پولیس میں درویش۔۔۔۔؟

اتوار 15 جنوری 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

محکمہ پولیس میں کبھی کوئی درویش دیکھا ۔۔؟ یہ پوچھتے ہوئے وہ گھورتی نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھنے لگے۔۔ میں نے ایک زبردست قہقہ لگایا ۔۔ شدید سردی کے باوجود ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔۔ پھر معذرت بھری نگاہوں سے ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے ہوئے کہا ۔۔ پولیس کے شیرجوان اور درویشی بہت دور دور۔ ۔ آگ اور پانی کو بھی کبھی ایک گلاس ۔۔ برتن۔

۔ گھڑے یا دریاوسمندر میں کسی نے دیکھا ہے ۔۔آگ کا پانی اور پانی کا آگ کے ساتھ بھلا کیا تعلق ۔۔؟جس طرح آگ کاپانی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں اسی طرح سرکار کی وردی میں طاقت سے مدہوش پولیس والوں کابھی درویشی سے کیا لینا دینا ۔۔؟ ہاں پولیس والوں کو ہلاکو خان ۔۔ چنگیز خان اور گلو بٹ کی شکل میں ایک نہیں باربار دیکھا ۔۔ شیرجوانوں کو غریبوں پر چڑھتے اور وی آئی پی کے پیچھے دوڑتے ہوئے بھی ضرور دیکھا ۔

(جاری ہے)

۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی کہانیوں میں بھی ان کا ذکر خیر ایک دو نہیں سو سو بار پڑھا اور لوگوں سے سنا ۔۔ میری یہ باتیں سن کر وہ سگریٹ کا ایک بڑا کش لگاتے ہوئے گویا ہوئے۔۔ کاش! آپ یہ سب کچھ دیکھنے کے ساتھ پولیس میں ملک اعجاز کی طرح کا کوئی درویش بھی دیکھ لیتے ۔۔ جوزوی صاحب ۔۔ آپ اور اس قوم نے محکمہ پولیس میں ہلاکو خان ۔

۔ چنگیز خان اور گلو بٹ جیسے پولیس افسر اور اہلکار تو بہت دیکھے لیکن ملک اعجاز جیسے درویش ۔۔ ایماندار۔۔ غیرت مند اور رحم دل افسر بہت کم یا سرے سے دیکھے ہی نہیں ۔۔ میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ محکمہ پولیس میں ہر شاخ پر درویش ہی بیٹھے ہیں لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ بد سے بدنام اس محکمے میں آج بھی بڑے اللہ والے موجود ہیں ۔۔ میں بھی آپ کی طرح پولیس اور درویشی کو ناممکن سمجھ رہا تھا لیکن جس دن پولیس کی فوج ظفرموج کے درمیان ۔

۔میں نے ان کے سب سے بڑے افسر کو شرافت ۔۔ شجاعت ۔۔ جرأت ۔۔ ایمانداری ۔۔ بہادری ۔۔ رحم دلی اور سادگی کی ایک مثال بنتے ہوئے دیکھا۔۔ تو اس دن میں محکمہ پولیس کے حوالے سے اپنے نظریات ۔۔ خیالات ۔۔ خدشات ۔۔ تحفظات اور افکار کو عبث ماننے پر مجبور ہوا ۔۔ یہ دسمبر کی ایک سرد شام تھی ۔۔ میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ضلع تورغر سے واپس آرہا تھا ۔

۔ مغرب کی نماز ہو گئی تھی ۔۔ اندھیرا آہستہ آہستہ منزل کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔ پرندے اپنے گھونسلوں تک پہنچ چکے تھے ۔۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔ تورغر دور دراز علاقہ ہونے کے باعث ہماری چاروں طرف خوف ۔۔ گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے ۔۔ ہم نے تاریخ کی دیواروں پر کئی بار پڑھا تھا کہ تورغر جانے والے اکثر لوگ دن کی روشنی میں بھی جان کی آمان مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

۔ پھر اس علاقے میں پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہونے والا وہ اندوہناک ۔۔ لرزہ خیز اور افسوسناک واقعہ جس میں ملک اور امن دشمنوں نے پولیس اہلکاروں کے ناک کان تک کاٹے تھے۔۔ ابھی تک ہمارے دل و دماغ میں تازہ تھا ۔۔ خوف اور پریشانی کی دلدل سے نکلنے کیلئے ہم تیزی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔ ابھی ہم تورغر کی حدود میں ہی تھے کہ اچانک ہم پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی ۔

۔ انتہائی تیزی اور بے احتیاطی سے عاجز آکر ہماری نئی نویلی گاڑی آدھے راستے میں ہمیں جواب دے گئی۔۔ گاڑی خراب ہونے کے ساتھ ہی ہمیں یوں لگا کہ اب ہمارا آخری ٹائم شروع ہو گیا ہے ۔۔ ہر طرف جھاڑیاں ۔۔ کالے پتھر اور تناور درختوں سے خوف و ہراس کے سائے بحری بیڑے جتنا بھاری وزن لئے ہمارے کندھوں سے ٹکرا رہے تھے ۔۔ کلمہ پڑھ کر ہم گاڑی سے باہر نکلے ۔

۔ایک ایک سانس کی گنتی شروع کردی۔۔ سردی اورخوف سے ہمارے ہاتھ کانپ اور جسم لرز رہے تھے ۔۔ گاڑی کا پچھلا ٹائر پنکچر ہو چکا تھا ۔۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ٹائر کو فوری تبدیلی کرنا ہمارے لئے کوئی آسان نہیں تھا ۔۔ موت کی اس وادی میں ٹائر کی تبدیلی کی تدبیر کرنے کے ساتھ ہم کسی خوفناک انجام کا انتظار کررہے تھے ۔۔ اچانک ہمیں کسی کے بوٹوں کی آہٹ کی آواز سنائی دینے لگیں ۔

۔ تھوڑی دیر بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس دراز قد کے ایک شخص ٹارچ کی روشنی میں ہماری طرف بڑھے۔۔ ہمارے قریب پہنچتے ہی ایک گرجدار آواز میں پوچھا ۔۔کون ہو۔۔؟ اور یہاں کیا کررہے ہو ۔۔؟ ہماری حقیقت جاننے کے بعد وہ ایک چوکیدار کی طرح ہمارے پاس کھڑے ہوئے ۔۔ اسی اثناء میں ہماری آنکھوں پر دور سے گاڑی کی لائٹس لگیں ۔۔ کچھ دیر بعد پولیس موبائل بھی وہاں پہنچیں ۔

۔ پولیس جوان ٹائر کی تبدیلی میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے جبکہ وہ شخص آخری لمحے تک ایک ایماندار اور بہادر چوکیدار کی طرح ہمای حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ۔۔ گاڑی ٹھیک ہونے کے بعد منزل کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے ہم نے پولیس اہلکاروں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا۔۔ جو رات کی تاریکی اور موت کی وادی میں ہمارے لئے مسیحا بن کے آئے تھے ۔۔ ڈی پی او تورغر ۔

۔ پولیس اہلکاروں کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی ہم ہکا بکا ہو کر رہ گئے ۔۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی زیارت تو دن کی روشنی میں بھی بڑے قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے ۔۔ شدید سردی پھر اندھیری رات میں ۔۔ نرم گرم بستر چھوڑ کر گھنی جھاڑیوں اور کالے پتھروں میں یہ کیا کررہے ہیں ۔۔؟ ہم تو ابھی اس سوچ سے ہی باہر نہیں نکلے تھے کہ پولیس والوں نے ہمیں جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔

۔ صاحب کا تویہ روز کا معمول ہے ۔۔ لوگ جب سو جاتے ہیں ۔۔دنیاجب خاموشی کی چادراوڑھ لیتی ہے۔۔ صاحب بارش دیکھتے ہیں نہ برفباری۔۔گرمی کاکوئی خیال ہوتاہے نہ سردی کی کوئی فکر۔۔ صاحب پستول لئے عوام کی چوکیداری شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ آگے آگے صاحب ہوتے ہیں۔۔پیچھے پولیس موبائل ۔۔ صاحب تو چوروں ۔۔ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے ایسے دشمن ہیں جیسے بھارت پاکستان کا ۔

۔ یہ حقیقت جاننے کے بعد ہم نے صاحب سے ملنے اور ان کا ماتھا چومنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ٹارچ لئے کہیں کسی اور طرف نکل گئے تھے ۔۔ یہ تھے ملک اعجاز ۔۔ جنہوں نے اپنی جرأت ۔۔ بہادری ۔۔ ایمانداری اور شجاعت سے تورغر جیسے جرائم کدے کو بھی امن و امان کا گہوارہ بنایا ۔۔ جوزوی صاحب ۔۔ ملک اعجاز تو آج تورغر میں نہیں ۔۔وہ ایس پی ایبٹ آباد کے عہدے پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن تورغر میں آج بھی ان کی جرأت ۔

۔ بہادری اور شجاعت اور درویشی کے گن گائے جارہے ہیں ۔۔ ان کے در پر آنے والا کوئی مظلوم انصاف کے بغیر واپس نہیں گیا ۔۔ نہ ہی اس نے کسی ظالم ۔۔ چور اور ڈاکو کو چھوڑا ۔۔ غریبوں اور مظلوموں کیلئے وہ ہمیشہ درویش ۔۔جبکہ ظالموں ۔۔ قاتلوں ۔۔ چوروں اور ڈاکوؤں کیلئے وہ ہمیشہ تلوار بے نیام کی مانند رہے ۔۔غریب اور مظلوم لوگوں کو ملک اعجاز کا چہرہ دیکھتے ہی اپنائیت کا احساس ہونے لگتاہے۔

۔ اس نے اپنے دروازے کبھی غریبوں اور فقیروں پر بند نہیں کئے ۔۔ آج بھی ان کے اردگرد آپ کو پھٹے پرانے کپڑوں والے غریب اور فقیر ہی نظر آئیں گے ۔۔ ڈی پی او اور ایس پی ہو کر بھی ملک اعجاز کبھی عوام کیلئے پولیس افسر نہیں بنے ۔۔ وہ کل بھی محکمہ پولیس میں ایک درویش تھے اور وہ آج بھی کسی درویش سے کم نہیں ۔۔ پولیس وردی کے اندر ہر شخص ہلاکو خان ۔

۔ چنگیز خان اور گلو بٹ نہیں ہوتا ۔۔ اس محکمے میں ملک اعجاز جیسے درویش بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ نظام کسی طرح چل رہا ہے ۔۔ جوزوی صاحب ایک بات یاد رکھیں۔۔ جس دن محکمہ پولیس میں ملک اعجاز جیسا درویش کوئی نہیں رہا پھر یہ محکمہ بھی نہیں رہے گا۔۔ کیونکہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظالم کی نہیں ۔۔ جس دن درویش اس محکمیسے نکل گئے وہ دن پولیس کے چنگیزوں ، ہلاکو خانوں اور گلوبٹوں کا بطور پولیس آخری دن ہی ہوگا۔یہاں ہم اس بات پربھی حیران وپریشان ہیں کہ اتنے قابل افسرکوایس پی ایلیٹ فورس کیوں تعینات کردیاگیا۔اگرملک اعجازکسی جگہ بطورڈی پی اولگادےئے جاتے تواس سے نہ صرف مظلوموں کی دادرسی ہوتی بلکہ ناصردرانی کاپولیس بدلنے کاخواب بھی حقیقت کاروپ دھارلیتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :