فاٹا اور ہزارہ

اتوار 5 مارچ 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضمام کی تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں حامی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے تاریخی اجلاس میں فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کی بنائی ہوئی کمیٹی کی سفارشات جو فاٹا کے خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام کے حق میں ہیں کی مخالفت اب شاید صرف مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی ہی کر رہے ہیں اور امید ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ دونوں حضرات بھی راضی ہو جائیں گے۔

سالوں بلکہ صدیوں سے عجیب طرح کے ظالمانہ قوانین میں جکڑا ہُوا خطہ صحیح معنوں میں قومی دھارے میں شامل ہونے سے ترقی کے زیادہ مواقع حاصل کرے گا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کے تمام حصوں کے لوگوں نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے کوئی مخالفت سامنے نہیں آئی۔

(جاری ہے)

خود فاٹا کے منتخب عوامی نمائندوں نے بھی اس تجویز کی پر زور حمایت کی ہے۔ فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کی ایک بڑی دلیل فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں کی زبان اور ثقافت میں مماثلت بھی بتایا جاتا ہے۔ خوشی کے اس موقع پر خیبر پختونخواہ کے مشرقی علاقے ہزارہ کے عوام کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ہزارہ کے عوام طویل عرصے سے اپنے علیحدہ صوبے کے قیام کی تحریک چلارہے ہیں۔

لسانی اور ثقافتی طور پر پختونوں سے علیحدہ شناخت رکھنے والے ہزارہ کے عوام کا بھی حق ہے کہ اس خطے میں جس خوش اسلوبی سے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کِیا جارہا ہے اُسی خوش اسلوبی سے ہزارہ کو خیبر پختونخواہ سے علیحدہ کر کے صوبے کا درجہ دیا جائے اور ہزارہ کے عوام کو اپنی زمین اور وسائل کا مالک بنایا جائے۔ صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف بھی ہزارہ صوبے کی حمایتی رہی ہے اور مرکز میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن بھی ہزارہ صوبے کی حمایتی ہے۔

صوبے کی قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو بھی اس امر پر اعتراض نہیں ہوگا۔ لِہٰذا صوبائی اسمبلی ، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آئین میں ترمیم کرکے ہزارہ صوبہ کے قیام کی ترمیم منظور کروانا بھی دشوار نہیں ہوگا۔ آج جبکہ ملک کے شمال مغربی خطے میں تاریخ کروٹ لے رہی ہے اور جغرافیہ تبدیل ہونے جارہا ہے تو بہتر ہوگا کہ عوام کے ایک اور بڑے حصے کے مطالبے پر بھی لبیک کہا جائے اور ہزارہ صوبہ کے قیام کا فوراً اعلان کیا جائے۔

ہزارہ صوبے کا مطالبہ رد کرنے کی اب کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر ایک وسیع علاقے کو کِسی صوبے میں شامل کِیا جاسکتا ہے تو اِسی طرح کِسی دوسرے علاقے کو نکالا بھی جاسکتا ہے۔ اس مطالبے کی منظوری کی صورت میں مزید صوبوں کے قیام کی آوازوں کے اٹھنے کے اندیشوں کا اظہار بھی اپنے اندر وزن نہیں رکھتا۔ دیگر کئی علاقوں میں یہ آوازیں پہلے ہی موجود ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر خطے کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کے جائز مطالبوں کو سُنا جائے۔

صوبوں کی جغرافیائی حدود کو مقدس قرار دینے والے شاید بھول گئے ہیں کہ چند دہائیاں پہلے تک یہ سب انہی علاقوں میں غلامی کی زندگی گذار رہے تھے۔ ملک کی جغرافیائی حدود کے اندر ہر علاقہ ہر پاکستانی کا ہے اور ہر ایک کے لئے مقدس ہے۔موجودہ صوبائی حدود کو مقدس قرار دینے والے یہ مت بھولیں کہ صرف چند برس پہلے تک یہ پورا خطہ ایک صوبے کے طور پر قائم تھااور چند دہائیاں پہلے تک پشاور کا حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا، سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد تھا ،سندھ بمبئی کا حصہ تھا، بہاولپور ، خیر پور، قلات، سوات خود مختار ریاستیں تھیں، پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہُوا تھا، بھارتی پنجاب مزید تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے، بلوچستان نامی صوبہ کا قیام انیس سو اکہتر میں عمل میں آیا، گوادر فیروز خان نون کے دور میں پاکستان کا حصہ بنا۔

پاکستان کا ہر شہری محترم ہے اور ہر علاقہ تمام پاکستانیوں کے لئے مقدس ہے ۔وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کی آواز سُنی جائے اور آغاز فاٹا اور ہزارہ سے کِیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :