تقلید اور تنقید

ہفتہ 22 اپریل 2017

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

آج کا مکالمہ کافی حساس نوعیت کا تھا۔سامعین پورے انہماک سے گفتگو میں شریک تھے اور کرید کرید کر گفتگو کے مختلف پہلوں پر نہ صرف تنقید کر رہے تھے بلکہ مقررین کو کافی مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا۔ مقرین کا تعلق مختلف ادیان سے تھا اور وہ اپنے اپنے ادیان کے لیے کئی سالوں سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ کچھ سوالات بہت ہی حساس نوعیت کے تھے۔

لیکن میرے مطابق ایسے سوالات کرنے اور جواب دینے کے لیے بہت علم اور حوصلہ درکار تھا۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ لوگ اتنے گہرے سوالات سوچ کیسے لیتے ہیں۔کیا انکو خدا سے ڈر نہیں لگتا ۔ کیا انکو اس بات کا ادراک نہیں کہ ایسے سوالات کے متعلق سوچنا بھی کسی دیندار انسان کو نہ صرف راہ راست سے بھٹکا سکتا ہے بلکہ جنم کے دروازے تک بھی لے جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)


میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک طالب علم نے مقریرن سے ایک چبتا ہوا سوال کر ڈالا۔کیا کسی بھی دین کی راہنمائی میں بنے ہوئے قوانین کی اندہا دھن تقلید کرنی چاہیے یا اگر وہ قوانین معاشرے کو وہ فائدہ نہیں دے پارہے جس کے لیے وہ قوانین مرتب کیے گئے تھے تو کیا ایسی صورت میں ان قوانین پر تنقید کی جا سکتی ہے اور ان میں تبدیلی ممکن ہے۔


ایک مقرر نے پوری توجہ سے سوال سننے کے بعد جواب دیا۔مختلف ادیان میں علم کے ذرائع مختلف رہے ہیں۔ اگر ہم صرف الہامی ادیان کی بات کریں۔ تو بنیادی طور پران ادیان کی تعلیمات پر جو قوانین مرتب کیے جاتے ہیں انکے دو ماخذ ہوتے ہیں ۔ایک الہامی کتب اور دوسرا وہ علم جو کسی دین کے پیروکار مختلف ذرائع سے اکٹھا کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ انبیاہ کی کہی ہوئی باتیں اور دوسری ایسی روایات جو کہ انبیاہ کے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اختیار کیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے قوانین جو کہ معاشرے میں کسی بھی معصوم انسان کے فائدہ کی بجائے نقصان کا سبب بنیں اور معاشرے کے مخصوص افراد ان قوانین کو ہر حال میں درست قرار دیں تو پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین کو دوبارہ الہامی کتب اور علم کے دوسرے ذرائع اور موجودہ وقت کی ضروریات سے جانچا جائے ۔تا کہ اگرقوانین بناتے ہوئے کہیں کوئی پہلو نظر انداز ہو گیا تھا تو اسکو درست کیا جا سکے۔


وہ طالب علم دوبارہ بولا۔ لیکن سر اگرمعاشرے کا ایک مخصوص طبقہ ایسے قوانین پر بات کرنے اور انکو الہامی کتب اور دوسرے ذرائع علوم سے پرکھنے کی نہ تو خود ضرورت محسوس کرے اور نہ ہی دوسرے افراد کو اس کی اجازت دے۔ بلکہ تشدد پسندانہ طریقہ سے معاشرے کے باقی افرادکو بھی ان قوانین کو دوبارہ پرکھنے سے منع کرے۔ ایسی صورت میں معاشرے کے اتحاد امن اور ترقی کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

کیا یہ ا دیان اور انکے پیروکاروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ معاشرے کے ان افراد کو جن کو ایسے قوانین پر تحفظا ت ہوں اعتماد میں لیں۔ نہ کہ متشدد طریقوں سے انکی آواز کو دبانے کی کوشش کریں۔
دوسرے مقرر بولے۔ اس بات میں دو اہم پہلو ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر تو قوانین الہامی کتب میں بالکل شفاف طریقہ سے بتا دئیے گئے ہیں تو پھران میں ترامیم کی کوئی گنجائش نہیں۔

لیکن اگر الہامی کتب میں ایسے قوانین کا کوئی ذکر ہی نہیں تو پھر ایسے قوانین کے ماخذ افراد ہیں۔ اور افراد کے بنائے ہوئے قوانین ایک ہی وقت میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے مختلف معاشروں میں مختلف انداذ میں سمجھے جاتے ہیں اور نافذ کیے جاتے ہیں۔
جیسا کہ جرمنی میں عیسائیوں کا ایک گروہ جو کہ کیتھولک فرقہ سے منسلک ہے ان میں بالغ افراد ایک وقت میں ایک ہی شادی کر سکتے ہیں مگر طلاق کی صورت میں وہ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں لیکن پولینڈ میں اسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ پوری ذندگی میں صرف ایک شادی کر سکتا ہے اور طلاق کی شکل میں خاوند اور بیوی الگ تو ہو جائیں گے مگر وہ دوبارہ نہ تو شادی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک گھر کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔

اسی طرح آج بھی ہندوستان کے کچھ علاقوں میں بیوی کو مردہ خاوند کے ساتھ ذندہ جالا دینا دین کے عین مطابق ہے مگر انڈیا کا قانوں سختی سے اس کی ممانعت کرتا ہے اور بہت سے ہندوں اس عمل کو دین کے منافی گرادنتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اسلامی معاشروں میں ایک سے ذیادہ شادیاں یا پھر چھوٹی بچیوں کی شادیاں انتہائی مقبول ہیں مگریہ ہی فعل دوسرے اسلامی معاشروں میں یا تو قانونا جرم ہیں یا پھر ناپسندیدہ ہیں۔

آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ ایک ہی مذہب کے پیروکار کی عبادات کے اوقات اور انداذ میں بہی فرق نظر آتا ہے ۔ عقائید اور عملی اقدامات میں یہ فرق اس بات کی دلیل ہے کہ جب لوگ الہامی کتب کو چھوڑ کر انسانوں کے اخذ کیے ہوئے علم پر ذیادہ توجہ دیں گے اور انکی اندھا دھن تقلید کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے ذدرائع علم کا انکار کریں گے تو معاشرے دینی علم کی بنیاد پر کئی کنبوں میں تقیسم ہو جاتے ہیں۔

ایسی صورت میں پھر ایسے قوانین جنم لیتے ہیں جو کہ صرف معاشرے کے ان افراد کے نظریات اور عقائید کا تحفظ کرتے ہیں جو پولیٹیکل پراسسز میں کسی وقت طاقت ور ہو جاتے ہیں اور ایسے قوانین کو متعارف کروا دیتے ہیں جو معاشرے کے دوسرے افراد کے لیے یا تو قابل قبول نہیں ہوتے یا پھر انکو ان قوانین پر خدشات ہوتے ہیں۔ صورتحال اور پیچیدہ ہو جاتی ہے اگر اختلاف کرنے والے ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور وہ ان قوانین کی بنیاد پر مرنے مارنے پر اتر آئیں۔

میرے علم کے مطابق ایسے بہت سے قوانین کی ماخذ الہامی کتب تو نہیں ہوتیں مگر انسانی عقل کلچر رسومات اور کسی مخصوص وقت سے منسلک مخصوص مقاصد انکا موجب بنتے ہیں۔
وہ طالب علم بولا۔تو سر ایک عام آدمی پھر کیسے اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ کونسا قانون کسی بھی دین کی سہی عکاسی کرتا ہے ۔ کیونکہ الہامی کتب کے علاوہ تو ایک ہی عنوان پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں اور کئی قابل ذکر علماء اور دانشور کئی دینی مسائل پراختلافی نوٹ لکھتے ہیں۔

ہم کس کی تصانیف کو درست خیال کریں۔ اور اگر ہم کسی ایک عالم یا دانشور یا ٹیچر کو رہنما تسلیم کر لیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہم کسی ایسے قانون کی ذد میں نہیں آئیں گے جو کہ ان رہنماؤں کی بتائی ہوئی باتوں سے مختلف ہوں جبکہ ہم ان پر تنقید کے مرتک ہوں۔
تیسرے مقرر بولے۔ دیکھیں کسی بھی تعلیمی یا قانونی پہلو پرتنقید کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر اختیاط صرف اس بات کی ہونی چاہیے کہ اس میں تذلیل کا پہلو شامل نہ ہو۔

اور اگر کوئی معاشرہ کسی انسان کو اس بنیادی حق سے محروم کرتا ہے تو وہ اپنی جڑیں خود ہی کھوکھلی کرتا ہے۔ اب رہا دوسرا پہلو کہ ایسے قوانین جوکہ کسی بے گناہ کو تکلیف دنیے کا موجب بنیں اور معاشرے سے انصاف کو ناپید کر دیں تو یہ معاشرے کے سب افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے ان قوانین کو الہمامی علم کے ذرائع سے خود پرکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ قوانین درست ہوں مگر انکا نفاذ معاشرے میں غلط طریقہ سے ہو رہا ہو۔

لیکن اگرا لہامی علم کے ذرائع ان قوانین کی تصدیق نہ کریں اور صرف انسانی علم کی بنیاد پر ایسے قوانین نافذالعمل ہوں تو پھر یہ معاشرے کے افراد کی ذمہ اداری ہے کہ وہ ان پر بات کریں اور اگر انمیں ترامیم کی گنجائیش ہو تو انسانی فلاح وبہبود اور امن کی خاطر وہ اپنے تعصب سے ماورا ہو کر ایسے قوانین میں تبدیلی کی راہ ہموار کریں۔ ورنہ انسانی معاشرہ جنگل کے قانون کا منظر پیش کرے گا اور ایک مخصوص طبقہ ایسے قوانین کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔


آج کے ترقی یافتہ دور میں مغربی اقوام نے مذہب اور حکومت کو الگ کر دیا ہے جسکی وجہ سے وہاں قوانین کا اجراء اور تبدیلی مذہب کی مرحون منت نہیں۔ مگر بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ابھی بھی قوانین کا اجرا اور نفاذ مذہبی فکر سے جدا نہیں ہو سکا۔ اب چونکہ ایک ہی مذہب کے پیروکار مختلف مسائل پر اختلافات کا شکار ہیں اس لیے یہ معاشرے ایسی بہت سی قانونی پیچیدگیوں کا شکا ر ہیں جو ان معاشروں کی ترقی اور امن میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :