خواب ، خواہش، خبر اور پیمرا

اتوار 11 دسمبر 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

سیدھی سی بات ہے کہ اگر دنیا میں جرائم نہ ہوتے تو نہ ہی پولیس ہوتی اور نہ عدالتیں معرض وجود میں آتیں،نہ جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین بنتے ،نہ سزائیں ہوتیں نہ جیلیں تعمیر ہوتیں اور نہ ہی مجرمان تختہ دار پر چڑھتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے غلطی ہوتی ہے پھر اس کی تادیب کا سلسلہ شروع ہو تا ہے۔
اب جو لوگ اس بات پر اعتراض کر رہے ہیں کہ پیمرا آذادی اظہار میں مخل ہو رہا ہے انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ غلطی کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ سچ بولنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے لیکن ایک منظم سازش کے تحت پوری قوم کو گمراہ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی ضرور ہونی چاہیے ۔
گذشتہ تین برسوں میں جو کچھ آذادی اظہار کے نام پر ہوا وہ میڈیا کی تاریخ کا ایک بھیانک باب ہے۔

(جاری ہے)

ہم نے دیکھا کہ اچانک لوگ خواہشوں کو خبر بنانے لگ گئے، خوابوں کی من چاہی تعبیر کو صحافت بتانے لگے۔

جس کی چاہے دستار مٹی میں ملانے لگے۔ چہ مگوئیاں ، شہہ سرخیاں بننے لگیں،کبھی دشنام کو بہادری اور جرات کا نام دیا گیا، کبھی دروغ گوئی کو حق گوئی قرار دیا گیا۔ کسی کو مارشل لاء لگوانے کی جلدی تھی، کسی کو راحیل شریف کی جدائی کا غم کھایا جا رہا تھا، کسی نے وزیراعظم اور راحیل شریف کی ون ٹو ون میٹنگ کی خبر نکال لی اور بریکنگ نیوز چلا دی کہ چیف صاحب نے وزیر اعظم کو شٹ اپ کہا ہے۔

کوئی سیاسی گھرانوں کی خواتین پر نازیبا الزام لگانے لگا، کوئی منتخب نمائندوں کو غدار بتانے لگا۔ کسی کو ایمپائر کی انگلی میں انقلاب نظر آنے لگا ۔کسی کو انگوٹھے کے اشارے سے نظام لپٹتا دکھائی دینے لگا۔ کوئی پارلیمان کو ہی مجرم بتانے لگا اور کوئی ذاتی غرض کی بناء پر کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانے لگا۔
یہ سلسلہ ایک چینل پر موقوف نہیں رہا۔

اس غلیظ دوڑمیں بہت سے لوگ شامل ہوگئے۔ جس کی جہاں تک بساط تھی اس نے وہاں تک حق نمک اداکیا۔ غرض جھوٹ سربازار ارزاں نرخوں پر بکنے لگے۔
صحافتی حلقوں میں کسی صحافی کی ایک خبر کا صرف ایک دفعہ غلط ثابت ہو جانا اسکو ساری عمر کے لئے نادم رکھتا ہے۔ ایسا صحافی اپنی نظر نیچی کر کے رکھتا ہے اور اپنے کئے پر شرمسار رہتا ہے۔لیکن گذشتہ تین سال میں ہم نے ہرباردیکھا کہ چینلوں پر ایک خبر بریکنگ بن کر چلی اور صبح تک وہ غلط ثابت ہو گئی۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ نہ کوئی شرمسار ہوا ، نہ معذرت کا کوئی جملہ سامنے آیا، نہ مالکان نے ایسی غلط خبر پر پوچھ گچھ کی ، نہ ایڈیٹوریل بورڈ کی کو ئی مداخلت سامنے آئی۔ ان تین سالوں میں یوں لگتا تھا کہ جیسے ان پیراشوٹرز پر ایک جنون سوار ہے کہ کسی طرح نظام کی بساط لپٹ جائے، کسی طرح جمہوریت کا تختہ الٹ جائے، کسی طرح ان عوامی نمائندوں سے نجات ملے۔

اس سارے قضیئے میں جھوٹ ، سچ کی کوئی تمیز نہیں رکھی گئی۔ حق اور باطل کی بحث کبھی نہیں کی گئی۔ درست غلط کا حساب کسی نے نہیں رکھا۔بس سب منتظر رہے کہ آج حکومت گئی یا کل۔
پیمرا کی جانب سے جو اقدامات آج کیئے جا رہے ہیں ان میں غلطی صرف یہ کہ یہ اقدامات پہلے ہونے چاہیں تھے۔ جھوٹ بولنے والوں کو
پہلے پابند کرنا چاہیے تھا۔ بہتان لگانے والوں کا پہلے احتساب کرنا چاہیے تھا۔

یہ ناقابل یقین ہے کہ کبھی افواج پاکستان کے حوالے سے، کبھی اعلی عدلیہ کے ججوں کے حوالے سے ، چند لوگ خواہشوں کو خبر بنا کر پیش کرتے رہے۔ اپنے سفلی خوابوں کو بیچتے رہے ۔ ایک پوری قوم کو گمراہ کرتے رہے اوریہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا اور کسی نے روکا نہیں ، کسی نے ٹوکا نہیں۔شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ اس وقت قوم شکریئے کے کٹھن مرحلے سے گزر رہی تھی۔

ملکی بقاء کے لیئے ایکسٹنشن پر بحث کر رہی تھی۔اب جمہوریت کو ذرا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ اب سچ اور جھوٹ کی شناخت کا وقت میسرآیا ہے۔ اب اداروں پر جرمانے ہو رہے ہیں۔ غلط خبر دینے والے کی خبر لی جا رہی ہے، بہتان لگانے والوں کی سرزنش کی جا رہی ہے۔ اعلی اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا جا رہا ہے۔ پگڑیاں اچھالنے والوں کو پکڑاجا رہا ہے۔

تنبہیہ سے باز نہ آنے والوں کو پردہ سکرین سے ہٹایا جا رہا ہے۔چینلز پر جرمانے کئے جا رہے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کو عدلیہ کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔یہ سب درست ہے مگر کیا وجہ ہے کہ اس کے لیے تین سال انتظار کیا گیا؟
اس سوال کے جواب کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تین سالوں کی نجس کوشش پیہم کے نتائج پر غور کریں۔ ان تین سالوں میں مسلسل دروغ گوئی سے چند نتائج قوم کو رٹائے گئے ۔

سب سے پہلے یہ ثابت کیا گیا کہ پیپلز پارٹی دنیا کی سب سے کرپٹ جماعت ہے اور ان کو پاکستان کے عوام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے۔یہ سیاسی جماعت نہیں جاہلوں اور مجرموں کا گروہ ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ نواز شریف حکومت کرپٹ ہے، یہ ہر عوامی منصوبے میں پیسے کھاتے ہیں۔الیکشن میں دھاندلی انہوں نے کی ۔ پانامہ میں یہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔

یہ نااہل، مجرم او راس قوم کے غدار ہیں۔ تیسرا نتیجہ یہ اخذ کیا گیاکہ عمران خان ایک خبطی آدمی ہے۔ ہر وقت روتا رہتا ہے۔پارٹی اس کے قابو میں نہیں۔ اسکے ارد گرد کرپٹ مافیا کے لوگ ہیں۔ یہ خیبر پختوں خواہ نہیں چلا سکے انہوں نے وفاق میں کیا کرنا ہے؟ ایک اور نتیجہ یہ حاصل کیا گیا کہ یہ جمہوریت فراڈ ہے یہ پارلیمنٹ اور اسمبلی سب ڈھکوسلا ہے۔

مزید ہ کہ یہ عدالتیں اقربا پرور ہیں یہ انصاف کا نظام ابن الوقت ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان باتوں کو عوام کے ذہنوں پر ثبت کرنے کا فائدہ کس کو پہنچانا مقصود تھا؟کون اس سارے قبیح منظر کے پس منظر میں لمحہ لمحہ موجود تھا ؟ کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں کس کے ہاتھ میں تھیں۔ تماشا کون کر رہا تھا؟ تماشا کون بن رہا تھا اور تماشا کون دیکھ رہا تھا؟ان سوالوں کا جواب میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیئے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :