صائمہ کا سوال

جمعہ 12 مئی 2017

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

کتاب کا نام ہے صائمہ ۔ اس کتاب میں صائمہ کے علاوہ جن کرداروں کا ذکر ہے وہ کتاب کی حدتک تو تمثیلی ہیں مگر اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو یہ سب کسی نہ کسی نام کی آڑ میں ہرمقام پر کھڑے نظر آتے ہیں ۔ انٹر نیٹ اور موبائل فون نے جہاں مواصلاتی فاصلے کم کیے وہیں اخلاقی حدودکا بھی خاتمہ کر دیا ہے ۔چار سو روپے دیہاڑ ی کمانے والا مزدور صبح سویرے پلاسٹک کی چپل ، بوسیدہ کپڑے اور پرانی چادر کا ٹکڑا اوڑھے سرد ہواؤں کے تھپیڑے کھاتا مزدوری کے لیے نکلتا ہے تووہ کسی نہ کسی سے موبائل فون پر سر گوشیاں کرتا مسکراتا نظر آتا ہے میں نے ایک ایسے ہی مزدور سے پوچھا کہ اندھیرے منہ تم کس سے بات کر رہے ہو۔

پہلے تو وہ ڈر گیا اور فوراً بولا کہ کیا آپ پولیس والے ہو ۔ میں نے کہا ہاں پولیس والا ہی سمجھو ۔

(جاری ہے)

کہنے لگا سر معاف کر دیں آئیندہ بات نہیں کروں گا۔ اتفاقاً وہ جس طرف جا رہاتھا میں بھی اُسی سمت واک پر نکلا تھا میں نے اسے اپنے ساتھ لے لیا تو دوران گفتگو پتہ چلا کہ بھکر کے رہائشی اس غریب مزدور کی ایک نہیں بلکہ چار لڑکیوں کیساتھ ٹیلیفونک دوستی ہے ۔

جس لڑکی کے ساتھ وہ صبح کے اجالے سے پہلے گفتگو کر رہا تھا وہ کسی مدرسے کی طالبہ ہے اور صبح جلد جاگتی ہے۔
باقی تین اس لڑکی کی سہیلیاں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر اپنے دوست سے باتیں کرتی ہیں ۔ میں نے پوچھا کبھی ملاقات ہوئی تو میرے سوال پروہ خاموش رہا۔ میں نے پوچھا تم اتنی لمبی گفتگو پر پیسہ خرچ کرتے ہو تو تمہارا نقصان نہیں ہوتا ۔ کہنے لگا بیبیاں خود فون کرتی ہیں انہوں نے پیکج لے رکھا ہے۔


کوئی بیس منٹ کی مسافت کے بعد ایک زیر تعمیر مکان کے قریب پہنچے تو خستہ حال مزدور نے کہا سر میں یہاں کام کرتا ہوں اور صبح سویرے آکر مکان کی ترائی کرتا ہوں اس کے صلے میں ٹھیکیدار مجھے ایک نان اور چائے کا کپ دیتا ہے جس سے میر ے ناشتے کے پچاس روپے بچ جاتے ہیں۔ میں نے مزدور سے آخری سوال پوچھا کہ کیا ان لڑکیوں سے فضول باتیں کرنے پر اسے کوئی ندامت نہیں ہوتی ۔

کہنے لگا سرجی مجھے ندامت کا تو پتہ نہیں مگر پردیس میں وقت اچھا گزر جاتا ہے گپ شپ رہتی ہے تو دل خوش ہوتا ہے۔
ذراغور کیجئے : اگرسستے موبائل پیکچ نے بھکر سے اسلام آباد مزدوری کے لیے آنیوالے انتہائی غریب اور مفلوک الحال مزدور کو پردیس کاٹنے اور گپ شپ سے خو ش رہنے کے لیے مدرسے کی چار طالبات کی رفاقت میسر کر دی ہے تو امیر گھرانوں کا کیا حال ہوگا ۔

میں نے کچھ دوستوں سے بات کی تو کہنے لگے کہ تمہاری سوچ محدود ہے اور صائمہ کے خیالات بھی دقیانوسی اور سولات فرسودہ ہیں۔ ہم جدید دور کے انسان ہیں اور ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے بھر پور لطف اندوز ہونے کا حق ہے ۔ سیاسی کاروبار سے منسلک ایک خاتون جو سوشل ورکر بھی ہے نے کہا کہ ٹینشن کے اس ماحول میں اگر کسی کو خوشی نصیب ہو جاتی ہے تو اس پر جلنے کی کیا ضرورت ہے۔

باتیں کرنے سے انسان کے خیالات منشتر نہیں ہوتے اور وہ یکسوئی سے اپنے کام پر دھیان دیتا ہے ۔ٹیلی فون یا انٹر نیٹ پر تبادلہ خیال کرنے والوں کا ذہن کھلتا ہے اور سو چ کا نیاء مادہ پید اہوتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ بوائے فرینڈ یا گرل گرینڈ کے جو معنی صائمہ نے اخذ کیے ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے۔ صائمہ جس آئیڈل اسلامی معاشرے ، ماحول اور ریاست کی بات کر رہی ہے وہ قصہ ماضی ہے ۔

جدید معاشرے کا انسان جدید تراور جدید ترین لائف سٹائل کا خواہاں ہے ۔ کسی اینکر نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا تھا کہ آپ کی کلائی پر بندھی گھری کی قیمت کیا ہے تو وہ خاموش رہے مجھے ایسے اینکر نفسیاتی مریض لگتے ہیں۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ عمدہ سے عمدہ چیز کا چناؤ کرے اور اپنی مالی استعداد کے مطابق اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرے ۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی کتاب (میری تنہا پرواز ) میں لکھا کہ سابق مرحومہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی موجود گی میں میرے اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مکالمہ ہوا تو مولانا نے فرمایا کہ آخرکا ر میں ایک مرد ہوں۔


مرحومہ کلثوم سیف اللہ ہوں یا صائمہ انہیں کسی کی مردانہ وجاہت پر بات کرنے کا حق نہیں ۔مولوی اگر سیاست کر سکتا ہے تو اسے سنورانے اورنکھرنے کا بھی پورا حق ہے۔
صائمہ کے متعلق جن جن سے بات ہوئی ہر ایک کا اپنا الگ خیال ہے۔ کاروبار سیاست سے تعلق رکھنے والوں ، سوشل ورکروں ، این جی اوز سے منسلک جدید نظریات کے حامل لوگوں اورنودولیتے امیر زادوں اور امیر زادیوں کے سوا پڑھے لکھے عام لوگوں نے صائمہ کے خیالات اور نظریات سے سوفیصد اتفاق کیا ہے۔


عام لوگوں کا خیال ہے کہ میثا ق جمہوریت سیاستدانوں ، تاجروں ، صنعت کاروں اور مفاد پرست حکمرانوں کا بائیس کروڑ پاکستانیوں کی عزت ، آزادی ، اجتماعی مفاد اور ملکی دفاع کے خلاف اتحاد ہے۔ جسے مصنوعی سیاسی اور جمہوری رنگ دیکر جمہوریت کی آڑ میں عوام پر بد ترین آمریت مسلط کر دی گئی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کا ایمرجنسی کے نفاذ اور فوجی حکومت کے قیام سے بھی بڑا جرم این ۔

آر۔ او کی آڑ میں مالی ، اخلاقی ، روحانی ، سیاسی اور نفسیاتی لحاظ سے کرپٹ قومی مجرموں کو معاف کرنا اور قوم پر مسلط کرنا ہے۔ جنر ل پرویز مشرف کا ٹیک اوور ایک خود سر ، گھمنڈی اور معتکبر سیاسی ٹوے کی سازش کا نتیجہ تھا جبکہ ایمرجنسی جنرل پرویز مشرف اور افتخار چوہدری کے درمیان ایگزیکٹو اور جوڈیشنل اتھارٹی اور قوت کا مقابلہ اور مظاہرہ تھا ۔

پہلے مرحلے میں جنرل کامیاب رہا مگر اس کے دوستوں نے جوڈیشنل اتھارٹی کی طرف جھکاؤ کیا تو جنرل اپنی اخلاقی قوت کا مظاہرہ نہ کر سکا اور آخر کار خود این آر او کی کوکھ سے جنم لینے والی قوت کے ہاتھوں شکست کھا گیا ۔ جنرل پرویز مشرف کے رخصت ہوتے ہی کرپشن کے ہتھیاروں سے مسلح نام نہاد سیاستدانوں نے عوام پر آمرانہ جمہوریت مسلط کی جو پچھلے دس سالوں سے پاکستانی عوام ، نظریہ پاکستان ، اسلام اور افواج پاکستان پر ہر پہلو سے حملہ آور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :