اردوان کا دورہ پاکستان گولن کی حمایت

اتوار 20 نومبر 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔میاں محمدنواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان نے خود ان کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا۔ ترکی کی خاتون اوّل امینہ اور طیب رجب اردوان صاحب کو پاکستانی بچوں نے ایئر پورٹ پر گلدستے پیش کیے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں چاک و چوبند فوجی دستہ نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اپنے خطاب میں اردوان نے کہا پاکستان ماضی کی طرح ہرکٹھن موقع پراپنے ساتھ پائے گا۔

ترقی اور خوشحالی کے لیے پاکستان کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ پاکستان کے تجارتی وفود نے گول میز کانفرنس میں تجارتی معاہدوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تجارت کو ایک ارب ڈالر تک لے جانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ہر سال پاکستان کے پانچ سو طالب علموں کو ترکی کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشب دینے کا اعلان کیا گیا۔

(جاری ہے)

لال قلعہ میں ایک ذبردست عشائیہ کا بھی انتظام کیا گیا جس میں چاروں صوبوں کے وزیر اعلی بھی شریک ہوئے۔

دورہ کے لیے اسلام آباد اور لاہور کو خیر مقدمی بینرروں اور بجلی کے قمقموں سے سجایا گیا تھا۔دورے کے دوسرے دن ترکی کے صدر نے پاکستان کی مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں کے ممبران سے تاریخی خطاب کیا۔ فوج کے سپہ سالار بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے جنہیں دیکھ کر اردوان نے سلام کیا۔ بد قسمتی سے تحریک انصاف کے عمران خان نے اس مشترکہ اجلاس میں بھی، کشمیر کے مسئلہ پر اجلاس کی طرح احتجاجاً شریک نہیں ہوئے۔

جواز یہ پیش کیا کہ کرپشن کے الزام والے وزیر اعظم جس اجلاس میں شریک ہوں، تحریک انصاف ایسے اجلاس میں شریک نہیں ہو گی۔ جہاں تک اردوان کے پاکستان کے دورے کا تعلق ہے اس قبل دودفعہ بحثیت ترکی کے وزیراعظم اردوان پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں ۔ترکی کا صدر بنے پر اردوان کا پاکستان کا یہ تیسرا دورہ تھا۔پاکستان کی مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ خطاب میں اردوان نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

پاکستان کی پالیسیوں کی حمایت کی۔ خاص کرکشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی کھل کر حمایت کی اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، پاکستان اور بھارت کو مل جل کر حل کرنا چاہیے تاکہ مظلوم کشمیریوں کے دکھوں کامداوا ہو سکے۔اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمے میں کامیابی سے فاہدہ اُٹھائیں گے۔

پاکستان اور ترکی کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ترکی کی منتخب حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے موقع پر سب سے پہلے حمایت پر پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد تنظیموں کو مغرب کی حمایت حاصل ہے۔ صاحبو! اس کا اندازہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے شروع کے کچھ گھنٹوں میں ہوا۔ مغربی میڈیا چلا چلا کر فوجی انقلاب کی حمایت میں خبریں جاری کر رہا تھا۔

ٹی وی شوز میں اس کے اینکر پرسن فوجی انقلاب کے حق میں بول رہے تھے۔ جب اردوان نے اپنے فون سے قوم کو خطاب کیا اور ترکی کی عوام کو فوج بغاوت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اردوان کے اپیل پر ترکی کے سارے شہروں میں عوام فوجی انقلاب کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ کچھ شہری تو ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ جب فوی انقلاب ناکام ہوا تو مغربی میڈیا جمہوری حکومت کے حق میں تبصرے جاری کرنے لگا۔

اردوان کے مطابق ناکام فوجی بغاوت میں گولن کی تحریک کا ہاتھ تھا۔ گولن کیا ہے۔ اس کا شاید ہمارے لوگوں کو صحیح علم نہیں۔ گولن ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا والد ایک عالم اور امام مسجد تھا۔ گولن نے شروع میں اپنے والد سے ہی مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پہلے یہ مشہورنورسی کی تحریک سے ہدایت لیتا تھا بعد میں اس سے ہٹ گیا۔ گولن بھی امام مسجد رہا۔

اپنے شعلہ بیان تقریروں میں عوام کو اپنا ہم نوا بنایا۔ ۲۰۱۳ ء تک اردوان کے ساتھ تھا۔ اس نے ترکی اور دنیا میں مخلوط نظام تعلیم کانیٹ ورک جاری کیا۔ یہ مغرب کی خواہش کے عین مطابق سیاسی اسلام سے دور اور صوفی ازم پر یقین رکھتا ہے۔ یہ کٹر قوم پرستی اور سیکولرازم کی پالیسیوں کا پرچار کرتا ہے۔اردوان ترکی سے اتاترک کی اسلام دشمن باقیات کو خاموشی سے ختم کر کے اسلامی خلافت کی طرف گامزن ہے۔

گولن اس کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔ یہ تعلیم کی آڑ میں کرپشن میں ملوث پایا گیا ہے۔ ترکی میں اس پرعدالتوں میں مقد مے قائم ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۹ء سے خود ساختہ جلا وطن ہو کر امریکا میں ایک بڑے قطعہ اراضی، جو کہ ۳۲۰۰ کنال پر پھیلا ہوا ہے میں رہائش پذیر ہے۔ ترکی کے حالیہ فوجی انقلاب میں ملوث پایا گیا ہے۔ اس کے سارے ساتھیوں کو جو فوج، عدلیہ، تعلیم ،اور میڈیا میں بڑی تعداد میں موجود تھے ان کو بغاوت میں شریک ہونے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جب اردوان نے ایک بحری جہاز میں غزا کے اسیر فلسطینیوں کے لیے اناج اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں بھیجی تھیں تو اس کی مخالفت کی تھی۔اردوان کی ہر مسلم تعاون کی پالیسیوں پر اعتراض کر تا رہتا ہے۔ ترکی میں کوئی بھی اسلام کی طرف پیش قدمی ہو اس کی مخالفت کرتا ہے۔ یہود و نصارا کا پسندیدہ مسلم رہنما ہے۔ دونوں سے فنڈنگ لیتا ہے اور دنیا میں ان کی مسلم کش پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔

ترکی کی شاندار اسلامی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے (میرا سلطان) جیسی اسلام دشمن فلمیں بنا کر دنیا میں گولن کے لوگ پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گولن تحریک کے کئی کالج اور اسکول ہیں ۔ ناکام فوجی انقلاب کے بعد حکومت ترکی کے کہنے پر ان اسکولوں کے اسٹاف کو ویزے کی میعاد ختم ہونے پر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے کچھ سیکولر لکھاریوں جو اتاترک کے حامی ہیں، نے اپنے کالموں میں اس پرغم و غصہ کا اظہار کیااور گولن کے لوگوں کی حمایت کی۔

اس پر اپنے دورے میں ادروان نے شکایت بھی کی۔ ظاہر ہے اردوان گولن اور اس کی اسلام مخالف تحریک کو پاکستانیوں سے زیادہ جانتا ہے۔ اس نے حکومتی سطح پر پاکستان کے گولن کے اسکولوں کے لیے نئے ٹیچروں کا انتظام کیا ہے جو جلد ان اسکولوں کا چارج سنبھال لیں گے اور پاکستان میں بچوں کی تعلیم جاری رہے گی۔اس لیے بچوں کے والدین کو فکر نہیں کرنی چاہیے۔

ویسے بھی گولن کے اسکول پہلے تو امدادی اسکیم کے تحت پاکستان میں غریب بچوں کے لیے تعلیم کا مشن شروع کیا تھا ۔اب پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق تعلیمی مشن تجارتی بنیاد پر کام چلا رہا تھا جو قانون کیخلاف ہے۔ صاحبو! جب ترکی کی عثمانی خلافت کو یہود و نصارا نے ختم کیا تھاتو اس وقت کے امریکا کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھاکہ اس کے بعد دنیا میں مسلمانوں کو خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔

صلیبی اسی پالیسی پر برسوں سے عمل پیرا ہیں۔ جہاں بھی کسی اسلامی ملک میں مروجہ مغربی جمہوری طریقے سے ہی لوگ الیکشن جیت کر آتے ہیں تو فوجی انقلاب بر پا کر دیا جاتا ہے۔ جیسے الجزائر میں اور مصر میں کیا گیا۔ مسلم دنیا میں اپنے پٹھو حکمرانوں کے ذریعے مسلم عوام، جو دنیا میں نوے فی صدصلیبیوں کے خلاف ہیں ان کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ مسلمان ملکوں پر فوج کشی کے ذریعے قبضے کیے جاتے ہیں۔

جیسے لیبیا، عراق اور افغانستان پر حملہ کر کے قبضہ کیا گیا۔ مسلمان ملکوں کو شعیہ سنی کی بنیاد پر آپس میں لڑایا جا رہا ہے جیسے شام اور اب یمن میں لڑائی ہو رہی ہے۔ ترکی جو یورپ کا پڑوسی ہے برسوں سے یورپی یونین میں شمولیت کی کوششیں کرتا رہا۔ مگر اب تک مسلم دشمنی کی وجہ سے یورپی یونین میں شریک نہیں ہو سکا۔ اللہ کا شکر ہے اردوان اور کی انصاف اورترقی پارٹی(جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی) ملک میں حکمران ہے اور آہستہ آہستہ سیکولر کو چھوڑ کر اسلام کی طرف گامزن ہے۔

اردوان نے نوے سال بعد فوج میں مردوں کو داڑھی اور عورتوں کو اسکارف کی اجازت دی ہے۔ مدرسوں میں حفظِ قران کی کلاسیں جاری کی ہیں۔ مسجدوں میں ترکی زبان کے بجائے عربی میں آذانیں دینی شروع کر دیں ہیں۔اردوان ایک مسلم لیڈر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ مسلم دنیا کے دکھوں میں برابر کا شریک ہے۔ جب بنگلہ دیش میں پاکستان کو بچانے کی خاطر بھارت کی بنائی ہوئی مکتی باہنی سے لڑنے پر پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دی گئیں تو احتجاج کے طور پر ترکی نے اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا تھا۔

برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے، برما کا دورہ کیا تھا۔ اردوان کے دور حکومت میں ترکی پھراسلامی خلافت کی طرف گامزن ہے جو صلیبیوں اور گولن کو ناگوار ہے لیکن مسلمانوں کی دیرینہ خواہش ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کی مظہر اسلامی خلافت قائم کرنے میں ترکی کو اس میں کامیاب کرے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :