دجال ۔ قسط نمبر 1

جمعہ 20 جنوری 2017

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

آٹھ انسان دنیا کی آدھی دولت پر قابض ہیں جبکہ اسی برطانوی ادارے نے دوہزار سولہ کے آغازمیں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا کی نناوے فیصد دولت پر ایک فیصد اقلیت قابض ہے -آکسفم نامی برطانوی ادارہ دنیا کی دولت اور اس کی تقسیم کا حساب کتاب رکھتا ہے-حالیہ رپورٹ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی نصف دولت صرف آٹھ افراد کے قبضے میں ہے ان میں کوئی بھی عورت شامل نہیں یعنی معاشی دہشت گردوں نے عورت کی ”معاشی خودمختاری‘مساوات‘برابری کے حقوق “جیسے خوشنما نعروں کے فریب پہلے مغربی دنیا کے خاندانی نظام کو توڑا اور آج کی عورت کو معاشی خودمختاری ملی اور نہ ہی مساوات‘امریکا‘برطانیہ سمیت امیر ترین مغربی ممالک میں جہاں خواتین کے مردوں سے بہتر ورکرزہونے کے بارے میں رپورٹس سامنے آتی ہیں انہی معاشروں میں عورتوں کی اجرت کے بارے میں عدم مساوات ایک بہت اہم اور حساس موضوع ہے-حتی کہ کینڈا جیسی فلاحی ریاست میں خواتین ورکرزکو مردوں کے برابر اجرت نہیں ملتی -آج مغربی دنیا میں عورت جن مصائب کا شکار ہے وہ ناقابل بیان ہیں-سنگل مدر اور طلاق یافتہ خواتین جو اپنی جوانیاں اور عمر بچوں کو پالنے میں گزاردیتی ہیں اور آخری عمر میں شدید تنہائی کا شکار ہوکر کسی نرسنگ ہوم میں دم توڑدیتی ہیں ”مہذب “مغربی دنیا کی ہردوسری یا تیسری عورت اس اذیت سے گزررہی ہے یا گزرچکی ہے-برسوں پہلے جب پہلی مرتبہ دنیا کی واحد سپرپاور امریکا گیا تو شروع میں عام امریکیوں کی ”جنک فوڈ“کی عادت سے چڑہوتی تھی کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی سٹورسے مختلف ڈبے اور کین خرید کر سٹور کرلو اور کچن ہوتے ہوئے بھی گھر میں کھانا پکانے کارواج نہیں ہم پنجابی جب تک سالن اور روٹی نہ کھالیں تسلی نہیں ہوتی مگر جب ڈالرٹری‘فیملی ڈالر‘ڈالرجنرل وغیرہ پر باقاعدگی سے جانا شروع کیا تو رازکھلا کہ امریکا میں ایک ڈالر میں ملنے والے ”جنک فوڈ“کے ان ڈبوں اور کین ز سے اسی فیصد سے زیادہ امریکی اپنے پیٹ کا دوزح بھرنے پر مجبور ہیں کہ اس سے سستا کچھ بھی نہیں-آج برسوں بعد پاکستان میں جنک فوڈ انڈسٹری کو تیزی سے پھلتا پھولتا دیکھ کر خوف آتا ہے کہ ہم کس راہ پر چل رہے ہیں-احساس کمتری کے مارے ہمارے معاشرے میں ایک ڈالر میں امریکا میں فروخت ہونے والا جنک فوڈ کا ڈبہ تین سے چار ڈالر میں ہم محض اس لیے خرید رہے ہیں کہ لوگ ہمیں ”بڑے لوگ“یا کاٹھے انگریزسمجھیں‘ہمیں احساس تک نہیں کہ جنک فوڈ اور فاسٹ فوڈ کی شکل میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایسا زہردے رہے ہیں جو انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر اپاہج بنارہا ہے-امریکا میں ایک اور وباء تعلیمی اداروں میں منشیات پر بھی ہم جیسے ”پینڈو“حیرت زدہ ہوجاتے تھے کہ سکولوں اور کالجوں کے طالب عالم نشہ کرتے ہیں تو آج ہم بھی ”ترقی یافتہ“ہوگئے ہیں کہ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں بھی منشیات کا زہرتیزی سے پھیل رہا ہے- ہم جیسے ”اسلامی معاشروں“میں بھی اکثریت کے لیے زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول رہ گیا ہے اور ایسے میں ہمارے مشرقی خاندانی نظام پر جو کاری ضربیں پچھلے تیس سالوں کے دوران ماری گئی ہیں بلاشبہ ان حملوں نے اسلامی اورمشرقی روایات ‘اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے-ابلیس کی اولادیں یہ معاشی دہشت گردوں کے حملے بظاہر کامیاب نظر آرہے ہیں کہ آج دولت اور جائیداد کی ہوس میں بھائی ‘بھائی کی جان کا دشمن‘اولادیں ماں ‘باپ کے خون سے ہاتھ رنگنے میں بھی عار محسوس نہیں کررہی-ابلیس کی یہ اولادیں نسل آدم کے دل ودماغ میں یہ دجالی خیالات ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں کہ اصل قوت مال ودولت ہی ہے اور تمہارا مقصد حیات صرف اور صرف اس کا حصول ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف ”فلٹرز“سے ہوتی ہوئی یہ دولت آخرکار پھر سے انہی چند خاندانوں کے ہاتھوں میں جاپہنچتی ہے-بنیادی طور پر ہم بدترین معاشی غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں اور دنیا بھر کے انسان ان معاشی دہشت گردوں کے غلام ہیں -مال وزرکے اسی فتنہ وفساد نے ہمیں ہماری منزل سے کہیں دور لے جاپھینکا ہے کہ اس کا حصول تو درکنار ہم منزل تک کو مکمل طور پر فراموش کربیٹھے ہیں -دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کواپنے ڈھب سے چلانے اور دجالی مقاصد کے حصول کے لیے ایک نیا نظام متعارف کروایا گیا جسے ماڈرن جمہوریت کہا جاتا ہے -جنگ عظیم سے پہلے عالمی چور‘ڈاکوؤں نے سلطنتوں پر براہ راست قبضے کرکے انہیں بری طرح لوٹا اور جدید مغربی دنیا وجود میں آئی پھر وحشی درندوں نے پینترا بدلا اور ایک خوشنماء نقاب سرمایہ درانہ نظام کے بھیانک چہرے پر اوڑھ دیا جسے آج جمہوریت کہا جاتا ہے اور جس کے لیے ہم سب کچھ نچھاور کرنے کے دن رات نعرے مارتے ہیں یہ ان دونہروں والی حدیث مبارکہﷺ کی طرح ہے جس میں فرمایا گیا کہ” دجال کے پاس دونہر یں ہونگی ایک آسمان سے باتیں کرتے آگ کے شعلوں جیسی اور دوسری دوھ سے سفید ٹھنڈے اور شیریں پانی جیسی مگر خبردار تم فریب میں نہ آنا کیونکہ جسے تم آگ سمجھو گے دراصل میں وہ ٹھنڈا اور شیریں پانی ہوگا اور جسے ٹھنڈا اور شیریں پانی سمجھو گے وہ آگ ہوگی“اگرچہ ظہور دجال اور اس پہلے کے بہت سارے واقعات ابھی ہونا باقی ہیں مگر جسے فتنوں کا دور کہا گیا ہمیں اس کا سامنا ضرور ہے -یہ ماڈرن جمہوریت اور اس کی چمک ‘دھمک بظاہر اس ٹھنڈے اور میٹھے دکھائی دینے والے پانی کی نہر جیسی ہے جوکہ حقیقت میں انسانیت کی تباہی اور بربادی ہے جسے فلاح قرار دیا جارہا ہے اور ”اصلاح“کے نام پر دنیا میں قتل وغارت گری کا وہ بازار گرم ہے کہ ورلڈریسرچ نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد سے اب تک بیس ملین سے زیادہ انسان ہلاک کیئے جاچکے ہیں جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے اس دوران امریکا سمیت دیگر مغربی اور غیرمسلم ممالک میں بھی حملے ہوئے مگر ان میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے بھی کم افراد مارے گئے-جن میں بڑی تعداد افریقی اور لاطینی امریکی ملکوں کے شہریوں کی ہے-امریکا کو افغان جہاد کے دوران ایک اعشاریہ آٹھ ملین افراد کے قتل کا بھی ذمہ دار قراردیتا ہے یہ ادارہ-پیرس کے شہر ڈیوس میں ورلڈاکنامک فورم کا اجلاس جاری ہے مگر ایک مقرر بھی ایسا نہیں جس نے انسانیت کومعاشی غلامی سے نجات یا معاشی عدم مساوات جیسے بنیادی مسائل کو موضوع سخن بنایا ہو بلکہ ”دہشت گردی“اس فورم سے ہونے والی تقاریرکا اہم ترین موضوع ہے-انٹیلی جنس شیئرنگ‘دنیا کو دہشت گردی کے خلاف متحدہ کرنا‘دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیزکرنا جیسے الفاظ ہر مقررکی زبان سے ادا ہورہے ہیں بین السطور دنیا میں ایک حکومت کا دجالی نظام-نیوورلڈآڈرکا بنیادی مقصد اور مشن بھی دنیا میں ایک طاقت کے زور ایک ابلیسی حکومت کی راہ ہموار کرنا ہے جس کی بنیادوں پر آخرکار دجال عظیم اپنی حکومت قائم کرئے گا -آخرالزماں کے ضمن میں احادیث کے اندر دجال عظیم کے ظہور سے پہلے چھوٹے دجالوں کا ذکر ملتا ہے اور اگر ہم ان احادیث کی کسوٹی پر دنیا بھر کے طاقتور طبقات کو پرکھیں تو ان چھوٹے دجالوں کے لشکر کے چہرے عیاں ہوجائیں گے-آپﷺ کی ایک حدیث مبارکہ میں مال کو امت مسلمہ کا فتنہ قراردیا گیا ہے اب ذرا اپنے دائیں بائیں دیکھیں اور اپنے گریبانوں میں جھانکھیں تو کیا ہم اس فتنے میں بری طرح مبتلا نہیں؟ہم خود اور ہمارے اردگرد صوم وصلواة کے پابند نظر آتے ہیں مگر توکل کے معاملے میں ہم انہیں بری طرح ناکام پاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی ہوس میں ایمان کب گیا پتہ ہی نہیں چلا اب فاقے بھی کرتے ہیں ‘ٹکریں بھی مارتے ہیں‘حج وعمرے بھی کثرت سے کرتے ہیں مگر رحمتوں کا نزول نہیں ہوتا‘زندگیوں میں سکون نہیں ‘روحیں بے چین ہیں آخرکیوں؟---جاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :