یہ منہ اور مسور کی دال!

پیر 12 دسمبر 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مغلیہ سلطنت زوال پذیرتھی ، انگریز بنگال ،بہاڑ اور اڑیسہ سے ہوتا ہوا دلی اور آگرے تک پہنچ گیا تھا، مختلف علاقوں کے راجاوٴں نے آزاد حکومتیں قائم کر لی تھیں، انگریز اور مرہٹوں کی پیش قدمی جاری تھی ،پنجاب میں سکھوں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی اور رنجیت سنگھ پنجاب کا واحد حکمران تھا ۔دلی جو کبھی علم و فن کا مرکز ہوا کرتا تھا اب ویران ہو چکا تھا ، مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ دلی شہر کا جنازہ بھی نکل گیا تھا،دلی تبا ہ ہواتو اس دربار سے وابستہ کئی ماہرین فن نے اپنی قسمت آزمانے کیلئے لاہور اور ہندو ستان کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا۔

انہی لوگوں میں دلی دربار سے وابستہ ایک نامور باورچی تھا جس کے کھانوں کی لذت دور دور تک مشہور تھی۔ شب دیگ، قورمہ اور بریانی تو ویسے ہی دہلی والوں کی پہچان تھی لیکن اس شاہی باورچی کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی مسور کی دال بہت لذیذ ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

یہ باورچی مختلف علاقوں کا سفر کرتاہوا لاہور پہنچ گیا، رنجیت سنگھ کے دربار میں شرف باریابی ہوئی اوراسے پہلے ہی دن آزمائشی طور پر مسور کی دال پکانے کا حکم ہوا، باورچی نے بارہ مصالحے ڈال کر خوب مزیدار دال بنائی ، رنجیت سنگھ اور درباریوں نے چکھی توبادشاہ کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ آئندہ یہی شخص شاہی باورچی ہوگا اور تاحکم ثانی روزانہ مسورکی دال ہی پکے گی۔

ربادشاہ سلامت اور درباریوں کویہ دال اتنی راس آئی کہ پورا ہفتہ مسلسل دال ہی کھاتے رہے۔ ہفتے بعد جب بادشاہ سلامت کے سامنے باورچی خانہ کا بجٹ پیش کیا گیا تو وہ غصے سے لال پیلے کالے اورنیلے ہوگئے۔ باورچی کو طلب کیا گیا ، بادشاہ سلامت نے پوچھا کہ پہلے ہمارے ہاں روزانہ گوشت پکتا تھا مگرپھر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا تھااس ہفتے دال پکی تو بجٹ آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے،آخر کیوں ؟ باورچی بے چارے کیلئے یہ صورتحال بالکل نئی تھی،دلی کے دربارمیں اس نے صرف کھانے پکائے تھے اور اس سے کبھی حساب کتاب نہیں مانگا گیاتھا۔

اس نے ہاتھ جوڑے اور سر جھکا کر عرض کیا ” بادشاہ سلامت اگر دال کو ڈھنگ سے پکایا جائے اور مصالحہ جات ڈالے جائیں تواتنا ہی خرچ آتا ہے“ بادشاہ سلامت کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور باورچی کو فوراً برطرف کرنے کا حکم جاری کر دیا،باورچی نے سامان سمیٹا اور کہیں اور قسمت آزمانے کے لیے نکل پڑا ۔کچھ دن بعد دربار میں پھر وہی بے لذیذ کھانے اور گوشت پکنے لگا ، ہفتے دو ہفتے بعد بادشاہ سلامت کو مسور کی دال یاد آئی ،حکم ہوا کہ اس باورچی کو ڈھونڈ کر دربار میں حاضر کیا جائے ،سپاہی اور پیادے تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ،ہر طرف اعلان کر دیا گیا کہ اس نام کا باورچی کسی کو نظر آئے تو دربار میں رپورٹ کی جائے ، گھڑ سوار تلاش کرتے ہوئے سیالکوٹ کے مضافات میں پہنچ گئے، وہ باورچی بھی سیالکوٹ کے قریب کسی مقام پر سفر کر رہا تھا ،اہلکاروں نے دیکھا تو اسے چاروں طرف سے گھیر لیا، باورچی نے مدعا پوچھا تو حکم ہواکہ بادشاہ رنجیت سنگھ تمہیں بلاتے ہیں۔

اس نے بادشاہ کا نام سناتوایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی اور اس نے جواب میں یہ تاریخی جملہ کہا: ”یہ منہ اور مسور کی دال“۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس باورچی نے جان دے دی مگر دوبارہ اس دربار کا رخ نہیں کیا۔
میں پچھلے کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ بلاول بھٹو کے اخباری بیانات اور اس کی تقریریں سن رہاہوں،میں بلاول کے طرز تکلم ، لکھی ہوئی تقریریں ،رک رک کر بولنے کے انداز، گلابی اردو، بھٹو بننے کا شوق، منتخب حکومت کو گرانے کے دھمکیاں اور ہاتھ لہرا لہرا کر نعرے لگوانے کے انداز دیکھ کرعجیب سی الجھن کا شکا ر ہوں ، میرے خیال میں بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے کرتب کر کے پاکستانی عوام کو پاگل بنا لیں گے ، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام انہیں بھٹو سمجھ کر ان پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اخباری بڑھکیں اور عوامی جلسوں میں کرتب دکھا کر آنے والے الیکشن میں بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

بلاول بھائی اگر آپ نے یہ سپنے دیکھ رکھے ہیں اور مستقبل میں ان کی تعبیر چاہتے ہیں تو میرا آپ کو مشورہ ہے آپ یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں ، آپ خوابوں اور سرابوں کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں رہنے کی کوشش کریں کیونکہ پاکستانی سماج اب پہلے جیسا نہیں رہا۔اور ویسے بھی آپ کے ابا جان نے جو کارنامے پچھلے پانچ سالوں میں سر انجام دیے ہیں عوام انہیں بھولے نہیں ، عوام کو یا د ہے کہ آپ کے پاپانے کس کس طرح اس ملک کو لوٹا تھا، عوام کو یہ بھی یا دہے کے آپ کے معصوم پاپا نے کھانے اور کمانے کا ایک نیا اصول وضع کیا تھا کہ خود بھی کھاوٴ اور انہیں بھی کھلاوٴ جو تمہارا راز فاش کر سکتے ہیں ، اس کے لیے آپ کے پاپا نے پانچ سال خود بھی کھایااور بچی کچھی ہڈی اپنے اتحادیوں کو بھی ڈالتے رہے اور آپ شاید یہ سب بھول گئے ہوں لیکن پاکستانی عوام نہیں بھولے ۔

بلاول بھائی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ریلیوں میں ہاتھ لہرا کر ، جلسوں میں چیخ چنگھاڑ کر، پریس کانفرنسوں میں بڑھکیں مار کر اور ٹوئٹر پر ٹوئٹ کر کے اس ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں ۔ آپ کو حقائق کاا دراک ہی نہیں ، آپ وہ خود ساختہ لیڈر ہیں جو خواہشات کے جزیروں میں رہ کر اپنے تشنہ خوابوں کی تعبیر چاہتا ہے ، آپ کتنے پانی میں ہیں اور آپ میں لیڈر شپ کی کتنی کوالٹیز موجود ہیں عوام سب جانتے ہیں ،عوام آپ کے بارے میں کیا تبصرہ کرتے ہیں کبھی عوام میں گھل مل کے دیکھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔

عوام جانتے ہیں کہ صرف آکسفورڈ میں پڑھنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا، آپ جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان ایسے موجود ہیں جو آپ سے بہتر لیڈر شپ کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور وہ آپ سے بہتر اس ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ وہ آپ کی طرح دودھ پینے والے مجنوں نہیں ، وہ جلسوں اور ریلیوں میں گلے پھاڑنے والے لیڈر نہیں ، وہ صنف نازک نہیں کہ پریس کانفرنس میں سوال کیئے جانے پر مخصوص انداز میں شرمانے لگ جائیں ۔

بلاول بھائی عوام جانتے ہیں کہ آپ کا تعلیمی ، سیاسی اور سماجی پس منظر کیا ہے ، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اس ملک میں پلے بڑھے اور نہ آپ نے اس ملک میں تعلیم حاصل کی، عوام جانتے ہیں کہ آپ کو اردو زبان کتنی آتی ہے اور عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اس خطے کی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج سے کس حد تک واقف ہیں ۔ بلاول بھائی عوام جانتے ہیں کہ آپ کو اس ملک کے آئین اور قانون سے کس حد تک واقفیت ہے، جب آپ کہتے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم میں ہوں گا تو عوام آپ کی جاہلیت پر ہنستے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں وزیراعظم بننے کے لیے کم از کم پینتیس سال کا ہو نا ضروری ہے ، آپ شاید یہ سب نہ جانتے ہوں لیکن عوام یہ سب نہ صرف جانتے ہیں بلکہ آپ کی جہالت اور پاگل پن پر قہقہے بھی لگاتے ہیں ۔


بلاول بھائی آپ کی بڑھکیں ، آپ کی چیخ و پکار ، منتخب حکومت کو گرانے کی دھمکیاں اور اگلا وزیر اعظم بننے کی خواہش کو دیکھ کر رنجیت سنگھ کا باورچی یاد آ رہا ہے جس نے دربار میں دوبارہ طلب کیے جانے پر صرف اتنا کہا تھا کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :