مایوسی گناہ ہے

جمعہ 9 دسمبر 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پاکستان جن حالات سے دوچار رہا یا اب بھی ہے اس کا ادراک ہرشخص کو ہے‘ بلکہ کچھ ہی عرصہ قبل جب ملک میں دہشتگردی ‘بدامنی‘ ناانصافی کا دیو کھلے عام پھرتاتھا ایسے میں کئی ایسے محب وطن افراد کو تلملاتے دیکھا‘ جو بیچارے محض اس لئے پریشان تھے کہ اس ملک کا کیا بنے گا ؟ کیونکہ اس دھرتی میں جان تو محفوظ نہ تھی اب عزتوں کے خطرات بھی لاحق ہونے لگے‘ عزت دار ہمیشہ جان سے زیادہ عزت کو اہمیت دیتے ہیں‘ خیر آج ملک میں حالات کچھ بہتر توہوئے مگر بہت سی برائیاں ابھی تک موجود ہیں جن کا ضروری اورغیر ضروری ذکر آئے روز اخبارات میں ملتا ہے‘ یعنی کوئی بھی عام آدمی تصورنہیں کرسکتا کہ وہ حصول انصاف کے لئے عدلیہ کارخ کرے اور مدمقابل بااثرہو‘ اسے امید تک نہیں ہوتی کہ سالوں کیس چلنے کے بعد فیصلہ اس کے حق میں ہوپائیگا‘ ایسے ہی کسی شخص کااعلیٰ ڈگری یافتہ نوجوان بیٹا بارہاکوششوں اور میرٹ کے باوجود بھرتی نہ ہوسکے اس کی جگہ ممبران اسمبلی کے بوٹ پالشیوں کو بھرتی کرلیاجائے تو یقینا مایوس ہونا تو بنتاہے‘ آپ مال ودولت کے مالک ہیں اور آ پ پریقین نہیں ہیں کہ آپ کی دولت محفوظ ہے؟ کیونکہ کبھی بھتے والے آجاتے ہیں توکبھی تاوان والے‘جس ملک میں وقت کے اہم اورطاقتور ادارے کا ایم پی اے سرعام سڑکوں پر لٹ جائے وہاں عام آدمی کی مایوسی دیکھنے لائق ہوتی ہے‘ ایسے ہی طویل مایوسی کے بعد جب کچھ نہیں بن پاتا تو وہ سوچتا ہے کہ جو کچھ اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگ کررہے ہیں کیا یہ ان کا حق تھا؟ اگر یہ ان کاحق تھا تو کچھ نہ کچھ حق تو ہمیں بھی حاصل ہے ؟عام آدمی جب پانامہ لیکس کے قصے سنتا ہے تو بے اختیار اپنے بچوں کو سینے سے لگاکر پیارکرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”کاش تم حسن یا حسین نواز ہوتے“ شاید حکمرانوں کے روئیے اور لوٹ کھسوٹ کی عادت نے عام پاکستانی شہری کو بھی بہتی گنگا میں نہانے کیلئے دھکیل دیاہے ۔

(جاری ہے)

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ لوٹ کھسوٹ ہماری عاد ت بن چکی‘ اسے ستم ظریفی ہی سمجھاجائیگا کہ لوٹ کھسوٹ جس قوم کی عاد ت بن جائے اس کے سدھار میں پھر زمانے لگتے ہیں‘یہ عادت بھی حکمرانوں نے ڈالی سو جب تک حکمرانی کی طویل چین یہ عادت ختم نہیں کرتی ‘حل مشکل نظرآتاہے۔
ہمیں یقین کہ کوئی بھی ذی شعور انسان جب ملکی حالات کاجائزہ لیتا تو پھر لازمی طورپر اوپری سطور جیسی مایوسی اس کے اندر در آتی ہے‘
ماضی میں ہم کبھی بھی مایوسی کاشکار نہیں ہوئے ‘باپ کے بعد بیٹا پھر بیٹا جیسی حکمرانی ‘ لوٹ کھسوٹ کے باوجود مایوسی ہمارے نزدیک تک نہیں بھٹکتی تھی مگر جونہی صاحب اولاد ہوئے ہیں تو سوچ ذہن کو کھائے جارہی ہے کہ ہم نے نوازشریف ‘ شہبازشریف ‘ آصف زرداری بینظیربھٹو ‘پرویز الہٰی اوراس قسم کے لیڈروں کو جھیل لیا‘ اب کیا ہماری اولاد ان کے بیٹے بیٹیوں کی صورت نیا امتحان برداشت کریگی۔

کیا کوئی انقلاب یا حقیقی تبدیلی اس ملک یا عوام کا مقدر بن سکتی ہے یا بن پائے گی ۔ کہنے والے بہت کچھ کہتے ہیں‘ کچھ لوگوں کو موجودہ نظام راس آچکا‘ چاپلوسوں کی فوج درموج زخم رسیدہ گدھے کے زخموں کو چوستی مکھیاں برداشت کرنے کا درس دیتی نظرآتی ہے‘ کوئی کہتا ہے کہ کیا ماضی میں برائی ‘ کرپشن نہیں تھی کسی کے منہ سے نکلتا ہے کہ ماضی میں اس قدر زیادہ کرپشن تھی جو آج نہیں؟؟ اب بھلا کون کہے کہ حضور چھوٹی اوربڑی برائی کی تخصیص کے باعث ہی ہم اس حال میں پہنچے اب برائی کو برائی ہی تصورکرناہوگا تبھی تو حالات اورحالت بدلے گی۔


ان مایوس کن حالات کا جب کبھی جیالوں ‘متوالوں سے ذکر کیاجائے تو جواب ملتا ہے کہ جب بلاول آئیگا تو صورتحال تبدیل ہوجائیگی‘ ترقی پاکستان کا مقدر ہوگی دوسری طرز کے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کا روشن مستقبل مریم نواز‘ حمزہ شہبازشریف کی مرہون منت ہے‘ کسی کو فکر ہے کہ پاکستان کامقدر سنوارنا ہے تو پھر مونس الہٰی کو لانا ہوگا ؟ کوئی انقلاب کی نوید سناتا ہے اوردھرنے کے زور پر تبدیلی کی خواہش ظاہرکرتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ملک کی رگوں میں سرایت کرتی برائیوں‘ بیماریوں کا علاج کئے بغیر ترقی کاخواب پورا نہیں ہوسکتا ‘ حکمران آتے رہیں گے ‘جاتے رہیں گے ‘مگر حالات نہیں بدلیں گے‘ ملک پر قرضوں کے بوجھ کی طرح عوام پر مایوسی کا بوجھ بڑھتا ہی جائیگا ‘رات دن کو انگلیوں کے پور پر گننے والے عوام مایوسی کی اس تہہ تک پہنچ جائیں گے کہ واپسی کاسفر محال دکھائی دینے لگے گا ‘ایسی مایوسی میں ظاہراً کوئی کرن نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ کرپشن کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکناہوگا‘ لاقانونیت کے دیوایسی بوتل میں قید کرنا ہوگا کہ دوبارہ وہ منظر عام پر نہ آسکے‘ انصاف ہر دہلیز کا مقدر بنائے بغیر مایوسی ختم نہیں ہوگی
آخری بات کے طورپر یہی عرض کرنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوان زیادہ تعداد میں موجود ہیں‘ ہمار اایمان ہے کہ اگر نوجوان مایوسیوں کے گرداب سے نکل آئے تو پھر کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہیگی‘ گویا پاکستان کیلئے امید کی کرن اورمایوسیوں‘ اندھیروں سے نکلنے کا سہارا نوجوان ہیں۔

مگر سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ امید کی کرن‘ سہارا جب خود مایوس ہوگاتو پھر قوم کی تقدیر کیسے بدلے گی؟؟ سوال بڑا ہی مایوس کن ہے مگر امید ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی مایوس نسل انگڑائی لیتی نظرآرہی ہے پہلے جن امور پر بات کرناگناہ تصورکیاجاتاتھا آج ان پر کھل کر بحث ہورہی ہے‘ ناانصافیوں‘ برائیوں کیخلاف مزاحمت پسندانہ رویہ سامنے آرہاہے۔ یہی امیدکا باعث بھی ہے اور سہارا بھی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :