طلبہ کو رہنمائی کی ضرورت

ہفتہ 25 فروری 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ہم نے میٹرک گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول بھکر سے کیا اور پھر گورنمنٹ کالج بھکر میں داخلہ کیلئے فارم جمع کرادئیے، اب یہ مرحلہ درپیش تھا کہ ہائی سکول کے سہمے ہوئے ماحول سے نکل کر کالج کے نسبتاً آزاد ماحول میں رہ کرکونسے مضامین کا انتخاب کیا جائے کہ جس کی بدولت مستقبل بھی تابناک ہواورہمارے جیسے درمیانے درجے کے طالبعلم کو دشواری بھی نہ ہوچونکہ کوئی رہبر نہ تھا ایک پروفیسر صاحب(نام معلوم ہے مگر افشا نہیں کرناچاہتے) نے مشورہ دیا کہ ”سوکھے سوکھے(آسان آسان) مضمون چوائس کرلو“ اب آسان مضامین کی فہرست پر نظردوڑائی تو تین چار گروپوں میں سے ہرمضمون ہی آسان اورہرمضمون مشکل نظرآیا(ایسا عموماًہمارے جیسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے) خیر تین گروپوں میں سے ایک ایک اختیاری مضامین چن لینے کے بعد آگاہ کیا تو انہوں نے فارم پرکرتے ہوئے سوکس ،تاریخ، اسلامیات کا اندراج کردیا۔

(جاری ہے)

اب ہمیں بھی خبر نہ تھی کہ ان تینوں مضامین کے سہارے ہمارے مستقبل کا کیا بنے گا؟ ہم نے تینوں مضامین کو پوری طرح اورایمانداری سے اپنالیا، دوسال کے بعد جب کالج سے ایف اے کی ڈگری ملی تو تھرڈائر کیلئے وہی مسئلہ، خیر اس دفعہ یہ بات ہوئی کہ ہم چونکہ صحافتی میدان میں وارد ہوچکے تھے اسلئے تعلیم کو بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا ۔آج جیسے تیسے سہی خیرسے صحافت کے سہارے گزر رہی ہے لیکن آج بھی یہ سوچ کر دل سے ہوک نکلتی ہے کہ ہم اپنا ذہین اور قابل قدر مستقبل اپنے ہی ہاتھوں ضائع کرتے چلے جارہے ہیں، پاکستان میں عموما اوردنیا بھر میں خصوصاًٹیکنیکل تربیت کی اہمیت اب تسلیم کی جانے لگی ہے لیکن جانے کیوں والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر (یہ پڑھنا لکھنا عموماایف اے، بی اے تک محدود ہوجاتا ہے) اعلیٰ افسر بن جائیں ا س کے لئے کالج تک تو ان کیلئے اخراجات پورے کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اس کے بعد کے مراحل مشکل ترہوتے جاتے ہیں ، رہے وہ طلبہ جو میٹرک سائنس کے بعد ایف ایس سی اچھے نمبروں سے کرلیتے ہیں توپھر ایم بی ایس ایس کی تعلیم کیلئے بھاری اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے جو بے شمار والدین کے مسئلہ بن جاتے ہیں۔


اب اگر جنرل ایجوکیشن کی طرف نظردوڑائی جائے تو بنامشاورت اوررہنمائی کے طلبہ بی اے کے بعد کئی طرح کے ایم اے کرنے کے باوجود روزگار سے محروم رہتے ہیں پھرہوتایوں ہے کہ چپڑاسی سے لیکر نائب قاصد تک اور پھر کلرک آسامی کیلئے بھی ایم اے پاس امیدواران سامنے آجاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں تقریبا ً چالیس لاکھ ایف اے ،بی اے ، ایم اے پاس بیروزگار موجود ہیں۔

جو یقینا بہتر رہنمائی نہ ہونے کی دلیل ہے۔
ایک اور رجحان جو آنیوالے کل کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے کہ بھاری بھرکم فیسیں لینے والے کالجز نے بھی جنرل ،کامرس ایجوکیشن (گذشتہ سے پیوستہ برس حکومت نے کامرس تعلیم کو بھی جنرل ایجوکیشن میں مدغم کردیاہے) کے امتزاج سے ایسی پود تیارکررہے ہیں جو آنیوالے کل پھر بیروزگارپھرتی نظرآئے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ ماضی بعید میں میٹرک کے بعد جب پی ٹی سی کلاسز شروع ہوئیں تو میٹرک تھرڈڈویژنر تک نے داخلہ لے لیااورپھر بڑی تعداد میں سیاسی بنیادوں ،سفارش کی بنیاد پر استاد بھرتی ہوگئے تاہم بعد میں پی ٹی سی تو ”تعلیم برائے ملازمت “ کے خواہشمندوں کیلئے قابل تقلید بن گئی لیکن ہوا یہ کہ اس کے بعد یہ سلسلہ بندہوگیا اورآج تک پھر دوبارہ اس ذریعہ سے استاد بھرتی کرنے کی جرات نہیں کی جاتی ۔

خیر ان دنوں تو این ٹی ایس ٹیسٹ کو ہی تمام ملازمتوں کیلئے ضروری قرار دیاگیا ہے لیکن ٹیکنیکل فراڈ کی وجہ سے اب یہ طریقہ انتخاب بھی اپنی قدر کھوتاجارہاہے۔ اب لاکھوں افراد کیلئے سینکڑوں ملازمتیں میسرہیں لیکن درخواست لاکھوں افراد دیتے ہیں اوران کی بدولت لاکھوں روپے این ٹی ایس ٹیسٹ والوں کی جیب میں ضرور چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی سیورریفل ٹکٹ کی طرح کا ایک جوا ہوا کہ جس کا نام نکل آیاوہ کامیاب باقیوں کے پیسے ضائع ۔


خیر ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ ٹیکنیکل تعلیم کے فروغ اورعوام میں آگہی کیلئے اقدامات کئے جائیں نیز جنرل ایجوکیشن کے اداروں میں طلبہ کی رہنمائی اورسنہری مستقبل کیلئے اپنی پسند ناپسند کی بجائے خالصتاطلبہ کیلئے رہنمائی فراہم کی جائے۔ خاص طورپر سرکاری اداروں میں اس حوالے سے رہنمائی کا الگ سے بنچ ہوتاکہ وہ طلبہ کی ذہنی استعداد کار کے مطابق ان کی رہنمائی کافریضہ انجام دے اور“سوکھے سوکھے“ (آسان آسان) مضامین کی بجائے ایسے مضامین کا انتخاب کرنے میں مدد فراہم کرے جو آنیوالے وقت کی بھی ضرورت ہوتو ان طلبہ کی بھی ۔

نیز اب لمبے لمبے کورسز پڑھانے کی بجائے طلبہ کو شارٹ کورسز کے ذریعے آنیوالے مستقبل کیلئے تیار کیاجائے نیز فضول غیر ملکی کہانیوں کو نصاب سے نکال کر حقیقی اور ضرورت کے مضامین، کہانیاں اورمستقبل کے رہبرنکات شامل کئے جائیں۔
ہم دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑتی وہ قوم ہیں جسے آنیوالے دس سالوں کی بابت خبر نہیں ہے اگر اس ملک کو سنوارنا ہے تو ہمیں اپناطریقہ تدریس اور نصاب کو ضرور تبدیل کرنا ہوگا نیز طلبہ کی بہتر رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیناہوگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :