ٹرمپ اورمیڈیا

اتوار 5 مارچ 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

ٹرمپ نے ایک اور محاذ کھول دیا ہے۔ ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اس برس میڈیا اور مشہور شخصیات کے لئے وائٹ ہاؤس میں منعقد کئے جانے والے خصوصی عشائیے میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا : میں اس برس وائٹ ہاؤس کے کورسپانڈنٹ ایسوسی ایشن ڈنر میں شامل نہیں ہو گا‘ براہ کرم ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کریں اور ایک بہترین شام گزاریں۔

ٹرمپ منتخب ہونے سے پہلے اپنی انتخابی مہم کے دوران میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے اور یہ سلسلہ انہوں نے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد بھی جاری رکھا۔ ٹرمپ منتخب ہونے سے پہلے اپنے خلاف اور اب منتخب ہونے کے بعد اپنی انتظامی پالیسیوں پر خبروں کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی انہوں نے کہا تھا کہ ’جعلی خبریں‘ عوام کی ’دشمن‘ہیں۔

(جاری ہے)

وہ سی این این اور نیو یارک ٹائمز جیسے بڑے اداروں کو ان کا نام لے کر ہدف تنقید بنا چکے ہیں۔ سی این این کو تو وہ کلنٹن نیوز نیٹ ورک قرار دیتے ہیں۔
اس سے ایک روز پہلے 25فروری کو وائٹ ہاؤس کی ایک غیر رسمی بریفنگ سے سی این این‘ نیو یارک ٹائمز‘دی گارڈین‘لاس اینجلس ٹائمز‘ دی ہوفنگٹن پوسٹ‘ پولیٹیکو(Politico)‘بَز فیڈ (BuzzFeed)‘ بی بی سی‘ ڈیلی میل‘ نیو یارک ڈیلی نیوز‘دی ہل‘ سمیت کئی اہم براڈ کاسٹرز اور اخبارات کو خارج کر دیا تھا‘ جس پر دنیا بھر میں میڈیا ہاؤسز کی جانب سے مختلف حوالوں سے تنقید کی گئی۔

منتخب میڈیا تنظیموں کو پریس سیکرٹری کے دفتر میں غیر رسمی بریفنگ کے لئے بلانے کے اس عمل کو گیگل (Gaggle) کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک آف کیمرہ اجلاس ہوتا ہے۔ گیگل کے لفظی معنی ہیں‘ بطخ کی طرح گرگرانا۔ اس اجلاس میں دوستانہ انداز میں بات چیت کی جاتی ہے۔ غالباً اسی لئے اس کا نام گیگل رکھا گیا ہے۔ ٹرمپ کے میڈیا (پریس) سیکرٹری شون سپائسر Sean Spicerسے جب کچھ تنظیموں کو بین کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا: یہ فیصلہ رپورٹرز کے پول کو وسعت دینے کے لئے کیا گیا ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ درست نہیں اور امریکی میڈیا کی جانب سے اس پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ بعد میں یہ راز بھی کھل کیا کہ وائٹ ہاؤس میں میڈیا کے ساتھ امتیاز کیوں برتا گیا۔ گیگل کے دوران پریس سیکرٹری شون سپائسر ان خبروں پر با ت کی‘ جن کے مطابق وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف رینس پریبس Reince Priebusنے ایف بی آئی سے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی مہم کے دوران روس سے رابطوں کی تردید کریں۔

اگر یہ بات اس میڈیا کے سامنے کی جاتی‘ جس کو وائٹ ہاؤس میں داخلے سے منع کیا گیا ہے تو ظاہر ہے بڑا شور مچتا ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اصل وجہ وہی ہے‘ جس کا ٹرمپ کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ کئی میڈیا گروپ من گھڑت خبریں پیش کرتے ہیں۔
پوری دنیا ‘ بالخصوص امریکی میڈیا میں میڈیا کے ایک حصے کو وائٹ ہاؤس میں غیر رسمی پریس بریفنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دیئے جانامیڈیا کو دبانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ڈین باکوئے نے رائے ظاہر کی: مختلف پارٹیوں کی متنوع ایڈمنسٹریشن کی کوریج کی طویل تاریخ میں ہمیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا‘ ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز اور بز فیڈ (BuzzFeed) نے تو تحریری طور پر وائٹ ہاؤس کے اس اقدام پر احتجاج کیا ہے۔ نیشنل پریس کلب جرنلزم انسٹی ٹیوٹ کی صدر باربرا کوچراں نے بھی صڈر ٹرمپ پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ فرسٹ امینڈمنٹ(پہلی ترمیم)کو ان سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا: ہم صدر اور ان کے سٹاف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوے کو ثابت کریں اور سبھی میڈیا تنظیموں کو وائٹ ہاؤس میں کوریج کی اجازت دیں۔فرسٹ امینڈمنٹ کیا ہے؟ یہ امریکی آئین میں کی گئی پہلی ترمیم ہے‘ جس میں مذہبی آزادی‘ اظہار رائے کی آزادی‘ پُرامن اجتماعات کو نہ روکنے کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی کی بات بھی کی گئی ہے۔

یہ ترمیم 15دسمبر 1791ء کو منظور کی گئی اور ان دس ترامیم میں سے ایک ہے جو مل کر ’بل آف رائٹس‘ یعنی حقوق کا قانون متشکل کرتی ہیں۔ فاکس نیوز کے اینکر بریٹ بائیر نے قدامت پسند میڈیا تنظیموں کو ہدف تنقید بنایا‘ جو گیگل میں شریک ہوئیں اور کہا کہ 2009ئمیں جب صدر اوباما نے فاکس نیوز کو فریز کرنے کی کوشش کی تو اس وقت ساری تنظیموں نے ان کے نیٹ ورک کا دفاع کیا تھا۔

ان سارے احتجاجی بیانات کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے دراصل امریکی میڈیا کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ وہاں اب قدامت پسند اور غیر قدامت پسند میڈیا کی بات ہونے لگی ہے؛ تاہم یہ تقسیم سیاسی سطح پر بھی نظر آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے اورری پبلکن ہی کے جارج ڈبلیو بش جونیئر(سابق صدر) نے صدر ٹرمپ کی جانب سے میڈیا کے بارے میں بولے الفاظ‘ دئیے گئے بیانات اور حال ہی میں عائد کی گئی پابندی کو شدید تنقید کا ہدف بنایا اور کہا ہے کہ ہمیں ایک آزاد میڈیا کی ضرورت ہے۔


ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے میڈیا کے ساتھ شروع کی گئی یہ جنگ وسعت پذیر محسوس ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے تو اب 29اپریل کو وائٹ ہاؤس کے کارسپانڈنٹ ڈنر میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کئی میڈیا گروپ اس تقریب کا پہلے سے بائی کاٹ کر چکے ہیں۔نیو یارک ٹائمز نے 2008ء کے بعد سے اس ڈنر میں شرکت نہیں کی۔گارڈین نے امسال اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ اور اسی ہفتے بز فیڈ نے رپورٹ پیش کی ہے ک سی این این بھی اس پروگرام میں شرکت نہیں کرے گا۔

ویٹنی فیئر اور دی نیو یارکر کے بھی کچھ ایسے ہی جذبات ہیں۔ بلوم برگ نے بھی اس ڈنر سے کنارہ کشی کا عندیہ دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ معاملہ طول کھینچے گا اور عین ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کبھی میڈیا نے ایکا کر لیا اور ٹرمپ انتظامیہ کو اپنے صفحوں سے مکمل طور پر خارج کر دیا تو پھر کیا ہو گا؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ امریکہ اور میکسیکو کے مابین بلند دیوار کی تعمیر نہیں ہے‘ نہ ہی اسے کچھ ممالک کے باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا ایشو ہے۔

یہ میڈیا کے ساتھ جنگ ہے جو ٹرمپ کو بہت مہنگی پڑے گی۔ ویسے بھی اگر میڈیا اپنا قلم روک دے اور کیمرے بند کر دے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے جارحانہ اور آمرانہ نہیں ہیں اور ان کی سوچ تعصبانہ نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل انہیں اپنی سوچ اور رویہ تبدیل کرنا پڑے گا‘ ورنہ پھر ان کے مواخذے والا آپشن تو موجود ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :