کالی وردی وا لے پہلے خود اپنے شہدا کی عزت کریں

منگل 8 نومبر 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی المناک شہادت نے جہاں مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو افسردہ کر دیا وہاں انتظامیہ کی طرف سے شہدا ء کے جسد خاکی کو ویگنوں کی چھتوں پر ان کے گھروں کو منتقل کر نے کے اقدام نے زخموں پر نمک پاشی کے مصداق، افسردگی میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ جن کمزوریوں کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا ان پر کئی سوالوں کی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ صوبے کے پاس 30ارب روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود بلوچستان حکومت شہدا کے انتہائی محترم جسد خاکی کو ایمبولینس کیوں فراہم نہیں کر سکی؟لیکن بد قسمتی کے ساتھ ہمارے ملک کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سوال کو انکوائری کمیٹی کی زینت بنا کر فائلوں کی نظر کر دیا جا تا ہے اور یوں ایسے المناک واقعات کے ذمہ داران سیاسی و انتظامی لوگوں کی کالی کرتوت عوام کے سامنے نہیں آپاتیں اور وہ ہمیشہ معززو محترم قرار پاتے ہیں۔

(جاری ہے)


سانحہ کوئٹہ کے بعد محکمہ پولیس کے کئی ذمہ داران سوشل میڈیا پر یہ بات کرتے ہوئے دکھائی دئیے کہ آخر کالی وردی اور خاکی وردی میں اتنا فرق کیوں؟ کیوں ایک ہی واقعہ میں جام شہادت نوش کرنے والے خاکی وردی والوں کو انتہائی اعزاز کے ساتھ پوری عزت و احترام اور فوجی اعزاز کے ساتھ دفنا یا جاتا ہے جبکہ کالی وردی والوں کو اعزاز کے ساتھ دفنا نا تو دور کی بات ان کی میتوں کو بھی ایمبولینس کی بجائے ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کے منتقل کیا جا تا ہے ۔

اس کا جواب بڑا آسان ہے کہ خاکی وردی والوں کو اپنے شہدا ء کی عزت کر نے آتی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک کی خاطر جان دینے والوں کی کیا قدر ہے؟یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور ملک میں پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد ہوتے ہی چیف آف آرمی سٹاف، جنرل راحیل شریف کی طرف سے سب سے پہلے فوجی جوانوں کے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے احکامات صادر کئے گئے تھے ۔

یہی نہیں بلکہ شہدا کے لواحقین کو بھی اپنا سمجھتے ہوئے فوری طور پر ان کے گھر، ماہانہ خرچ اور بچوں کی تعلیم کے اخراجا ت کا بندو بست کر نا ، ان کا فر ض اولین ہے ۔
دوسری جانب کالی وردی والوں کا اپنی ہی کالی وردی میں ملبوس شہید ہونے والوں کے ساتھ ہونے والی سنگ دلی کا مظاہرہ کوئٹہ کے سانحے میں تو سب نے کیا ہے ۔ اور پھر سینکڑوں شہدا پولیس کی روحیں اپنے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے بے چین،افسران بالا کی راہ تک رہی ہیں ۔

صرف پنجاب میں بیسیوں شہدا ہیں جن کے قاتل یا تو ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکے اور جو ہوئے ہیں وہ افسران بالا کے غیر سنجیدہ روئیے کی وجہ سے اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکے ۔شہدا کے لواحقین اپنے جائز کاموں کے لئے افسران کے دفتروں کے چکر کاٹ اور کلرک مافیا کی وہی پرانی حرکتوں کی وجہ سے تھک ہار کر ،اس ذلت کو اپنا نصیب سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔
قارئین !حالیہ کچھ مہینوں کے دوران ،شہر لاہور میں دہشت گردی کی عفریت کا شکار ، شہدا پولیس کے ورثا اپنے پیاروں کا خون بہانے والے ملزمان کی گرفتاری کے عملی اقدامات کی راہ تک رہے ہیں ۔

کچھ عرصہ قبل سمن آباد ،ڈونگی گراؤنڈ کے قریب چوک میں ناکے پر کھڑے سب انسپکٹر اور کانسٹیبلز کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کردیا تھا اسی طرح تقریباََ ایک ماہ قبل تھانہ اقبال ٹاؤن کی مون مارکیٹ چوکی کے قریب مین روڈ پر ہی نامعلوم موٹر سائیکل سوار وں نے اندھادھند فائرنگ کر کے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا یا تھا اور پھر سب انسپکٹر تجمل بٹ کی ہلاکت کا واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے جس کی تو ایف۔

آئی۔آر بھی پولیس مقابلے کی درج کی گئی اور بعدازاں جس کا نمازہ جنازہ بھی پولیس لائن قلعہ گجر سنگھ میں محکمانہ اعزاز کے ساتھ پڑھائی گئی۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ نہ تو ابھی تک اس میں سے ایک بھی شہید کے قاتل گرفتار ہو سکے بلکہ کالی وردی میں ملبوس افسروں نے اپنے ہی کالی وردی والے کی شہادت کو یہ کہہ کر تسلیم کر نے سے انکار کر دیاکہ وہ جائیداد کی لین دین کے ذاتی جھگڑے پر قتل ہوا۔

میں اس وقت سے اب تک اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں کہ بھلا وہ کون سا پولیس افسر ہے جو جائیداد کے کاروبار سے منسلک نہیں ہے؟ کاروبار سے منسلک ہونا تو دور کی بات ، لوگوں کی جائیدادوں پر زبردستی قبضے، پراپرٹی مافیاز کی سر براہی اور اس کے لئے اپنے ماتحتوں کو استعمال کر نے والے کئی افسران بڑی بڑی سیٹوں پر براجمان ہیں۔ تو کیا ان کی ریٹائرمنٹ یا وفات کے وقت ان کو صرف اس وجہ سے ان کے حق سے محروم کر دیا جا ئے گا کہ ان کے پراپرٹی کے بڑے بڑے کاروبار تھے؟
قارئین محترم !افسران کا رویہ !یہی ایک فرق ہے جو خاکی اور کالی وردی کے در میان موجود ہے۔

بظاہر تو دونوں ہی اس ملک اور یہاں کے رہنے والوں کے لئے اپنی جانوں کو قربا ن کر رہے ہیں ، اپنی بیویوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر جاتے ہیں لیکن خاکی وردی والے اس کی شہادت کی لاج رکھتے ہوئے پورے اعزاز کے ساتھ اسے دفناتے ہیں اور شہادت کے بعد بھی نہ صرف اسے بلکہ اس کے پورے خاندان کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ کالی وردی والے اپنے شہداء کے لاشوں کو ایمبو لینس فراہم نہیں کر سکتے، ان کے قاتلوں کو گرفتاراور عبرتناک انجام تک نہیں پہنچا سکتے پھر اپنے شہیدوں کو کچھ ہی دنوں بعد شہدا ء کی لسٹ سے خارج کر دیتے ہوں ۔

ایسے میں پھر وہ یہ سوال کرتے نظر آئیں کہ خاکی وردی اور کالی وردی میں اتنا فرق کیوں ؟ اس کا جواب ان کے پاس موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک یہ خود اپنے شہدا ء کی عزت کر نا نہیں سیکھیں گے تو کل پھر سے شہدا پولیس کے جسد خاکی ویگنوں کی چھتوں پر انکے گھروں کو منتقل ہورہے ہونگے اور یہ پھر سے سوشل میڈیا پریہ وہی سوال کر رہے ہو نگے کہ خاکی وردی اور کالی وردی کے شہدا ء میں یہ فرق کیوں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :