اپریل کاسبق

بدھ 5 اپریل 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

آج سے اڑتیس سال پہلے ‘4اپریل 1979ء کی صبح ‘پاکستان کے حکمران طبقے نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دیکر جس خونی کھیل کا آغاز کیا تھا‘ وہ اب تک جاری ہے، اگرچہ اسکی شکل،ہیئت اور اندازمسلسل بدلتا رہا ہے۔بھٹو کی پھانسی پر عظیم شاعر احمد فرازنے کہا تھا کہ” امید کے دیے کو بجھادیا گیاہے“۔ایسا کہنا کم از کم اس وقت کسی طور بھی مبالغہ آرائی نہیں تھا۔

اگرپاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ تین اقتدار ،قیادتوں کی غداریوں،عوام سے بے وفائی اور نظریاتی جرائم سے ذرا دور ہٹ کر‘ 2017ء کی بجائے 1979ء میں جاکر ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے عمل کو محسوس کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک فرد کی بجائے پاکستان کے 12کروڑ عوام کو سولی پر لٹکا دیا گیا ہو۔

(جاری ہے)

اپنی نظریاتی، سیاسی غلطیوں اور پارٹی کی بنیاد سے انحراف کے باوجود اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہی تھی جو مظلوموں ،محکوموں، غریبوں ، مزدوروں اور کسانوں کی امیدوں کا محور، خواہشات کی تکمیل کا سہارا اور پچھڑے ہوئے طبقات کی نجات کا استعارہ تھی۔

اسکی وجوہات ماضی قریب میں موجود تھیں۔ہندوستان کے خونی بٹوارے کے بعد اگلے بیس سال تک پاکستان کے عوام کوہر قسم کے حقوق سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ انکا شدید مالی استحصال کیا جارہا تھا۔1958ء تک خونخوار بیوروکریسی کاراج تھا،جس نے سامراجی اطاعت گزاری کے کے تحت سابق کالونیل نظام کو ہی چلانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ پھر فوجی نے اقتدار براہ راست سنبھال کر پہلے سے ہی سہمے ،دبکے اور خوفزدہ لوگوں کا جینا تک اجیرن کردیا۔

اس حکومت کے تحت ایک طرف امریکی سامراج کے مفادات کواولیت دی گئی تو دوسری طرف سرمایہ داری کو تمام تر ریاستی مراعات اور تحفظ فراہم کرکے محنت کش طبقے کی اجرتی غلامی اور گہری کردی گئی۔یہ دور پاکستانی اشرافیہ کیلئے سنہری مگر محنت کش طبقے، نوجوانوں،مظلوم قوموں اور استحصال زدہ طبقات کیلئے بدترین ثابت ہوا۔یوبی آمریت اپنے اقتداراور اختیارات کے نشے میں دھت اپنی حکمرانی کے دس سالوں کے جشن کو ”جشن خوشحالی“ قراردیکر بدمست ہوچکی تھی۔

اسی اثنا ء میں غریب اور امیر کے مابین فرق اتنا اجاگر ہوچکاتھاکہ ہر طرف مراعات یافتہ 22خاندانوں کی دولت کے چرچے تھے۔ پاکستان میں سرمایہ داری کے یہ نئے نئے دن تھے،نوخیز مزدوراپنی تازہ دم صفت کے ساتھ منڈی کی معیشت میں لٹ کر برباد ہونے کی طرف گامزن تھا۔پھرایک چھوٹے سے واقعہ پر سماج ایسے ہی پھٹ پڑا جیسے 17دسمبر2010ء کو تیونس‘بے روزگار گریجویٹ محمد بوالعزیزی پر بلدیہ اہلکاروں کے تشدد اور رہڑی لگانے کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں خود سوزی پر اچانک سماجی بغاوت ابل پڑی تھی۔

7نومبر1968ء کو پولی ٹیکنکل کالج پنڈی کے طالب علم عبدالحمید کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت بھی ایوبی آمریت کے خاتمے تک ایک ایسی عظیم الشان تحریک کی شکل میں ڈھل گئی،جو طلباء سے شروع ہوکر مزدوروں میں پھیلتی گئی۔اس تحریک کا مرکز ایک سال پہلے بننے والی نوخیزپاکستان پیپلز پارٹی تھی۔ 30نومبراوریکم دسمبر 1967ء کو بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی معاشی اورسماجی استحصال کے خاتمے کا پروگرام ، جو اسکے اپنے دستاویزات کے مطابق صرف سوشلزم کے نفاذ سے ہی ممکن تھا‘ لیکر معرض وجود میں آئی تھی۔

سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خاتمے اور ہرقسم کے پیداواری ذرائع کو قومی ملکیت میں لیکر تمام دولت کو عوامی دھارے میں پھیلانے،تعلیم ،صحت کی مفت فراہمی اور روزگار کو یقینی بنانے کے عزم کا تحریری اظہار کرنے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ایک وسیع عوامی حمائت حاصل کرنے کی وجوہات موجود تھیں۔7نومبر1968ء کی طلباء، مزدوروں اور کسانوں کی تحریک نے پیپلز پارٹی کو نہ صرف انقلابی تحریک کی قیادت سونپ دی بلکہ اس ملک کی قسمت کافیصلہ کرنے کا اختیاربھی دے دیا۔

اس تحریک کے پاس اگلے کچھ ہفتوں میں ایک مکمل انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت اور طاقت آچکی تھی، ملکیت کے پہلے سے موجود سرمایہ دارانہ رشتے ٹوٹ کر بکھرچکے تھے ،فیکٹریوں،جاگیروں پر قبضے ہورہے تھے۔یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا،ایک سوشلسٹ انقلاب کی راہ میں سوائے قیادت کے کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی۔پیپلز پارٹی کی قیادت فوری طور پر سوشلسٹ انقلاب کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھی، مرحلہ وار انقلاب کے سٹالنسٹ نظریات کی بازگشت نے قیادت کے تذبذب کو گہرا کرتے ہوئے اس تاریخی لمحات کے ثمرات سے محروم کردیا۔

عملی طور پر انقلاب کے موجود ہونے کے باوجود ”پرچی یا برچھی “ کے ایجنڈے پر ہالہ کنونشن میں سوشلسٹ انقلاب کی جگہ سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ کا فیصلہ کیا گیا۔موجود ‘انقلاب کو بتدریج سرمایہ دارانہ ردانقلاب کی طرف موڑتے ہوئے پارلیمانی انتخابات کو منزل قراردے دیا گیا۔قبضہ شدہ ریاست واگزار کرکے پھر استحصالی حکمران طبقے کے سپرد کردی گئی۔

سرمایہ داری نظام کے رکھوالوں نے اپنی اس غیر متوقع جیت پر بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیابلکہ کچھ سال انتظار کرکے بعدازانقلاب اثرات کو زائل کیا اورپھر انقلاب کا محور بننے والی پارٹی سے انتقام لینا شروع کردیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعدایک طرف تحریک کی ابھی تک محسوس کی جانے والی حدت کی وجہ سے تاریخی اصلاحات کئیں ،جس کی وجہ سے کسی حد تک سابق نوآبادیاتی تصورات اور اثرات کی شدت کم ہوئی مگر ساتھ ہی دشمن طبقات کو اپنے ساتھ ملانے کی شدید خواہش کے تحت تواتر کیساتھ ردانقلابی اور رجعتی اقدامات تک سے بھی گریز نہیں کیا۔

جس بنیاد پرستی اور مذہبی سوچ کو 67-68ء کی تحریک اور بعد ازاں 70ء کے الیکشن میں شکست فاش سے ہمکنارکیا تھا، اس کو خوش کرنے کیلئے اپنے ایجنڈے کی نفی کرتے ہوئے دقیانوسی سوچوں کو بھی پروان چڑھانا شروع کردیا۔نہ صرف شکست خوردہ ملائیت کو نئی زندگی خود بھٹو نے فراہم کی ،دشمن طبقات سے یکطرفہ محبت بڑھانے کیلئے خواہ مخواہ کی یکجہتی کو فروغ دیتے ہوئے ”آئین پاکستان“کوانقلابی اور عوامی کی بجائے
رجعتی نکات سے مزین کیا گیا۔

اپنے بنیادی پروگرام اورتاسیسی منشور سے انحراف کرتے ہوئے عوام اور محنت کش طبقے کے مفادات کی محافظ عوامی ملیشاقائم نہ کی گئی،سرمایہ داری پر
بھی گہری ضرب لگانے کی بجائے بس چھیڑ چھاڑ تک ہی محدود رہے۔ ٹوٹی پھوٹی،شکست خوردہ اور عزم وہمت سے محروم اسٹیبلشمنٹ کو نئی زندگی اورطاقت دیکر خود پر حملہ کرنے کیلئے تیارکیا گیا۔بھٹو نے ایسا کیوں کیا‘ جسکے نتیجے میں اسکو5جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور پھر اسی کے تسلسل میں بعد ازاں 4اپریل 1979ء کا خونی دن دیکھنا پڑا۔

بھٹو کے اپنے الفاظ میں اس نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو جوڑنے کیلئے ‘متضادات مفادات کے حامل طبقات کے درمیان جو ’آبرومندانہ مصالحت‘ کرانے کی کوشش کی تھی وہ ایک یوٹوپیائی خواب ثابت ہوئی، 5جولائی کی فوجی بغاوت کے بعد خود ذوالفقارعلی بھٹو اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ” متضادمفادات کے حامل طبقات کے مابین ایک جنگ ناگزیر ہے،جس کے نتیجے میں ایک طبقہ مکمل تباہ اور دوسرا فتح یاب ہوگا“ یقینی طور پر بھٹو محنت کش طبقے کی مکمل فتح یابی کے حوالے سے اپنی کتاب’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘ میں اپنے تجزیے کو سمیٹ رہے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے اپنے کئے گئے تجزے کے علاوہ کسی اور تناظر میں 1977ء کی فوجی بغاوت یا
پھر بھٹو کے قتل کو دیکھنے سے کبھی بھی درست نتائج پر نہیں پہنچا جاسکتا ۔ بدقسمتی سے بھٹو کے بعد کی پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے بھٹو کی ان نظریاتی غلطیوں اور اقدامات کواپنا نقش راہ بنایا جس کو وہ خود مسترد کرکے اپنی شدید غلطی قراردے چکے تھے۔

پاکستان کا حکمران طبقہ غلطی کرکے دائیں طرف موڑ کاٹ جانے والے سے نہیں بلکہ غلطی کا ادراک کرکے ایک ”طبقاتی جنگ “کو ناگزیر قراردینے والے بھٹو سے خوفزدہ تھا۔اب جب کہ اس نتیجہ پر تمام فریقین خود ہی پہنچ چکے ہیں کہ 4اپریل1979ء کی صبح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی موت کی سزا حکمران طبقے کے اپنے قانون اور قاعدے سے کھلا انحراف تھا،بھٹو کیس کی سماعت کرنیو الے بنچ کے رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اسکو ”جوڈیشل مرڈر “قراردیا تھا۔

یہ ایک انقلاب کو نامکمل چھوڑنے اور سوشلزم سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرف مراجعت کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ انقلابی بغاوت کی کامیابی میں حکمران طبقے کے نمائندگان کی اور ناکامی میں انقلابی جسارت کرنے والوں کی موت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ سماج کی نجات اور محنت کش طبقے کی فتح یابی کیلئے اگر مگر ،’مراحل،‘تساہل یا تذبذب کی کہیں گنجائش نہیں ہوتی۔

پیپلز پارٹی جس مقصد کیلئے بنی تھی وہ بالکل واضع اور غیرمبہم تھا” پاکستانی سماج کی طبقات سے پاک تشکیل جو آج کے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے“اس مقصد سے پارٹی قیادت جتنا گریز کرے گی اسکی ناکامی اتنی ہی بڑھتی جائیگی۔پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیئرپرسن ’آصف علی زرداری‘ امریکی سامراج کو اپنی حمائت اور اعانت کی کہانی کا آغازامریکہ کوپشاور کے نذدیک ”بڈبیڑ“ کے جاسوسی کے اڈے دینے سے کرتے ہیں۔

یہ پیپلز پارٹی کی انقلابی تاریخ کی تذلیل اور پارٹی کارکنوں کی سامراج مخالف قربانیوں کی تحقیر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے قتل سے طے ہوچکا ہے کہ حکمران طبقہ کسی مصالحت اور مفاہمت کے ”معافی نامے“ کو درخوراعتنا سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔4اپریل کاسبق ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا آغاز ذوالفقارعلی بھٹو کے اس تجزے سے کرے جس کے آخر میں انہوں نے پاکستان کی نجات کیلئے ایک طبقاتی جنگ کو ناگزیر قراردیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :