20سال اور عمران خان

بدھ 26 اپریل 2017

Hussain Jan

حُسین جان

میرے خیال میں پاکستان میں پہلا مارش لاء سکندر مرزا نے لگایا تھا۔ یہ غالبا 1958کی بات ہے۔ سکند مرزا نے خان لیاقت علی خان کے بنائے ہوئے دستور کو پاؤں تلے روند ڈالا یہ وہی دستور تھا جس میں قرارداد مقاصد شامل تھی۔ قائد کے پاکستان پر یہ پہلی قدغن تھی۔ افسوس کی بات کسی نے اس پر آواز نہیں اُٹھائی۔ وہ سیاستدان جو ہر وقت عوامی مفاد کا رونا روتے رہتے تھے۔

اپنے اپنے مفاد کے لیے مرزا صاحب سے جا ملے۔ عوام نے کوئی ردعمل نہیں دیا دبے دبے الفاظ میں اس عمل کی مذمت کی گئی مگر عملی طور پر کوئی مذاہمت دیکھنے میں نہ آئی ۔ سکندر مرزا نے اپنی مرضی کے فیصلے عوام پر مسلط کیے جسے سب نے قبول کر لیا۔
پھر 27اکتوبر کو ایوب خان صاحب نے سکند ر مرزا کو منصب سے گرا کر کُرسی خود سمبھال لی۔

(جاری ہے)

ہمیں آج بتایا جاتا ہے کہ ایوب خان کا دور سب سے بہتر دور تھا۔

مگر اس میں بھی بہت سے فیصلے عوامی امنگوں کے خلاف کیے گے۔ اسی دور میں شائد پاکستان کے پانیوں پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔ جیتی ہوئی بازی کو تاشقند کے میز پر ہارا گیا۔ کیا عوامی ردعمل آیابالکل نہیں سب افیون پی کر سوئے رہے ۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ حاکم وقت کے آگے حق کی آواز بلند کرتا۔ پھر ایوب خان صاحب صدر بن بیٹھے اور بہت سے مفاد پرستوں کو ساتھ ملا کر ملکی "مفاد"میں فیصلے کرنے لگے۔

بھٹو صاحب انہی دنوں کی پیداوار ہیں۔ بعد میں دونوں کی جقلس نے ملک کو دو لخت کر دیا۔
اُس کے بعد باری آتی ہے یحیٰ خان کی کتابوں میں اُن کی مہ نوشی کی داستانیں اور جرنیل رانی کی داستانیں بھی کسی افسانوی کردار سے کم نہیں لگتیں۔ ایوب خان نے کروڑوں لوگوں کی قسمت یحیٰ خان کے ہاتھ میں تھما دی اور کوئی پوچھنے والا نا تھا۔ مشرقی پاکستان میں شورش کو ہوا دی گئی ۔

انڈیا کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ ہمارے ملک میں دراندازی کرئے۔مغربی پاکستان کے عوام کو مشرقی پاکستان کے بارئے میں غلط بتایا جاتا رہا۔ لیکن اس کا نتیجہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو گیا اور صاحب اقتداران کو قومی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کر دیا گیا۔ عوامی رد عمل زیرو۔
پھر دور شروع ہوتا ہے زولفقار علی بھٹو صاحب کا۔

جنہوں نے شروع شروع میں کچھ بہتر فیصلے کیے مگر بعد میں خود بھی جمہوری ڈکٹیٹر بن بیٹھے ۔ کسی کی کیا مجال جو ان کے سامنے کچھ کہتا ۔ انہوں نے تو اپنی نجی فوج تک بنائی ہوئی تھی جو سیاسی مخالفین کو سبق سیکھاتی۔ بھٹو صاحب نے ایک کام اچھا کیا کہ اتفاق رائے سے اس ملک میں آئین نافذ کر دیا۔ جس کو بار بار سب نے پامال کیا۔ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کو علماء نے مذہبی رنگ دے کر ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔

بھٹو صاحب کے خلاف جن لوگوں نے احتجاجی تحریک چلائی اُن کے سیاسی مفادات تھے عوامی مفادات کو اُنہوں نے بھی پس پست ڈال دیا تھا۔
ضیاء الحق پر آتے ہیں جنہوں نے اس ملک میں سب سے طویل حکومت کی۔ لاہور کے قلع کو انہوں نے سیاسی ورکروں کی قبروں میں تبدیل کر دیا۔ ملک میں اسلامی انقلاب کے نام پر لوگوں پر بہت سے مظالم کیے گئے۔ پھر افغان جنگ میں بھی کسی سے پوچھے بغیر کود پڑئے۔

طالبان کو پاکستان میں ٹرینگ دی جاتی رہی ۔ بڑئے بڑئے مجاہدین کسی روک ٹوک کے بغیر پاکستان میں آتے جاتے تھے۔ کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ڈالروں کی بوریوں کے عوث پاکستان کو بیچاگیا۔ عوامی ردعمل کیا تھا؟ یہ تو ضیاء صاحب کی عمر کم تھی ورنہ ابھی اور 20 25سال اقتدار سے لگے رہتے۔
اُس کے بعد بے نظیر کا دور شروع ہوتا ہے زرداری صاحب مل کے غیر سرکاری نائب وزیر آعظم بن کر بہت سا مال بناتے ہیں۔

مسٹر ٹین پرسنٹ سے شروع ہونے والا کھیل عربوں روپے پر جاتا ہے جو آج تک ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔ صدر پاکستان نے بینظیر کی حکومت کو گھر بھیج دیا اور یہ فیصلہ کوئی عوامی مفاد میں نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کے کیے کیا گیا۔
پھر نواز شریف صاحب آگئے پھر بے نظرے صاحبہ آگئی پھر نواز کی باری۔ پھر مشرف صاحب نے من مانیاں کیں گھوم پھر کر بات پھر زرداری صاحب تک پہنچی اور وہاں سے اب پھر نواز شریف تک پہنچ چکی ہے۔

اس سارے عمل میں اگر کسی کا نقصان ہو ا تو وہ پاکستان کے عوام تھے۔
اور پھر ظہور ہوا ایک روشن ستارئے کا جس نے عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کی کوششیں کیں۔ حکومتوں کے ہر غلط عمل پر عوام کو سڑکوں پر لایا۔ عوام کو بتایا کہ اُن کے حقوق کیا کیا ہے۔ عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ عوام کو بتایا کہ کیسے تمہارے وسائل پر چند خاندان بیٹھے عیاشی کر رہے ہیں۔

صاحب اقتدار کے ساتھ جنگ کرنے کا سلیقہ دیا ۔ حکمرانوں کی عوامی پیسے پر موجوں کا زکر گلی کوچوں میں ہونا شروع ہو گیا۔ کرپشن کے بڑئے بڑئے سکینڈل پر عام عوام کو گھروں سے نکالا۔ ظلم و جبر کے بازار کے خلاف آواز بلند کی۔ میں وثوق سے کہتا ہوں اگر عمران خان نہ ہوتا تو آج پاناماہ بقول خواجہ آصف واقعی قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔ ملک میں ترقی صرف اشتہارات تک ہی نظر آتی ہے ۔

ایسے میں اس ملک کے پاس عمران خان جیسے لیڈر کا ہونا باعث رحمت ہے۔ مخالفوں نے عمران خان کی کردار کشی کرنے کی بہت سی تحریکیں چلائیں۔ نجی زندگی کو پبلک کیا گا۔ بچوں کو لے کر اُسے بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مگر خان چٹان بن کر کھڑا رہا ۔ وہ آج بھی عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ساری سیاسی جماعتیں ایک طرف اور خان ایک طرف اور یہی لیڈر کی پہنچان ہوتی ہے۔

اب تو سپریم کورٹ نے بھی خان کو Extra Ordinary انسان قرار دے دیا ہے۔
اب کوئی حکومت مرضی کے فیصلے نہیں کر پائے گی ۔عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکے گا۔ کیونکہ اب عوام کے حقوق کے لیے لڑنے والا ایک عوامی لیڈر موجود ہے۔ جس کی ایک آواز پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔ احتجاج کے زریعے حق لینے کا ہنر عمران نے اس قوم کو بتا دیا ہے۔ اگر اب بھی یہ قوم اپنی روش پر قائم رہی تو ملکی حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ عوامی مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ قوم کو چاہیے کہ عمران خان کا ساتھ دیں اور بہتر پاکستان کی بیناد رکھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :