ایک جمہوریت نواز جنرل

اتوار 27 نومبر 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

جونہی آئی ایس پی آر نے پاکستان کے عظیم ترین سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے الوداعی دَوروں کے آغاز کی خبر دی ، افواہوں کے سارے دَر بند ہو گئے اور سپہ سالار نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ واقعی جمہوریت نواز ہیں۔ شاید وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے جرنیل ہیں جن سے پوری قوم محبت کرتی تھی ، کرتی ہے اور کرتی رہے گی ۔ قوم کی تو یہ خواہش اور کوشش تھی کہ جنرل صاحب مدتِ ملازمت میں توسیع قبول کر لیں لیکن اُنہوں نے قبل از وقت ہی یہ اعلان کر دیا کہ اُنہیں ایک دِن کی توسیع بھی قبول نہیں۔

2013ء سے اب تک پاکستانی سیاست میں کئی ایسے موڑ آئے جب ”بزرجمہروں“ نے پوری قطیعت کے ساتھ کہا کہ نوازلیگ حکومت کا خاتمہ بَس چند ہی دنوں کی بات ہے ۔ سیاسی و عسکری قیادت کے ایک صفحے پر نہ ہونے کا تاثر تو کل تک قائم رہا اور یہی کہا جاتا رہا کہ سیاسی و عسکری قیادت میں دوریاں بڑھ رہی ہیں لیکن سپہ سالار اپنے عہد اور اپنے حلف پر مضبوطی سے جمے رہے۔

(جاری ہے)

اُنہوں نے متعدد بار جمہوریت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کیا لیکن بزرجمہر یہی کہتے رہے کہ ایسی باتیں تو وہ جنرل بھی کرتے رہے جنہوں نے مارشل لاء لگایا۔ لال حویلی والے صاحب تو حکومت جانے کی تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے ۔
2014ء کے دھرنے کے دَوران تو ہر روز یہ افواہ اُڑتی رہی کہ ”امپائر“ کی انگلی کھڑی ہونے کو ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

شنید ہے کہ اُنہی دنوں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں کچھ کور کمانڈرز نے مخدوش حالات کی طرف اشارہ بھی کیا لیکن جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ آج اگر موجودہ جمہوری حکومت 2018ء کے انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے تو اِس کا کریڈٹ سپہ سالار کو بھی جاتا ہے۔ لال حویلی والے صاحب جیسے کچھ لوگ یقیناََ مایوس ہوئے ہوں گے اور اب اُن کی خباثتوں کا رُخ نئے آرمی چیف کی طرف ہو جائے گا لیکن جنرل راحیل شریف جو روایت ڈال کے جا رہے ہیں ، بعد میں آنے والے یقیناََ اُنہی کی پیروی کریں گے کیونکہ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ قوم کا پیار کیسے سمیٹاجا سکتا ہے۔

ستمبر 1965ء کی جنگ میں قوم متحد تھی اور افواجِ پاکستان سے والہانہ محبت کا بَرملا اظہار بھی کرتی تھی ۔ دوسری بار ایسی ہی محبت کا اظہار ہم نے جنرل راحیل شریف کے لیے دیکھا۔ آج پوری قوم اُس مردِ جری پر اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کر رہی ہے۔
یہ تو جنرل صاحب کا جمہوریت سے کمٹمنٹ کا ایک پہلو تھا جبکہ دوسری طرف اُنہوں نے اِس پورے عرصے کے دوران شاید ایک لمحہ بھی رائیگاں نہیں جانے دیا۔

یہی وجہ ہے کہ فوج قوم کی نگاہوں میں محترم و معتبر ٹھہر رہی ہے ۔ جنرل صاحب کی قیادت میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ضربِ عضب کی صورت میں ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے گئے کہ دنیا انگشت بدنداں اور پاک فوج کی صلاحیتوں کی معترف ۔ دہشت گردی تقریباََ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی اور قوم کے سَر پر تَنی خوف کی چادر سرک چکی ۔ جنرل صاحب نے اِس دَوران کوئی ایک عید بھی اپنے گھر پر نہیں گزاری ۔

وہ جوانوں کے حوصلے بلند کر نے کے لیے عید پر کبھی شمالی وزیرستان پہنچ جاتے تو کبھی جنوبی وزیرستان۔ دہشت گردی کے کسی بھی بڑے واقعے پر متعلقہ جگہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے جنرل راحیل شریف ہی ہوا کرتے تھے ۔ خونم خون کراچی کی روشنیاں واپس لوٹانے میں مسلح افواج نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ آج اگر کراچی مکمل طور پر پُرسکون نہیں تو پھر بھی اُس کی رونقیں بہت حد تک بحال ہو چکی ہیں ۔

کراچی کے باسی جو سرِشام ہی اپنے گھروں میں دبک جاتے تھے ، اب رات گئے تک بازاروں میں خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں ”فراری“دھڑادھڑ ہتھیار ڈال رہے ہیں اور بلوچستان کے طول وعرض میں آج اگر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے تو وہ بھی پاک فوج کے عزم بالجزم کا نتیجہ ہے ۔
سی پیک ، پاک چائنہ دوستی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے ۔ اِس عظیم الشان منصوبے کی تکمیل میں فوج کا کردار سب پر عیاں ہے ۔

سپہ سالاار نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ پایہٴ تکمیل تک پہنچے گا خواہ اِس کے لیے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ اُنہوں نے جو کہا ، وہ کر دکھایااور آج اقتصادی راہداری کا ایک حصّہ آپریشنل ہو چکا حالانکہ ہمارے عیارومکار اور خبیث پڑوسی بھارت نے اِس منصوبے کو ناکام بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔ پہلے ”را“ کے ذریعے دہشت گردی کرواتا رہا اور اُس کا نشانہ خصوصی طور پر بلوچستان رہا ۔

مقصد یہ تھا کہ افراتفری پیدا کرکے اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے ۔ ”را“ کی یہ خباثتیں ابھی جاری تھیں کہ بھارت نے سرحدوں پر بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جس کا پاک فوج نے مُنہ توڑ جواب دیا۔ بھارتی آبدوز نے ہمارے پانیوں تک آنے کی کوشش کی لیکن پاک بحریہ کی ایک ہی للکار سے دُم دبا کر بھاگ گئی۔ بھارت نے اپنا ڈرون ہماری طرف بھیجا لیکن ہمارے جرّی جوانوں نے اُسے تباہ کرکے اُس کا ملبہ اپنے قبضے میں لے لیا۔


بھارتی اتنے بزدل نکلے کہ اپنے جہنم واصل ہونے والے فوجیوں کی خبربھی اپنے میڈیا تک نہ پہنچنے دی ۔ تب سپہ سالار نے اُنہیں للکارتے ہوئے کہا کہ اگر تھوڑی سی بھی غیرت ہے تو بھارتیوں کو بتاوٴ کہ ہم اُن کے 45 سے زائد فوجیوں کو جہنم کا ایندھن بنا چکے ہیں۔ بھارتی ”سورماوٴں“ کو سَر پر پاوٴں رکھ کر بھاگتے ہوئے سبھی نے دیکھا اور یہ بھی کہ بھاگتے فوجیوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں تک نہیں اُٹھائیں۔

وہ لاشیں کئی روز تک اُسی طرح پڑی گلتی سڑتی رہیں۔پاکستان ”را“کے دہشت گردی میں ملوث ہونے اور پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کے ڈوزیئر تیار کرکے اقوامِ متحدہ میں پیش کر رہا ہے تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ اقوامِ عالم کے سامنے لایا جا سکے۔
بھارتی چھیڑ چھاڑ اب بھی جاری ہے لیکن ہمیں سپہ سالار کی اِن باتوں پر یقین جو اُنہوں نے اپنے الوداعی دَوروں کے دَوران خطاب میں کہیں۔

اُنہوں نے کہا ” دُنیا کی عظیم ترین فوج کی سپہ سالاری کرنے پر مجھے فخر ہے ۔ ہم کسی بھی چیلنج کا مُنہ توڑ جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں ۔ پاکستان کی جانب کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا“۔ اُنہوں نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باوٴنڈری پر مادرِ وطن کا دفاع کرنے والے فوجی جوانوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قربانیوں پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ وہ 28 نومبر کو اپنی مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے ۔ حقیقت بہرحال یہی کہ وہ ریٹائر ہونے کے باوجود بھی عوام کے دلوں کی دھڑکنوں میں ہمیشہ چیف آف آرمی سٹاف ہی رہیں گے۔ ہم اُس جمہوریت پسند جرنیل کی عظمتوں کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :