعتمادکیوں اٹھتا جارہا ہے ؟۔
(جاری ہے)
کل ایک موقر جریدے کی خاتون صحافی سے بات ہو ئی صاف لفظوں میں انہوں نے کہا ”میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ بہت کم خواتین پروفیشنل ہو تی ہیں“۔ایک اور صحافی خاتون کے الفاظ ہیں”خاتون رپورٹر کو نادرا آفس میں تھپڑ رسید کرنے والے پر لعن طعن کرنے کی بجائے اس خاتون سے پوچھا جائے کہ اس نے گارڈ (ایف سی اہلکار)کا بازو کیوں کھینچا،میرے حساب سے جواب میں تھپڑ بالکل جائز تھا،مشہوری کی خاطر صحافتی اقدار کا جنازہ مت نکالیں،خدارا محنت کریں اور آگے آئیں۔بند کریں خاتون صحافی کو تھپڑمارنے والاڈرامہ،آج بھی عورت غیرت کے نام پر قتل ہورہی ہے،کئی بے سہارا ماوٴں کے بے گناہ بچے جیلو ں میں قید ہیں،ہوم بیسڈ ورکرز اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو شرمناک معاوضہ دیا جاتاہے۔آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے آج تک اس چیز پر آواز اٹھائی ؟“۔
ایف سی اہلکار کی طر ف سے خاتون کو تھپڑ مارنے کی حمایت بالکل نہیں کی جاسکتی یہ ایک ناپسندیدہ اور قابل مذمت عمل تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس تھپڑ کا محرک کیا تھا؟اگر آپ کسی کو دیوار کے ساتھ لگا دیں تو اس سے آپ اور توقع بھی کیا کر سکتے ہیں؟
ہر شعبے میں کچھ قاعدے قانون ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بدل بھی سکتے ہیں لیکن کچھ اصول پتھر پر لکیر ہوتے ہیں جو کسی صورت بدلے نہیں جاسکتے ۔ صحافت ایک باعزت پیشہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں۔اگر مذکورہ خاتون صائمہ کنول نے باضابطہ طور پر کسی اخبار یا ٹی وی میں کسی استاد سے چند رو ز بھی تربیت لی ہوتی یا دوسرے لفظوں میں صحافت کی الف بے ہی سیکھی ہوتی تو میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناخوشگوار واقعہ پیش ہی نہ آتا۔صحافت میں پہلا سبق ہی یہ دیا جاتا ہے کہ جب آپ فیلڈ میں جاتے ہیں تو اپنے جذبات پر قابو رکھیں،فیلڈ میں آپ مردیا عورت نہیں بلکہ ایک صحافی ہیں جس کو کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایسے میں اپنے حواس پر قابو رکھنا ہی ایک سچے صحافی کی نشانی ہے۔اگر صحافی ہی کسی سوگوار ماحول میں اوسان خطا کر بیٹھے اور آنسو بہانا شروع کر دے تو اس کے فرائض کون سرانجام دے گا؟۔اسی طرح صحافی کا فرض صرف اتنا ہے کہ وہ جو دیکھے یا سنے وہ بلا کم و کاست عوام کو بیان کردے ،اس میں اپنی رائے یا جذبات کی آمیزش قطعاََ نہ ہونے دے۔محترمہ صائمہ کنول نے جو کیا وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے بالکل الٹ تھا، اول تو انہیں ایف سی اہلکا رسے الجھنا ہی نہیں چاہیے تھا ،سوال کرناایک صحافی کا فرض ہے اور اس حق کو دنیا بھر میں تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن آپ کسی بھی شخص کو جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتے،یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ آپ کو کوئی جواب دے یاآپ کے سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لے۔محترمہ صائمہ کنول کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ہاتھ میں قلم یا مائیک پکڑ لینے سے آپ کو لامحدود اختیارات نہیں مل جاتے اور نہ ہی آپ کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ آزادی صحافت کے نام پر شتر بے مہار کی طرح جدھر چاہیں دُڑکی لگا دیں۔لفظوں کے نشتر سے کسی کی دستار اچھالنے یا شلوار اتارنے کا نام صحافت ہر گز نہیں ہے۔ صحافی کا ایک ایک لفظ شائستگی کی میٹھی گولی میں لپٹا ہوتا ہے جو اس کے سامنے موجود شخص کو حقیقت اگلنے پر مجبور کردیتا ہے لیکن اسے مشتعل نہیں ہونے دیتا۔ اس کی بہترین مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کابھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو دیا گیا انٹرویو ہے ۔ میری رائے ہے کہ محترمہ صائمہ کنول کو اگر صحافی بننا ہے تو وہ یہ انٹرویو ضرور دیکھیں۔مجھے یقین ہے کہ انٹرویو دیکھنے کے بعد وہ کبھی کسی سے یہ نہیں پوچھیں گی ”او وو،تمھارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے“۔کسی کی غیرت کو جگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ خود ہی صحافت کی ماں بہن ایک کر رہے ہوں۔کالم کے آخر پر ملک کے نامور صحافی مبشرعلی زید ی کی سو لفظوں کی کہانی نقل کر رہا ہوں ۔ اگر سمجھ آجائے تو بسم اللہ ورنہ ۔۔۔۔۔
پیاری بہنو اور پیارے بھائیو،
اگرآپ کے دانت پیلے ہیں،داڑھیں ہلتی ہیں،
مسوڑھوں سے خون آتا ہے،
منہ سے بد بو آتی ہے،
کوئی بھی مسئلہ ہو ،ہمارا منجن لگائیں۔
اس منجن میں ولایتی کوئلہ ہے،دیسی نمک ہے،
کٹی ہوئی الائچی ہے، پسی ہوئی سونف ہے،
دانت اگر نہ چمکیں ، داڑھیں ہلنا بند نہ ہوں ،
منہ سے خوشبو نہ آئے تو پیسے واپس۔
میں نے اسے گھورا،
تمھارا چہرہ جانا پہنچانا لگ رہا ہے،
منجن فروش نے کہا ،
بھائی صاحب!شام کو ایک چینل پر پروگرام کرتا ہوں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.