12واں بین الاقوامی کتب میلہ کراچی

جمعہ 23 دسمبر 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

حسب روایت ۲۰۰۵ ء سے جاری اس سال بھی دی پاکستان پبلیشر اینڈ بک سیلر ایسو سی ایشن نے حکومتی ادارے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ۱۲واں بین الاقوامی کتب میلہ ایکسپو سنیٹر کراچی میں ۱۵ تا ۱۹ دسمبر۲۰۱۶ء منقعد کیا۔ دی پاکستان نیشنل بک سیلرز ایسوسی ایشن کی کمیٹی برائے ۱۲وان میلہ کے کنوینر جناب اویس مرزا جمیل نے اپنے پیغام میں کہا۲۰۰۵ء سے یہ میلہ منعقد کیا جا رہا ہے۔

کراچی کے لوگوں کے لیے تفریح ، کتابوں سے لگاؤ کے ساتھ ساتھ کتابوں پر ان کااعتماد بڑھتا ہے۔ کراچی کے لوگوں کے تعاون سے ہم اس قومی ایونٹ کو خوب سے خوب تر بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ہم اس ایونٹ میں پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے گیارہ سال سے اس ایونٹ کو مناسب کوریج دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کراچی کے عوام کے شکر گزارہیں کہ اس کتاب میلے میں ہر سال میں شرکت کرکے اِسے کامیاب کرتے ہیں۔

میلے انتظامیہ کے چیئرمین کے مطابق۱۲ واں بین الاقوامی کتب میلہ جو ۲۰۰۵ء میں صرف ایک حال میں منعقد ہوا تھا ترقی کرتے ہوئے کئی سالوں سے ایکسپو سینٹر کے تین حالوں میں منعقدہو رہا ہے۔حال نمبر ایک میں چھیالیس بک پبلیشر کتب فروشوں کے اسٹال لگے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے حال میں بھی اتنے اتنے ہی اسٹال لگے ہیں کل تین سو تیس اسٹال لگائے گئے۔ اس بین الاقوامی کتاب میلے میں برادر ملک ترکی، پڑوسی ملک بھارت ، سنگا پور اوربرطانیہ اور پاکستان کے سیکڑوں پبلیشر اور کتب فروشوں نے اپنے اسٹال لگائے ہیں۔

ان اسٹالوں میں قرآن، حدیث، تفسیر، تاریخ، عام معلومات، ناول، نصابی ، تفریحی، سی ڈیز اور بچوں کی کتب ہر زبان میں موجود تھیں۔ منتظمین کے مطابق اس سال کتاب میلے میں چھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ تین لاکھ سے زائد کتابیں فروخت ہوئی۔اس سال شہریوں کی کتاب میں دلچسپی کے سابقہ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ گزشتہ برس کتاب میلے میں پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی تھی ۔

کتب میلے میں شریک شہریوں کے مطابق انٹرنیٹ کے بعد جدید دور میں کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی سال میں دو بار کتب میلے منعقد ہونے چاہییں۔سیاسی،سماجی،تعلیمی، اور دیگر طبقوں کی معروف شخصیات نے بھی میلے میں شرکت کی جن میں میئر کراچی وسیم اختر،وزیر تعلیم مہتاب ڈھر،وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی،ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار،خواجہ اظہار الحسن، ادیب و شاعر سحر انصار ی ،ناول نگار و کالم نگار نور الہدیٰ شاہ، فاطمہ حسن،میئر حیدر آباد طیب حسین،سینئر صحافی قاضی اسدعابد، صحافی محمود شام،نیوی کے وائس ایڈمرل شاہ سہیل،سابق وزیر ر تعلیم پیر مظہر الحق، جسٹس (ر) پروفیسر ڈاکٹر غوث محمد، نوائے وقت کراچی کے ایڈیٹر سعید خاور، سینئر صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

۱۵ دسمبر کو میئر کراچی اور وزیر تعلیم سندھ نے میلہ کا افتتاح کیا تھا۔فرینکفرٹ بک فیئر کی وائس پریزیڈینٹ کلاڈیا کینرر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی کتب میلے میں خواتین کی دلچسپی دیکھ کر حیرانی ہوئی۔میلے میں شرکت کرنے کے بعد ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے دوبارہ پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس میلے میں انڈونیشیا،مصر،ترکی،سنگاہ پور،چین،اور دیگر ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔

گزشتہ کتاب میلوں کی طرح اس سال بھی راقم بھی ہفتہ کے دن اپنے بچوں کے ساتھ میلہ میں شرکت کے لیے گیا۔بیماری اور کمزوری کے سبب ویل شیئر ساتھ لے کر گیا تھا ۔ اس دن کراچی کے اسکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیوں اور محکمہ تعلیم سے متعلق افراد کی شرکت کی وجہ سے معمول سے زیادہ رش تھا۔ عوام کی شرکت کے لیے اسٹیڈیم روڈ سے راستہ بنایا گیا تھا۔ پارکنگ کے لیے ایکسپو سینٹر کافی کشادہ ہے۔

گارڈزکی مہربانی کی وجہ سے مجھے حال کے مین انٹرنس تک جانے کی اجازت مل گئی۔ کراچی میں رینجرز کے ٹارگیٹڈ آپریشن کی وجہ سے عوام میں اب خوف کا عالم ختم ہو گیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسے فیملی ایونٹس شہر میں منعقد ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں دفاعی نمائش بھی ہوئی تھی جس میں پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی اداروں نے اپنے اپنے دفاعی سامان نمائش کے لیے رکھے تھے۔

سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں غدارِ وطن الطاف حسین نے کتابوں کے بجائے لوگوں کے ہاتھوں میں اسلحہ دے دیا تھا جس سے کئی سالوں سے قتل غارت جاری رہی۔ اب حا لات درست ہو گئے ہیں۔ امت مسلمہ خصوصاًپاکستانیوں کو کتاب سے لگاؤ پیدا کرنا چاہیے۔ یہی ترقی کا زینہ ہے۔مسلمانوں نے اللہ کی کتاب پر عمل کر کے دنیا کے غالب حصہ پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کی تھی۔

مسلمان کتابوں سے محبت کرتے تھے مگر کتاب دشمن وحشی ہلاکو نے بغداد میں کتابوں کو جلا دیا۔ کچھ کو دریا میں ڈال دیا۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے محقق گزرے ہیں جیسے ابوبکر محمد ابن یحییٰ جس نے فلسفہ، علم الادویہ، ریاضی اور ایسٹرانو می میں تحقیق کی۔ابن طہر نے سرجری میں کام کیا۔ پہلا گلوب اور نقشہ تیار کرنیوالا الدریس تھا۔ ابن طفیل نے فلسفہ میں کام کیا۔

ابن راشد نے قانون، علم الاودیہ، ایسٹرانومی اور تھیالوجی میں تحقیق کی، البیرونی، ابن خلدون وغیرہ کا نام تو مسلمانوں میں مشہور معروف ہے۔ فلسفی شاعرعلامہ اقبال کا مشہور واقعہ ہے کہ برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں کتابوں کو دیکھتے ہوئے بے ہوش ہو کر گر پڑے تھے۔ ہوش میں آنے کے بعد کہا کہ میں اپنے آباء و اجداد کی کتابیں دیکھ کر حیران ہو گیا ہوں اور گر پڑا کہ کس طرح مغرب نے ان کتابوں کو پڑھ کر ترقی کے منازل طے کیے ہیں۔

صاحبو! ہمیں بھی کتابوں سے لگاؤ بڑھاناچاہیے۔ پبلیشرز اور کتب فروشوں حکومت کے تعاون سے ایسے کتاب میلے پاکستان کے سارے صوبوں کے دارالخلافوں میں منقعد کرنے چاہییں تاکہ عوام کتابوں سے محبت کرنے لگیں کیونکہ ترقی کا راستہ علم سے ہی نکلتا ہے اور کتاب اس میں معاون کا کردار ادا کرتی ہے۔ آخرمیں ہم ا ہل کراچی پبلیشر، کتب فروش ، نیشنل بک فاؤڈیشن اور میلے کی انتطامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :