جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیٹے کے نام ایک خط

بدھ 24 مئی 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

برادر خورد۔ میں آپ کو بالکل نہیں جانتا۔نہ میری کبھی آپ سے ملاقات ہوئی ہے نہ میں نے آپ کو دیکھا ہے نہ کسی نے کسی تقریب میں تعارف کروایا ہے ، نہ ہمارا کوئی دوست مشترکہ ہے نہ کوئی دور پار کی رشتہ داری ہے نہ میرے پاس آپ کا فون نمبر ہے نہ کبھی ای میل پر رابطہ ہوا ہے۔حتی کہ مجھے آپ کے نام کا بھی علم نہیں ہے۔ آپ کتنے بہن بھائی ہیں مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔

آپ نے کتنا پڑھا ہے ؟کس کالج سے تعلیم حاصل کی ہے؟ زندگی کا بیشتر وقت کس علاقے میں گذارا ہے؟ مجھے کچھ علم نہیں۔ ملازمت کرتے ہیں یا ابھی تعلیم کے مراحل طے کر رہے ہیں؟شادی شدہ ہیں یا ابھی اس مرحلے سے نہیں گزرے؟کون سے کھیل آپ کو پسند ہیں؟ کھانے میں کیا شوق سے کھاتے ہیں؟ لباس کونسا پسند کرتے ہیں؟ کرکٹ شوق سے دیکھتے ہیں یا فٹ بال کے دیوانے ہیں؟ مجھے کچھ نہیں پتہ۔

(جاری ہے)

کتابیں کون سی شوق سے پڑھتے ہیں۔ تاریخ میں دلچسپی ہے یا ریاضی کے ماہر ہیں؟ جغرافیے کے دھنی ہیں یا سماجایات کے ماہر ہیں۔ معاشیات کو سمجھتے ہیں یا ادب سے شناسائی ہے ؟میں کچھ بھی بتانے سے قاصرہوں۔حتی کہ میں نے کبھی آپ کی تصویر بھی نہیں دیکھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا قد لمبا ہے یا قامت مختصر، بدن چھریرا ہے یا فربہی کی جانب مائل۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ گفتگو کے شوقین ہیں یا کم آمیز، لطیفہ گوئی میں دلچسپی ہے یا سنجیدگی سے کلام کرتے ہیں۔

میں آپ کو بالکل نہیں جانتا ۔ لیکن اس سب ناشناسائی کے باوجود میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔
میں اگر آپ کا فین ہونے کا دعوی کر رہا ہوں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ دنیا کے تیسری بڑی فوج کے بہادر سپہ سالار کے صاحبزادے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی بہت فخر و انبساط کی ہے۔مگر اس مکتوب کے سہارے آپ سے مخاطب ہونے کی وجہ قطعا یہ نہیں ہے۔

نہ اس کلام کے پیچھے کوئی غرض ہے نہ کوئی سفارش درکار ہے نہ کوئی دنیاوی غرض ہے، نہ کسی کو بھرتی کروانا ہے نہ آپ کے نام کو استعمال کر کے مشہور ہونے کی کوئی خواہش ہے۔
برادر عزیز ۔ میرا آپ سے تعارف دو جملوں کا ہے۔ لیکن یہ دو جملے بہت اہم ہیں ۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ لفظ بہت تاثییر رکھتے ہیں۔ ان کے اندر ہزار ہا معنی چھپے ہوتے ہیں۔ایک ہی لفظ کسی کو اشکبار کر دیتا ہے اور کسی کے ہونٹوں سے ہنسی کی پھوہار برسنے لگتی ہے۔

ایک ہی لفط خوف بھی دلا سکتا ہے اور تسلی بھی پہنچا سکتا ہے۔ ایک ہی لفظ اشتعال بھی دلوا سکتا ہے اور سکون بھی پہنچا سکتا ہے۔ اور یہاں ہم لفظ کی تو بحث ہی نہیں کر رہے میرا مدعا تو دو جملے ہیں۔دو مکمل جملے۔ ایک لمحے کو سوچئے جب لفظ اتنا کچھ بدل سکتا ہے تو دو جملے کیا ، کیاکرشمے دکھا سکتے ہیں۔
ہم ہر روزلاکھوں لفظ پڑھتے ہیں، ہزاروں جملے ہماری نگاہ سے گزرتے ہیں۔

سینکڑوں لفظ بولتے ہیں سینکڑوں حرف سنتے ہیں۔لفظوں کی اس بہتات میں دو جملے یاد رہ جانا بہت بڑی بات ہے۔دراصل یہ دو جملے صرف عام روز مرہ جملے نہیں، یہ دو جملے ، ہمارے حالات پر بہترین تبصرہ ہیں، واقعات کا کمال نتیجہ ہیں۔اس ملک کی تاریخ ہیں، ہمارا ماضی اور ہمارا مستقبل بھی انہی دوجملوں کی قید میں ہے۔یہی دوجملے عرض حال ہیں یہی دو جملے شان استقلال ہیں یہی دو جملے راستے کی ہمت ہیں اور یہی دو جملے منزل کا نشان ہیں۔


عزیز من ۔ آپ نے جس باوقار اور باعزت گھرانے میں پرورش پائی ہے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ اس ملک کی تاریخ سے بخوبی واقف ہوں گے۔معروف کیا ہوتا ہے اور منظور کیا ہے اس کا آپ کو ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے ادراک ہوگا۔ آپ کی نگاہ حالات حاضرہ پر بھی ہوگی۔آپ کا مطالعہ بھی وسیع ہو گا۔ اس ملک میں مشہور نعرے کیا، کیالگے ہیں ان سے بھی واقفیت ہوگی۔

معروف اور مشکل فیصلوں میں فرق سے بھی آپ بخوبی جانتے ہوں گے۔ خلق کی اکثریت جب ایک غلط سمت میں اشارہ کر رہی ہو تو ایسے میں درست راستے کا انتخاب کس قدر مشکل ہو سکتا ہے اس بات کو آپ یقننا سمجھتے ہوں گے۔آپ کو علم ہی ہو گا کہ قوموں کی زندگی میں ایسے مقام آتے ہیں جہاں دشوار فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ غیر معروف بات کرنی پڑتی ہے۔ ہر وقت حالات کے دھارے پر چلنا درست نہیں ہوتا ، وقت کے بہاو کو بازو کی قوت سے بعض اوقات بدلنا پڑتا ہے۔

قوموں کو کندن بننے کے لیئے آگ سے گزرناپڑتا ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہوں گے اور آپ کو یقننا اس بات کی تعلیم بھی دی گئی ہو گی کہ بہادر لوگ وہ ہوتے ہیں جو جب کسی منصب پر پہنچتے ہیں تو اپنی ذاتی انا کو اپنے فیصلوں میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ قوموں کے مسقبل کے فیصلوں میں فرد کی اہمیت نہیں ہوتی ، ایسے میں مفاد عامہ مدنظر ہوتا ہے۔ذات کی لڑائی قوم کے مستقبل کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔

ہم تاریخ میں انہیں ہی جری لوگ مانتے ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو ایک سمت عطا کی۔ صراط مستقیم کا رستہ بتایا۔ درست منزل کی جانب نشاندہی کی۔ درست راستے کا انتخاب کیا۔ آپ کے قابل قدر والد یقننا انہی لوگوں میں سے ہیں اور ہمیں ان کی انصاف پسندی، بہادری، دانش اور جمہوریت پسندی پر بے انتہا فخر ہے۔
گذشتہ دنوں ایک اخبار کی خبر کے حوالے سے ایک ٹوئیت پر اس ملک میں جو ہنگامہ ہوا آپ یقیننااس سے واقف ہوں گے۔

ماضی میں اگر ایسا ہوا ہوتا تو اب تک جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی ہوتی ۔ لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہوا اور اس کامیابی کا سہرا یقننا آپ کے والد کو جاتا ہے۔ جس باوقار طریقے سے اس ٹوئیٹ کو واپس لیا گیا وہ بے مثال ہے۔ جس حوصلے سے ڈوبتی جمہوریت کی کشتی کو سنبھالا گیا وہ قابل تقلید ہے۔یہی طرز عمل اس ملک کی خوشحالی کا زینہ ہے۔ ترقی کا امکان ہے۔

اس ملک کی بہادر سپاہ کی ہمت اور حوصلے کا نشان ہے۔
میرا آپ سے تعارف آپ کے والد کی ایک تقریر کے توسط سے ہوا ہے۔جب جی ایچ کیو میں منعقدہ ایک سیمنار سے مخاطب ہو کر آپ کے والد نے بتایا کہ جب مسترد والی ٹو ئیٹ کی گئی تو میرے بیٹے نے کہا آپ نے ایک معروف مگر غلط فیصلہ کیا ہے۔اور جب ٹوئیٹ واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا تو آپ نے اپنے والد سے کہا کہ آپ نے ایک درست مگر غیر معروف فیصلہ کیا ہے۔


میرا آپ سے تعارف صرف ان دو جملوں کا ہے۔ اور یقین مانیئے تعارف کے لیئے یہ دو جملے کافی ہیں۔ ان دوجملوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی پرورش ایک جمہوری ماحول میں ہوئی ہے، جہاں آپ کو اپنی بات کہنے کا حق دیا گیا ہے۔یہ دوجملے صرف دو جملے ہوتے تو اتنی طویل بات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ جملے ایک روشن مستقبل کا نشان ہے۔ ایک نئی اور ایک توانا نسل کا بیان ہیں۔

یہ جملے جمہوریت کے پاسبان ہیں ۔ یہ جملے اس ملک کی ترقی کا امکان ہیں۔ اور انہی دو جملوں کی وجہ سے میں آپ کا مداح ہوں اگرچہ میں اس بات کا اقرار کر چکا ہوں کہ میں آپ کو بالکل نہیں جانتا۔نہ میری کبھی آپ سے ملاقات ہوئی ہے نہ میں نے آپ کو دیکھا ہے نہ کسی نے کسی تقریب میں تعارف کروایا ہے ، نہ ہمارا کوئی دوست مشترکہ ہے نہ کوئی دور پار کی رشتہ داری ہے نہ میرے پاس آپ کا فون نمبر ہے نہ کبھی ای میل پر رابطہ ہوا ہے۔ حتی کہ مجھے آپ کے نام کا بھی علم نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :