بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے

اتوار 19 مارچ 2017

Sajid Khan

ساجد خان

گزشتہ دنوں عوامی اورانقلابی شاعر حبیب جالب کو حسب سابق دوستوں اور مہربانوں نے خوب یاد کیا۔ چند صاحب فکر نوجوانوں نے جالب کی شاعری پر بات کرنے کے لیے محفل سجائی۔ مجھے حیرانگی تھی کہ اس زمانہ میں بھی خواص اوراحباب کے علاوہ نوجوان جالب کی شاعری کو قابل توجہ خیال کرتے ہیں۔اکثر نوجوانوں کو جالب کے شعر ازبر تھے
۔اکثر نوجوانوں کو جالب کےشعرازبر تھے اور موجودہ حالات میں جالب کی شاعری، اس وقت کی آواز لگتی ہے۔

ایک نوجوان طالبہ نے جالب کے یہ شعر سنائے
ذہانت رورہی ہے منہ چھپائے
جہالت قہقہے برسا رہی ہے
ادب پر افسروں کا ہے تسلط
حکومت شاعری فرما رہی ہے
میں نے اس بی بی سے پوچھ ہی لیا کہ اس کو یہ شعر کیوں پسند آئے۔ وہ پہلے تو کچھ دیر چپ رہی پھر جواب میں ایک شعر ہی سنا دیا:
فضا نہیں ہے ابھی کھل کے بات کرنے کی
بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے
میں نے کہا بہت خوب۔

(جاری ہے)

اتنے میں ہماری محفل کا ایک دوسرا نوجوان بولا۔ جناب اب کسی دن حبیب جالب کے کسی شعر کوملٹی میڈیا پر لگانے سے کارسرکار پر تنقید ہوسکتی ہے اور مقدمہ بھی بن سکتا ہے۔ اب تو ان باتوں پر بھی رپٹ درج کروائی جارہی ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ ایسا کہہ سکتا ہے!سوایسے بہت سارے الزام میڈیا کے پردھان ایک دوسرے پر لگاتے نظر آرہے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ جالب نے کس موسم اور کن حالات میں یہ رباعی نما شعر لکھے ہونگے۔

اس وقت بھی کچھ ویسی ہی کیفیت نظر آرہی ہے معاشرہ میں جو ذہانت سے سلوک ہورہا ہے وہ بھی خوب ہے۔ جب جالب نے یہ شعر کہے اس وقت ملک پر رائٹر گلڈ، ادیبوں کے ترجمان کے طور پر سرکاری آواز تھی۔ میرا خیال ہے کہ سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کا زمانہ تھا جب سرکاری طور پر ادیبوں پردست شفقت رکھنے کے لیے جمیل الدین عالی اورقدرت ا للہ شہاب نمایاں کردار ا دا کررہے تھے۔

اس زمانہ میں بھی جالب حق اور سچ کی آواز تھا اور لوگوں کو انقلاب کے لیے اکساتا رہتا تھا اور یہ بات افسرشاہی کو بہت ناگوار گزرتی تھی اوران کے ہم عصرادیب ا ور شاعر بھی حبیب کی شاعری سے گھبراتے تھے۔اس زمانہ میں میری بھی جالب سے کچھ کچھ شناسائی تھی اور مجھ کو اس کی خودداری کا احساس تھا۔
یہ سب نوجوان طالب علم من چلے سے لگتے ہیں۔ ا ن کو حالات پر اعتبارنہیں۔

جالب کو بھی کچھ ایسا ہی روگ لگا ہوا تھا۔ جالب کا زمانہ میڈیا کے حوالہ سے ایک قدامت پسند صحافت کا دور تھا مگراخباروں پر لوگوں کا اعتبار تھا۔ اب اخباروں کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینل بھی آچکے ہیں۔ ہماری سرکار کا کہنا ہے کہ یہ سب جمہوریت کا ثمر ہے اور کیا اچھا ثمر ہے جس سے عوام کی حیثیت مشکوک اور جمہوریت کا کردار محدود ہوتا نظرآرہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :