ارب پتی خرادیہ

جمعہ 19 مئی 2017

Hussain Jan

حُسین جان

وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چین میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی خراد کی مشین چلاتے رہے ہیں۔ ویسے میں نے تو زندگی میں پہلی دفعہ کسی خرادیہ کو امیر دیکھا ہے۔ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے بڑئے ملک کے سب سے بڑئے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ بچپن میں بڑوں سے سنا کرتے تھے کہ سیاست بڑی ظالم ہوتی ہے اور سیاستدان بہت بے حس ۔

سیاست میں ترقی کرنے کے لیے محنت سے زیادہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ کے دماغ میں ہر وقت یہی چلے کہ کس طرح دوسرئے کی ٹانگ کھینچ کر آپ نے اپنا رستہ بنانا ہے تو ہی آپ سیاست اور خاص کر پاکستانی سیاست میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ویسے اب ہماری سمجھ میں آگیا ہے کہ موصوف پورئے لاہور کو لوہے سے کیوں بھرتے جا رہے ہیں ظاہر جب تجربہ ہی خراد کا ہے تو سائنس کے پراجیکٹ تو کرنے سے رہے۔

(جاری ہے)


میاں صاحب کو پنجاب میں حکومت کرتے کم وپیش تیس سال ہونے کو ہیں لیکن آج تک ایک بھی ایسا منصوبہ نہیں بنا پائے جس سے عوامی بھلائی جھلکتی ہو۔ سڑکیں بنانے پر زور دے رکھا ہے۔ ایک کتاب نظر سے گزری جس میں سرمایا دارانہ اور کمیونزم نظام حکومت کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ کتاب میں لکھا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں صرف دو عوامل کا ہاتھ ہوتا ہے۔

یعنی یا تو ملک زرعی ہو یا پھر صنعتی۔ ہمارئے ملک کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے یا پھر صرف ہمیں بتانے کے لیے زرعی ملک کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ۔ کیونکہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں سبزیوں کی قیمتیں آسمانوں میں باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ اب رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے ہر چیز کو آگ لگ جانی ہے۔ ہر کاروباری شخص نے اپنی مرضی سے قیمتیں لگانی ہے۔

اور خرادیے صاحب کا سارا زور رمضان بازاروں میں ہونا ہے۔ اس کے علاوہ پورئے ملک میں چاہے قیمتیں کچھ بھی ہوں اور رمضان بازاروں میں بھی سب سے گھٹیا چیزیں بیچی جاتی ہے۔ کسی دور میں لاہور کی زرعی ضروریات لاہور کی زمینوں سے ہی پوری ہوجاتی تھیں اور اب یہ حال ہے کہ لاہور کی تمام زرعی زمینوں میں ہاؤسینگ سوسائٹیاں بنا دی گئی ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس طرف کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ۔

کیا صرف ایک اقتصادی راہداری ملک کے تمام مسائل حل کر دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات کی طرف حکومت کی کیا منصوبہ بندی ہے۔ انڈیا ہمارئے پانیوں پر ڈیم پر ڈیم بنائے چلے جا رہا ہے۔ اور ہم سے ایک ڈیم بنائے نہیں بنتا۔ او بھائی اگر اس ایک ڈیم پر رائے عامہ نہیں ہو رہی تو کوئی دوسرا ڈیم بنا لو اتنی بڑی زمیں پر کیا ایک ہی ڈیم بن سکتا ہے۔ پاکستانی کا نہری نظام دُنیا کا بڑا ترین نہری نظام ہے ۔

مگر نہروں کی حالت دیکھ لیں جگہ جگہ شگاف پڑ جاتے ہیں۔ جس زمیندار کا جتنا دل کرتا ہے پانی چوری کر لیتا ہے۔ باردانہ کے لیے چھوٹے زمینداروں کے ساتھ کتوں والا سلوک کیا جارہا ہے۔ سارا سارا دن دھوپ میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ بنجر زمینوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی۔ تھر کی زمینوں کی طرف کسی کو توجہ نہیں ہے۔ تو اس سے صاف ظاہر ہے یہ ملک صرف کتابوں کی حد تک ہی زرعی ہے ۔

کیونکہ آلو ٹماٹر تک ہم انڈیا سے منگواتے ہیں۔ تو بھائی یہ کیسا زرعی ملک ہے۔ اس ملک کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ شہروں تک میں سہولیات کا فقدان تو نواحی علاقوں کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ کسی کتاب میں پڑا تھا کہ چین نے تمام شہری سہولیات دور دراز کے گاؤں تک بھی پہنچا دی ہیں جس کی وجہ سے شہروں میں لوگوں کی ہجرت کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔ ہمارے ہاں تو شہروں میں بھی سہولتیں ناکافی ہیں اُوپر سے دور دراز کے گاؤں سے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

اس سے ایک تو شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف زراعت میں بھی خاطر خواہ کمی ہو رہی ہے۔ اگر کسانوں کو شہری سہولتیں اُن کے قریب ترین شہروں میں مہیا کر دی جائیں تو یہ ہجرت رک سکتی ہے اور زراعت میں بھی اصافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ وہ کام ہیں جن کا اشتہار نہیں دیا جاسکتا اسی لیے ہمارے حکمرانوں کا اس کام کی طرف دھیان کم کم ہی جاتا ہے۔


اب آتے ہیں صنعت کی طرف کسی زمانے میں ٹیکسٹائل کی صنعت پاکستانی کی سب سے بڑی صنعت تھی۔ پاکستان کا کپڑا پوری دُنیا جاتا تھا اور پسند کیا جاتا تھا۔ پھر حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے یہ صنعت زوال پذیر ہو گئی اور آج تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی۔ دوسری طرف ہم نے پاکستان میں صنعتوں کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ جس کی وجہ سے ملک میں ہنر مند افراد کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔

اگر ملک میں صنعتوں کا جال بچھایا جاتا تو ملک اقتصادی طور پر کافی ترقی کر چکا ہوتا۔ حیرت کی بات ہے حکمرانوں کے بچے دوسرئے ممالک میں تو اپنے کاروبار میں دن دُگنی رات چُگنی ترقی کر رہے ہیں مگر ملکی صنعت کی حالت درگوں ہیں ۔ بجلی پانی گیس کی قلت کو ہم آج تک ختم نہیں کرپائے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت بڑئے بڑئے دعوئے کیے تھے کہ ہمارے پاس بہترین ٹیم موجود ہے۔

ہم ملک کو تمام مسائل سے نکالیں گے۔ ہم ریلوئے ، پی آئی اے وغیرہ کو پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ آج حکومت کو پورئے چار سال ہونے کو ہیں تو ان اداروں کی حالت سب کے سامنے ہیں گاڑی چلتی نہیں اور جہاز سے ڈرگ برآمد ہوتی ہے۔
لہذاحکمرانوں کو چاہیے کہ دوبارا خراد کا کام شروع کر لیں کیونکہ ملک تو ان سے چلنے سے رہا ۔ اور پھر ملک چلانے کے لیے جس ویژن کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک خرادیے کے پاس نہیں ہوتا۔

دوسری طرف زرداری صاحب جن کی جماعت نے سندھ صوبے کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ بوٹی مافیا ہو یا گڈز کا مسلہء کچرا ہو یا چائینہ کٹنگ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے میں سندھ حکومت مکمل طور پر فیل ہوچکی ہے۔ ایک طرف خرادیا حکومت کر رہا ہے تو دوسری طرف سینما مالک یعنی دونوں میں ویژن کا فقدان ہے۔ بس اپنے اپنے لاڈلوں کو نوازنے کا عمل جاری ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ ملک مزید چل سکے گا۔ ویسے قوم بھی اس معاملے میں کافی ٹھنڈی پائی گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :