یوم مئی : چلتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل پر ہی ڈالے جائیں گے

اتوار 30 اپریل 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

صدیوں سے جاری محنت کا ایک منظر جدید دنیا کا ہے،جس میں نہ صرف اجتماعی زندگی کی ہیئت میں بدلاؤ آیا بلکہ اس محنت کے نتیجے میں انسان‘ وحشت سے تمدن کی طرف سفرکرپایا۔قدیم زندگی غاروں اور جنگلوں سے نکل کرجدید انسانی بستیوں ،شہروں اور میٹروپولیٹن آبادیوں میں بدل گئیں۔محنت کے فیصلہ کن عامل نے آلات پیداوار کی جدت کوممکن بنا کر قدرتی وسائل کی خام شکل کوحیران کن حد تک مفید اور قابل استعمال بنادیا۔

زراعت،صنعت وحرفت ،ایجادات،سائنس ،ٹیکنالوجی ،علوم اور بود وباش کی موجودہ شکل کروڑوں سالوں کی انسانی محنت کا حاصل ہے۔ پچھلے اربوں سالوں سے موجود قدرتی وسائل ‘اپنی خام شکل میں ہی رہتے اگر انسانی محنت کے اطلاق سے انکی ہیت،کیفیت،شکل استعما ل اور افادیت کو تبدیل نہ کیا جاتا۔

(جاری ہے)

تاریخ میں جہاں ہمیں انسانی محنت کے انقلا ب آفرین ثمرات واضع طور پر دکھائی دیتے ہیں وہاں ہمیں صاف طور پر پتا چلتا ہے کہ خود ’محنت‘اپنی تخلیقات ،پیداوار اور ثمرات سے ہی محروم چلی آرہی ہے۔

بلکہ انسانی تاریخ یہ المناک منظر دکھاتی ہے کہ’ انسان اورسماج‘ کی مسلسل ترقی کے دوران ’محنت‘پسماندگی،قلت اور محرومیوں کا شکار چلی آرہی ہے۔یہ ایک بھیانک تضاد بین بین چل رہا تھا،جس کی توجیح اوروضاحت ہمیشہ انسانی سماج کا وہ حصہ(اور انکے تنخواہ دار ترجمان) کرتے چلے آرہے تھے، جو براہ راست محنت کے عمل میں نہ ہونے کے باوجود پیداور،دولت ،وسائل اور بہترمعیار زندگی سے مسلسل فیض یاب ہورہا تھا۔

قدرتی وسائل اور انسانی محنت کے امتزاج سے حاصل وسائل سے فیض یاب ہونے والا طبقہ ،پیداوار کے خالق( مگر اپنی ہی حاصل محنت)سے محروم رہ جانے والے طبقے کی اس”حالت“ کو ’قدرت‘،قسمت،نااہلیت اورناخواندگی وغیرہ کی بدولت ،جبکہ خود براہ راست محنت کے عمل سے باہر ہوتے ہوئے بھی ’پیداوار اور دولت کو اپنی ’ذہانت‘ اور خوش قسمتی کا شاخسانہ قراردیتا آرہا تھا۔

پہلی بار ’کارل مارکس ‘ نے متذکرہ بالا دونوں طبقات کی سائنسی جانچ پڑتال کرتے ہوئے پورے پیداواری عمل وضاحت کی۔پیداواری عمل میں ’محنت کے فیصلہ کن کردار‘ کی تشریح کرتے ہوئے ’محنت‘،’قدر‘ اور’قدرزائد‘کی تعریفوں کو جامع انداز میں وضع کیا۔’اجرت‘ اور’ منافع ‘کی تشریح کی اور بطور خاص ’اوقات کار‘کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ’کارل مارکس ‘نے ثابت کیا کہ کس طرح سرمایہ دار،مالک یا منتظم‘ مزدور کی پورے دن کی اجرت کو اس کے کام کرنے کے دن کے پہلے ’گھنٹوں‘ میں ہی پورا کرلیتا ہے اور ان 2/3گھنٹوں کے بعد ’مزدور‘ باقی دن بلا محنت کام کرتا اور سرمایہ دار کیلئے ’قدرزائد‘ پیدا کرتا ہے ،یہ حقیقی طور پر اسکا ایسا منافع ہوتا ہے جو مزدور کی’غیر ادا شدہ‘ محنت کا ثمر ہوتا ہے۔

کارل مارکس کی اس تخلیق سے کئی دھائیاں قبل صنعت کاری کے میدان میں نوآمیز سرمایہ دار کو زرعی غلامی سے سرمایہ داری کی طرف مراجعت کرنے والا ایسا مزدور میسر آچکا تھا،جو نسل در نسل سے ‘بدلتے ہوئے نظاموں میں لٹتے ،برباد ہوتے چلے آرہے تھے۔ دور غلامی میں پاؤں سے بندھی زنجیریں کھل کر اسکے پورے جسم ،سوچ،روح ،جذبوں اوررشتوں تک کو اپنی گرفت میں لے چکی تھیں۔

جاگیرداری کے خلاف جنگ میں زرعی مزدوروں کو جس ”انقلاب“ اور تبدیلی کا خواب دکھاکر اس جنگ میں جھونکا گیا تھا،اسکی تعبیر ’استحصال‘ کرنے والے طبقے کی تبدیلی تک ہی محدود رہی تھی ۔صنعتی غلامی میں مزدوروں کو زرعی غلاموں کی طرح بیس بیس گھنٹے کام کرنا پڑتا۔ایک ہی جگہ پر محنت کشوں کی بڑی تعداد کے کام کرنے سے انکی باہمی جڑت ناگزیر ہوچکی تھی،اسمیں ایک جیسا کام،ایک جیسے مسائل اور ایک جیسا استحصال ان کو جوڑنے کے عاملین کے طور پر موجود تھے۔

یہیں سے مزدورانجمنوں کی بنیاد کا سامان مہیا ہوا۔ ٹریڈ یونین کی ابتدائی سالوں میں مزدوروں کے اوقات کار کا دورانیہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے تک آچکا تھا۔محنت کش‘ صنعتی اجتماعیت کی وجہ سے بہت سے بنیادی نتائج پر مشترکہ طور پرپہنچ چکے تھے۔مزدورہر روز اپنی محنت کا استحصال ہوتا دیکھ کر اپنی غربت اور افلاس کی وجوہات کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔

وہ غریب اورامیر کے فرق،محنت کا پیداور میں کردار اور محنت کے بدل میں دی جانے والی اجرت اور غیر ادا شدہ اجرت یعنی ’قدر زائد‘ کے فلسفے کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔ ’طبقاتی کشمکش ‘نے اس تحریک کو جنم دیا جس کا مقصداوقات کار کا دورانیہ کم کرکے ’آٹھ گھنٹے کا دن‘ کرانا تھا۔پہلے پہل یہ تحریک ’قدرزائد ‘اوراجرت میں لوٹ مار‘ کی اس سائنسی وضاحت سے خالی تھی ،جو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے مہیا کی۔

مگر ان دونوں راہنماؤں نے ماضی کی تحریکوں سے آگے بڑھ کر تاریخی مادیت اورجدلیاتی مادیت کی مددسے محنت کش طبقے کو وہ دلائل مہیا کئے جو ماضی سے اب تک استحصال کرنے والے طبقے کے تمام ظلم وجبر،حاکمیت،استحصال اور ناقابل شکست ہونے کے تاثر کوزائل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کام کے اوقات کار میں کمی کی تحریک، جس کا ایک مرحلہ مئی 1886ء کی تحریک میں طے ہوا،مزدورتحریک کا ایک اہم سنگ میل ہے۔

مگرموجودہ عہد میں جب ’پیداواری ذرائع ‘اتنی پیداواری صلاحیت حاصل کرچکے ہیں کہ مزدورکے کام کے بعد‘ اسکو اپنے انسان ہونے کا احساس دلانے کا’ وقت‘ مہیا کیا جاسکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ایک طرف کام کے اوقات کار کو 1886ء کی تحریک سے آگے بڑھا کر ’چھ گھنٹے کام کا دن‘ پر لانے کی ضرورت ہے دوسری طرف اجرتوں کو ’قدرمحنت‘ کے قریب لانے کی ضرورت ہے۔

مگر یہاں بالکل الٹ ہے ،پاکستان میں دیکھیں تومزدوروں سے نہ صرف اکسویں صدی میں پھر بارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہے بلکہ اسکی اجرت کام کی قدر کی مناسبت سے مزید سکڑ گئی ہے۔پاکستان میں ٹریڈ یونین کا موجودہ مطالبہ ’مزدورکی تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابرکی جائے‘ نہ تو غیر حقیقی ہے اور نہ ہی خیالی اور یوٹوپیائی ۔اگر ماضی میں جائیں توجنوری 2003ء میں سونے کی قیمت فی دس گرام 6030روپے تھی اور سرکاری شعبے میں کم ازکم اجرت 6650روپے ماہانہ اور فارمل سیکٹر میں5596روپے ماہانہ تھی ۔

اب 2017ء میں کم ازکم تنخواہ سرکاری طور پر 14000روپے طے گئی ہے جبکہ دس گرام سونے کی قیمت 44000روپے ہے۔گویا اجرت تین گنا کم ہوچکی ہے ۔دوسری طرف’ آٹھ گھنٹے کا دن‘ اب معروف انڈسٹریز میں ’9گھنٹے کا دن‘ اور نجی شعبے کے 90فی صدحصے میں ’12گھنٹے یا زیادہ دورانیہ کا دن‘ ہوچکا ہے۔ اگر ہم اوقات کار کے بڑھنے کے ساتھ،مشینوں کی پیداواری استعداد کار کو دیکھیں تو2004ء کے اجرت کے پیمانوں کے اعتبار سے آج مزدور کی کم ازکم اجرت 66000روپے ماہانہ بنتی ہے۔

مگر حقیقی صورتحال کہیں سنگین ہے۔حکومت کی طرف سے اجرت کا غیر حقیقی تعین اگرچہ 14000روپے ماہانہ ہے، مگراس شرح سے اجرت کی ادائیگی گنتی کے چند اداروں میں کی جاتی ہے جبکہ پھر 90فی صد سے زیادہ ادارے،کارخانے ”طے شدہ اجرت“ کا نصف ادا کرتے ہیں۔اس ضمن میں سرمایہ داری نظام کا طے شدہ حربہ یعنی محنت کی منڈی میں ایک خاطرخواہ تعداد بے روزگاروں کی رکھ کر ’نام نہاد روزگار‘ پر موجود مزدور کا شدید استحصال کیا جائے ،اگر وہ چوں چرا کرے تو اسکو فارغ کردیا جائے۔

اس ظلم واستحصال کے کاروبار میں ریاستی قوانین،لیبر ایکٹ،مزدوروں سے متعلق عدالتیں اور نچلی سطح کے ادارے مزدورکی بجائے سرمایہ داروں کی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں۔فیکٹریوں میں مستقل ملازمت کی نسبت دس سے تیس فی صد تک رکھی جاتی ہے باقی مزدوروں کو کم ترین اجرت اور ’قانونی‘مراعات سے محروم رکھنے کیلئے نام نہاد ٹھیکے داری نظام قائم کیا گیا ہوا ہے،جس میں کمیشن کے عوض مزدوروں کو تھرڈ پارٹی سے لیا جاتا ہے ۔

اس طرح فیکٹری یا ادارہ ‘مزدور کے جملہ معاملات سے لاتعلق رہتا ہے البتہ زیادہ سے زیادہ کام کرانے،سزاؤں اور تعزیروں کے معاملات میں کسی طور تساہل برتا جاتا ہے نہ ہی تب تھرڈ پارٹی آڑے آتی ہے۔ 1886ء سے 131سال گزرنے کے بعد دنیا بھر میں بالخصوص پاکستان میں مزدورتحریک کو زیادہ کڑے حالات کا سامنا ہے۔اگرچہ یوم مئی کا دن ’اوقات کار‘ کم کرانے والی تحریک میں شہید ہونے والے اور قربانیاں دینے والے مزدورساتھیوں کی یاد کا دن ہے، مگر اس دن کو اسی حد تک محدود کردینا ’شکاگو کے شہیدوں‘ کی قربانیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔

بنیادی طور پر نہ صرف ’یوم مئی کی تحریک‘کے اگلے مراحل طے ہونا باقی ہیں ،جن کو طے کرکے محنت کش طبقہ ’کام کے اوقات کار‘کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے، بلکہ موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔صرف دن منانا ،ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔نج کاری اورنام نہاد پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ،دیہاڑی داری نظام،چھانٹیاں،کالے قوانین اور سرمایہ دارانہ جبر کے خلاف جدوجہد اور درست نظریاتی سمت کا تعین کرنے کیلئے مزدورقیادت کو اپنی کوتاہیوں ،غلطیوں اور غیر نظریاتی انداز فکر کا جائیزہ لینا ہوگا تاکہ آگے بڑھنے کیلئے درست لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :