…اوردھرنا گُم!!!

جمعرات 3 نومبر 2016

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

عدالتوں کے فیصلوں نے بقول شخصے ’عزت سادات ‘تو بچالی مگر بھولے بھالے ’انقلابیوں‘ کی ساری کاوشیں،پولیس سے آنکھ مچولیاں ،آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی اٹھکیلیوں کاانت‘ انتہائی مایوس کن رہا ۔سیانے کہتے ہیں کہ” گیڈر کو مارنے کے لئے شیر کے شکار کی تیاری کرنا ضروری ہوتاہے “مگرکئی مہینوں سے تحریک انصاف کی اسلام آباد بند کرنے اور’ حکومت کے خاتمے تک دھرنا جاری رکھنے ‘کی دھمکیوں کا انجام ثابت کرتا ہے کہ ”تحریک انصاف“ ایمپائیر سے مل کرفقظ’ فکسڈ میچ‘ کھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے،اگرایمپائیر ساتھ نہ دے اور دوسری طرف کی ٹیم بھی کھیلنا شروع کردے تو پھر انجام ‘وہی نکلتا ہے جس کے مناظر 29اکتوبر سے یکم نومبر کی دوپہرتک سب نے براہ راست ملاحظہ کئے۔

(جاری ہے)

پچھلی دفعہ آخر میں اور اس دفعہ شروعات میں ہی ایمپائیر نے اپنے مقاصد حاصل کرکے منہ دوسری طرف کرلیا۔چنانچہ عدالتی فیصلوں سے عمران خان نے سکھ کا سانس لیا ہوگا،اس کو پہلی دفعہ اندازہ ہوا ہوگا کہ ’انقلابی کہلانے‘ اور انقلابی ہونے میں کتنا فرق ہوتا ہے۔چند ہزار کے مجمع کو دس لاکھ قراردینے کی روائت جماعت اسلامی نے قائم کی تھی ،اسکو اب عمران خان آگے بڑھا رہے ہیں۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ درمیانے طبقے ،تاجروں،گلوکاروں اور کرکٹ کے کھیلاڑیوں کے انقلاب اور محنت کش طبقے کے انقلاب میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کو انقلاب برپا کرنے کے لئے کبھی بھی کسی دارالحکومت کو ’لاک ڈاؤن‘ کرنے کی ضرورت لاحق نہیں ہوتی۔محنت کش طبقہ‘ کسی مارچ،دھرنے یا یلغار کئے بغیر ہی پورے سماج کی حرکت روکنے کی قدرت رکھتا ہے۔

ٹیلی کمیونیکیشن،الیکٹرک سٹی،ریل،جہاز،روڈ ٹرانسپورٹ،سرمائے کی نقل وحمل کے ذرائع کو بند کئے بغیر ’انقلابی تبدیلیوں‘ کی طرف پیش رفت بھی نہیں ہوسکتی اور یہ فریضہ درمیانہ طبقہ،انکر پرسن اورکارپوریٹ میڈیا سرانجام نہیں دے سکتا۔عمران خان انوکھے لاڈلے کی طرح کھیلنے کو چاند مانگتا ہے،وہ اس نظام میں بدعنوانی کے خلاف ’جنگ ‘ لڑنے کی بات کرتا ہے جس کی آکسیجن ہی ’بدعنوانی‘ ہے،پھر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سرتاپا بدعنوانی میں ڈوبے افراد کے جلو میں کھڑے ہوکر بدعنوانی کے خلاف بات کی جاتی ہے۔

مگر سب سے بڑی بدعنوانی کا ارتکاب خود عمران خاں کرتے ہیں جب وہ چند افراد کی بدعنوانی سے جمع کی ہوئی دولت کو تو کرپشن کہتے ہیں مگر سرمایہ دارانہ استحصال ،محنت کی لوٹ کھسوٹ،منڈی کی معیشت کی وحشت اور پاکستان کے کروڑوں لوگوں سے انسانی زندگی بسرکرنے حق چھینے والے نظام کے زبردست حمائت کرتے ہیں۔وہ بدعنوانی کے خلاف ہیں مگر بدعنوانی کی پیداوار بننے والے نظام کے حق میں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دھرنوں کے اعلان ،موٹر وے اور بنی گالا میں ٹونٹی ٹونٹی میچ کوعام لوگوں نے محض ٹیلی وژن سکرین پر تو دیکھا اس کا حصہ بننا پسند نہیں کیا۔یہی کیا‘ پاکستان کے 22کروڑ لوگوں میں سے ساڑھے بیس کروڑ لوگ موجودہ سیاسی ایجنڈے اور اسکے تحت ہونے والی سیاست سے خود کو الگ کرچکے ہیں،کیونکہ عام لوگ سنجیدیگی سے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ موجودہ سیاست کا مقصد بالادست طبقے کے مختلف گروہوں کا اقتدار تک پہنچنا اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہے ،اس حکمران طبقے کی سیاست اور حاکمیت سے انکی زندگی میں معمولی سا بھی فرق نہیں آتا۔


پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں جتنے بھی اختلافات ہوں،مگر ایک اتفاق تمام اختلافات پر بھاری رہتا ہے کہ تمام جنگ وجدل،گالی گلوچ اور دشنام طرازی میں موجودہ استحصالی نظام اور اسکے ناگزیرظلم وستم کو ایجنڈے پر نہ لایا جائے۔یوں نہ تو مسئلوں کی وجہ بننے والی منڈی کی معیشت اور ملکیت کے نظام کے مضمرات زیر بحث آتے ہیں اور نہ ہی اسکے کسی متبادل کے امکانات کو زیر غور لایا جاتا ہے۔

جس نظام کی حقانیت پر سیاسی قیادتوں اور حکمران طبقے کو ایمان کی حد تک یقین ہے ،اسکی حالت زار آئی سی یو میں پڑے ایسے مریض کی سی ہے ،جس کے ایک مرض کے علاج میں کئی دیگر امراض جاگ پڑتے ہیں۔جمہوریت سے آمریت اور پھر بحالی جمہوریت کی تحریکیں ،مارشل لاؤں کو جواز بخشنے والے ’پی سی او ‘اور پھر ان عبوری آئینی احکامات کے پل صراط سے گزر نے والے ان احکامات کو امرت دھارا بنانے کی کوششوں میں ’جوج ماجوج‘ کو مات دیتے نظر آتے ہیں۔

عدالتیں کبھی فوجی مداخلتوں کو جائیز قراردیتی ہیں اور فوجی زور آوری کے دنوں میں کان لپیٹے رہتی ہیں مگر جونہی پلڑا پلٹتا ہے ‘وہی قاضی اور منصف یکایک آئین وقانون کے رکھوالے بن جاتے ہیں۔فوجی جنتا سیاسی بساط الٹنے سے پہلے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی(واقعتا موجود) برائیاں اجاگر کرنے کے لئے تمام جتن کرتی ہے،میڈیا،فوجی دانشور، نظریہ ضرورت کی خوراک پر پلنے والے بزرجمہر(جنکی پاکستان میں کسی طور کمی نہیں ہے) کسی نہ کسی طورمارشل لا ء لگوانے کی ہر سعی کرتے نظرآتے ہیں۔

جن برائیوں کو نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے وہی تمام برائیاں،بدعنوانیاں،سنگین قسم کی من مانیاں‘ فوجی ادوار میں کسی سو گنا بڑھ جاتی ہیں۔ فوجی آمریتوں کے دور میں موج مستیاں کرنے والے سیاسی زعماء ‘پلٹا کھا کر جمہوریت کے چمپئین بن جاتے ہیں مگر اس سنہری دور کی یاد محو کرنا انکے لئے بہت مشکل ہوتا ہے جب وہ فوج کے ’ جمہوریت کی طرف مراجعت‘ کے طویل دورانئے میں کنگز پارٹیاں بناتے ہیں،لوٹاازم کو فروغ دیتے ہیں اور کھلی جعل سازی سے اقتدار نشین ہوتے ہیں۔

کالے دھن کی معیشتوں کو فروغ انہی مارشلا لاؤں میں ملااور سرکاری معیشت کے بالمقابل اسکا حجم بقول اسحاق ڈار 70فی صد سے تجاوز کرگیا۔انہی مارشلاؤں میں طوالت اقتدار کے لئے ہر طرح کے ناجائز کو جائیز بنالیا جاتا ہے۔ فوجی حکمرانی کے ادوار میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معتدل بنانے کی کسی کوشش کو ”سیکورٹی رسک“ قرار نہیں دیا جاتا،مگریہی کوشش کوئی سویلین حکومت کرے تو پھر ملک وقوم کی ’سلامتی ‘خطرے میں پڑھ جاتی ہے۔

جمہوریت بھی ہمارے ہاں عجب قسم کی آتی ہے جو بہت سے حوالوں سے آمریتوں اور بادشاہتوں سے بھی اگلے درجے کی مطلق العنان ثابت ہوتی ہے۔ پارٹیوں میں خود عملاََ مکمل آمریت ہے،جمہوری ادارے کہیں بھی موجود نہیں ۔ نظریات کو پچھلی نشستوں پر بٹھادیے جانے کے بعد اب پارٹیوں کے مابین فرق جاننے کا کوئی سنجیدہ طریقہ کار موجود نہیں رہا ہے۔چونکہ تمام سیاسی پارٹیوں ،حکومتوں اور فوجی مارشلاؤں کا ایک ہی معاشی نظام اور سماجی ڈھانچے پر یقین ہے اس لئے بدلتی ہوئی حکومتوں، جمہوری ناٹکوں اور فوجی حکومتوں میں کچھ بھی مختلف نہیں ہوتا ‘سوائے لوٹ مارکرنے والے کی تبدیلی کے۔

پارٹیوں میں قیادتوں کی تبدیلی کبھی کبھی ’اسٹیبلشمنٹ ‘اورعام طور پر’ عزرائیل‘کے باعث ہی ممکن ہوتی ہے۔ 1988ء سے اب تک 17سویلین وزراء اعظم تھوڑے یا لمبے عرصے کیلئے حکومتوں میں رہ چکے ہیں۔اسی طرح 1988ء سے قبل گیارہ سال تک فوج کی حکمرانی رہی اور پھر 1999 ء سے 2008ء تک فوج حکمران رہی ہے۔ہر طرح کی حکومتوں میں اکثریتی محنت کش طبقے کیلئے حالات زندگی پہلے سے بدترہوتے رہے ہیں مگر ان میں بہتری کی دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی۔

پچھلی بہت سی حکومتوں کی قبل ازمعیادبرطرفیوں کی وجوہات ملتی جلتی تھیں،اسی طرح تمام حکومتوں کو ایک جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہر سویلین حکومت پر (درست طور پر) بدعنوانی اور بدانتظامی کا الزام تواتر سے لگتا آیا ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ شدت سے بدعنوانی اور بدانتظامی ان فوجی حکومتوں میں دیکھنے کو آتی ہے جو بدعنوانی دور کرنے اور احتساب کرنے کے نعرے سے آتی ہیں۔

الزامات لگتے ہیں اور حکومتوں کے خاتمے کیلئے راہیں ہموار کی جاتی ہیں مگر ہر نئی آنے والی حکومت پھر انہی الزامات کی زد میں آتی ہے۔معمولی سمجھ بوجھ کا حامل شخص بھی یہ سوال کرسکتا ہے کہ آخر ہر الزام لگانے والی سیاسی جماعت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ خود حکمرانی میں آکر وہی کام کیوں شروع کردیتی ہے جس پر وہ اپنے سے پہلی حکومت کومطعون کررہی تھی۔

ایک گھن چکر ہے جو مسلسل چل رہا ہے اور اس شور شرابے کے عقب میں محنت کش طبقے کو لوٹنے کا عمل تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی موجودہ حکومت 2013ء سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ہر روز نت نیا عیب نکالتی تھی،لوڈ شیڈنگ سب سے بڑا ہدف تھا،زرداری کی بدعنوانی کے خوب چرچے تھے اور حزب اختلاف میں نواز لیگ بھر پور میڈیا مہم میں مصروف رہتی تھی، نوازشریف میڈیا پر باربار کہتے تھے کہ حزب اختلاف میں ہم ہاتھ پے ہاتھ رکھ
کر نہیں بیٹھے بلکہ ہم متبادل پالیسیاں بنا رہے ہیں اور اقتدار میں آکر روز اوّل سے ہی کام شروع کردیں گے۔

پی پی پی کی حکومت اپنے کرتوتوں،بدعنوانیوں،بدانتظامیوں کے ہاتھوں عام انتخابات میں انجام سے دوچار ہوئی۔نواز لیگ کو دوتہائی مینڈیٹ دلوایا گیا ۔مگر ہواکیا؟ وہی لوڈ شیڈنگ ،مہنگی بجلی،بے روزگاری میں اضافہ،مہنگائی کے پے درپے حملے،عام آدمی کے ریلیف کی بجائے ’تاریخ ‘ میں نام لکھوانے کی غرض سے بھاری بھرکم منصوبے ،جن کی غرض وغائت کک بیکس اور فرنٹ مین ٹھیکے داروں کو نوازنا صاف دکھائی دیتا ہے۔

جنہوں نے الیکشن سے قبل سونامی برپاکرنے کے دعوے کئے تھے وہ کسی گندے نالے میں‘ ارتعاش بھی پیدا نہ کرسکے۔اس بدترین شکست سے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش رکھنے والی ’مڈل کلاس‘ میں بہت بڑے پیمانے پر بددلی پیدا ہوئی۔ مگر عمران خاں نے تحریک انصاف کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر خوب مصروف کردیا۔ایک ’بدعنوان نظام‘ میں منصفانہ الیکشن کی سعی لاحاصل کے سفر پر گامزن ہوجانے سے سونامی برپا نہ ہونے اور 1970ء جیسی پیپلز پارٹی نہ بنا پانے کے دعوؤں کی شکست کو تو شائد ایک حد تک بھلادیا گیا۔

مگر ’طبقاتی نظام‘ اور سرمائے کی حاکمیت میں ’حقیقی جمہوریت‘ کا خواب کیونکر حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے؟ اس زندہ حقیقت اور پائیدار سوال کی صحت کو بھی حکمران طبقہ بشمول تحریک انصاف تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔اسکی وجہ سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں کی طبقاتی ساخت ہے،سرمایہ دارانہ قیادتیں اس سے بخوبی واقف ہیں کہ صرف اس سوال کو آگے بڑھانے سے پورے نظام کی بنیادیں ہل سکتی ہیں ،جو انکے طبقے کی لوٹ مار،استحصال، مراعات،عیش وعشرت کا ضامن ہے۔

ڈھائی سوسال کی امریکی جمہوریت میں الیکشن لڑنے والے امیدواران کا تعین تک بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں،ریاست سے بالا سیکورٹی ایجنسیاں اور مالیاتی ادارے کراتے ہیں ، پاکستان جیسے سابق نوآبادیاتی ملک میں جہاں حقیقی حکمران طبقے کا صحت مندانہ وجود اور ارتقاء نہ ہونے کے مضمرات نے سرمایہ دارانہ نظام کو اس انداز میں نہیں پنپنے دیا جس طرح کا یہ نظام ہمیں مغرب میں نظر آتا ہے۔

مگر یہ تو ذرا بلند سطح کی بات ہے،پاکستان میں ابھی تک عام لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کیا جاسکا۔حکمران طبقے نے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ،علاج معالجہ ،تعلیم ،روزگار اور سماجی پسماندگی کے خاتمے کے خواب تک دیکھنا چھوڑدیے ہیں،اب ان کے تمام ناٹک اقتدار کی چھینا جھپٹی تک محدود ہوچکے ہیں۔حکمران طبقے کے تمام گروہوں میں مختلف قسم کے ”این آر او“ ہونا اب سیاست کا قانون بن چکا ہے۔

سنگین ترین الزامات کی آڑ میں سودے بازیاں کی جاتی ہیں۔بحرانوں میں اپوزیشن پارٹیاں اپنے مجرمانہ کردار کے حامل قیدیوں کو چھڑاتی ہیں۔دھرنوں اور لاک ڈاؤن کی دھمکیوں اور یلغار کی آڑ میں کئی طرح کی سوداگریاں ہوتی ہیں اور دھرنے گدھے کے سینگوں کی طرح گم ہوجاتے ہیں۔ مگر سویلین اور عسکری قیادتیں جس ایک نقطہ کو شعوری طور پر نظر انداز کرتی ہیں وہ عام لوگوں کے حقوق ہیں۔یہ حقوق غاصب طبقہ کبھی بھی ازخود نہیں دے گا،ان کو لینے کے لئے محنت کش طبقے کو بالآخر اپنی چُپ توڑنا ہوگی اور نئے قانون اور نظام کی بنیاد رکھنا ہوگی ۔ورنہ یہ تماشہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :