اِسٹنگ آپریشن…تیری رہبری کا سوال ہے!

منگل 6 جون 2017

Sareer Khalid

صریر خالد

گوکہ انڈیا ٹوڈے کے زلزلے کی طرح سامنے آچکے اِسٹنگ آپریشن کوگویا اپنے یہاں”تحریک کے مفاد میں“سب نے نظرانداز کردیالیکن یہ معاملہ نہ اتنا معمولی ہے کہ اسے نظرانداز کردیا جائے اور نہ ہی اسے نظرانداز کرنے میں تحریک کا کوئی مفاد مضمر ہے۔یہ دراصل ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جسے نظرانداز کرنے کی بجائے موضوعِ بحث بناکر اس پر بات بھی کرنی چاہیئے اور متعلقین کے ساتھ ساتھ انکے متعلقین کو بھی رسمی کارروائی کی بجائے مکمل جواب دینا چاہیئے۔


جیسا کہ مذکورہ ٹیلی ویژن چینل کی دکھائی گئی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے نعیم احمد خان نے بھارتی کاروباریوں سے پیسہ وصول کرنے پر آمادہ ہونے سے پورے کشمیر کو ایک جھٹکہ دیا ہے اور پھر پیسے کی وصولی کی لالچ میں جو کچھ انہوں نے ان لوگوں سے کہا ہے وہ تشویشناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔

(جاری ہے)

نعیم خان کی ایک ایک بات شرمناک تھی اور اس حد تک دل آزار کہ کوئی سچا کشمیری ان باتوں کی سماعت کی تاب نہیں لاسکتا ہے۔


موجودہ دنیا میں اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی فرد، تنظیم یا گروہ پیسے کے بغیر کوئی اچھا یا بُرا کام کر بھی سکتا ہے،ایسا دراصل نا ممکن ہے لہٰذا ظاہر سی بات ہے کہ اگر جموں کشمیر کے مزاحمتی گروہ کام کرتے ہیں تو انہیں پیسہ درکار رہتا ہے۔پھر یہ بات کوئی راز ہے بھی نہیں کہ ان لوگوں کو یہاں کی تحریک شروع ہونے کے ساتھ ہی پیسہ ملنا شروع ہوگیا تھا اور کمی بیشی کے ساتھ یہ ”شیرِ مادر“انہیں ملتا رہا۔

یہ الگ بات ہے کہ مقتول عبدالغنی لون کے سوا مزاحمتی قائدین میں سے کبھی کسی نے اس بات کو قبول نہیں کیا ۔عبدالغنی لون ہی غالباََوہ واحدشخص تھے کہ جنہوں نے نہ صرف پیسہ حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا بلکہ اسے شیرِ مادر کے برابر بھی بتایا تھا۔جموں کشمیر کی تحریک کو کوئی لاکھ ”دہشت گردی“یا ”مفاد خصوصی رکھنے والوں کا برپا کردہ فساد“ کہے لیکن ایسا کہنے والے تک جانتے ہیں کہ یہ دہشت گردی ہے اور نہ کوئی بیرونی ہاتھوں کا برپا کردہ فساد بلکہ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے جسکی بنیاد اتنی ہی مظبوط ہے کہ جس مظبوطی کے ساتھ خود بھارت اور پاکستان بھی کھڑاہے۔

اس لئے اگر مسئلہ کشمیر سے وابستہ مزاحمتی طاقتیں کھلے عام بھی جائز طریقے سے پیسہ وصول کرنے کا اقبال کریں تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے ۔بلکہ اس سے خود مسئلہ کشمیر اور اس سے وابستہ مزاحمت کی معتبریت مزید بڑھ جائے گی۔یہ بات سرکاری ایجنسیوں کو ہی نہیں بلکہ ایک عام کشمیری کو بھی معلوم ہے کہ مزاحمتی جماعتوں کو کشمیریوں کی ”سیاسی،سفارتی و اخلاقی“امداد کرنے والوں سے نقد امداد بھی ملتی رہی ہے اور پھر دنیا کے کونے کونے میں رہنے والے کشمیریوں کی جانب سے بھی کماحقہ انہیں نوازا جاتا رہا ہے…اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ یہ بات ڈھنکے کی چوٹ پر کہی جانی چاہیئے کہ تحریکیں پیسے کے بغیر نہیں چل سکتی ہیں۔

البتہ اگر نام نہاد مزاحمت کاروں کا اوڑھنا بچھونا بس پیسہ ہوجائے اور اگر وہ اس حد تک گرجائیں کہ گدھوں کی طرح پیسے کے کسی بھی ڈھیر پر ٹوٹ پڑیں تو پھر مزاحمت کا خدا ہی حافظ ہے۔
مزاحمتی جماعتوں کو ملنے والی رقومات کا اصل مقصد کیا ہے،اسکا اصل تصرف کس طرح اور کہاں ہونا چاہیئے تھا اور عملاََ اس پیسے کو کہاں لگایا جارہا ہے،یہ ایک پُرانی بحث ہے اور اس پر خوب رویا جابھی چکا ہے اور رویا جابھی رہا ہے۔

لیکن روز ہی جاری کئے جانے والے پریس نوٹوں میں اپنے نام کے ساتھ ”سینئر لیڈر“لگانا نہ بھولنے والوں کی جانب سے جب خود ”دشمن ملک“سے فائدہ لینے کے لئے یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس پیسے سے اسکول جلائے جاتے ہیں،توڑ پھوڑ کی جاتی ہے،تشدد پھیلایا جاتا ہے اور اس طرح کی بدتمیزی کی جاتی ہے تو عام لوگوں کا سر شرم سے فقط جھکتا ہی نہیں ہے بلکہ خون کھولنے لگتا ہے۔

خان صاحب کی” پارٹی“ کتنی بڑی ہے اور کیا اسکے لئے وہ سب کرنا ممکن بھی ہے کہ جو اُنہوں نے سبھی کشمیریوں کے سر باندھنے کی کوشش ہے،یہ سبھی کشمیریوں کو معلوم ہی ہے۔کشمیر کی کئی بد نصیبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کی بیشتر ”پارٹیاں“اتنی ”بڑی“ہیں کہ یا فقط پارٹی کے صدر کو معلوم ہے کہ انکی پارٹی ہے یا پھر انکی بیگم بھی اس ”راز“سے واقف رہتی ہے۔


2016کی تحریک کے بارے میں یہ بات خود بھارتی اداروں نے بھی قبول کی ہے کہ یہ کسی پارٹی یا فرد کی مرہونِ منت تحریک نہیں تھی اور نہ ہی دنیا کو لرزاچکے لوگوں کے ان سمندروں کو جمع کرنے میں کسی پیشہ ور تحریکی کا کوئی رول تھا لیکن اس سب کے باوجود بھی خان صاحب اور دو اور ”لیڈروں“نے صرف ذاتی مفاد کے لئے جو گناہ ساری کشمیری قوم کے ماتھے تھوپنے کی کوشش کی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

سوال ہے کہ یہ لوگ انشاء مشتاق کو کیا جواب دینگے کہ اگر وہ اندھوں کی سفید لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے کسی طرح ان کے بنگلوں کی چوکھٹ تک آپہنچ کر انکا گریباں پکڑ کر کہے کہ کیا آپ نے اس تشدد میں پیسہ لگایا ہوا تھا کہ جسکی شکار ہوکر میں اندھی ہوگئی ہوں۔یہ لوگ ننھیجُنید کے والدین کا سامنا کیسے کرسکتے ہیں کہ اگر وہ آکر یہ سوال کریں کہ خان صاحب کیا وہ دن بھی آپ ہی نے ٹھیکے پر لیا ہوا تھا کہ جب ہمارے ننھے جُنید کو اپنے ہی صحن میں مار گرایا گیا تھا اور پھر اسکے جلوسِ جنازہ تک کو نہیں بخشا گیا تھا۔

یہ کہکر، کہ وہ جب چاہیں حالات خراب کرسکتے ہیں ،دراصل بہ الفاظِ دیگر ان ”لیڈروں“نے یہ کہا ہے کہ وادی کی گلی گلی سے برآمد ہوتے رہے سروں کے سیلاب دراصل کسی بُرہان وانی کی محبت میں برآمد نہیں ہوتے ہیں،وہ آزادی بھی نہیں چاہتے ہیں،وہ ظلم کے خلاف بھی کھڑا نہیں ہیں،وہ اپنے سلب شدہ سیاسی حقوق کی بازیابی بھی نہیں چاہتے ہیں،وہ غلامی سے تنگ آکر عزت کی موت مرنے کے لئے ٹینکوں کے مقابل نہیں آتے ہیں بلکہ وہ پیسے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں جیسا کہ بھارت دعویٰ کرتا اور الزام لگاتا آیا ہے۔


اپنی نوعیت کی اس سنسنی خیز بات چیت میں جاسوسوں،جنہوں نے خود کو اعلیٰ ترین کاروباری بتاکر ”لیڈروں“کو دامِ فریب میں پھنسایا تھا،کو واضح کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو گرانے کے لئے وادی میں گڑ بڑ پھیلانا چاہتے ہیں۔جواب میں نہ صرف تینوں شکار اس بات پر آمادہ ہوجاتے ہیں بلکہ وہ ماضی میں کشمیر میں پھیلی ہر گڑ بڑ کو اپنی کارستانی بتاکر انہیں یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی تجوری کھول کر کشمیر میں من چاہا تماشا دیکھ سکتے ہیں۔

تینوں اشخاص اس اعتماد سے بات کرتے ہیں کہ جیسے واقعی وادیٴ کشمیر میں سب کچھ اِنہی کی مرضی سے ہوتا آرہا ہے۔یہ بات انتہائی شرمناک تھی کہ جب یہ ”لیڈر“حضرات عام غنڈوں کی طرح یہاں تک دعویٰ کرگئے کہ پولس تھانوں،اسکولوں اور دیگر عمارات میں آگ زنی اِنہی کے کہنے پر ہوتی آئی ہے اور وہ آئیندہ بھی اس طرح کے کام کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


حالانکہ یہ بات خود بھارتی اداروں کو بھی معلوم ہے کہ وادیٴ کشمیر میں جب بھی احتجاجی مظاہرے ہوں وہ کوئی پیسے لگا کر کیا گیا تماشا نہیں ہوتا ہے بلکہ جذبات کا اظہار ۔اس طرح کی بلکہ کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب” قائدینِ قوم“نے مختلف مواقع پر احتجاجی مظاہرے کروانے کی کوشش کی بھی لیکن لوگوں کی مرضی نہیں تھی سو وہ سڑکوں پر نہیں آئے اور بعض اوقات قائدین کی مرضی نہ تھی لیکن لوگ آمادہ بہ احتجاج تھے سو اُنہوں نے زوردار احتجاجی مظاہرے کئے۔

پھر سودا بازی پر آمادہ ہوئے” لیڈروں“کی بات ہو تو ان میں سے دو کوتو شائد اپنے محلہ داروں کے بغیر کوئی جانتا بھی نہیں ہو اور تیسرے کو اگر دو ایک محلے اور جانتے بھی ہیں لیکن خود حریت میں کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2016میں ان صاحب کا کہیں کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔2016کی تحریک میں ویسے بھی لیڈر حضرات کا کہیں کوئی رول نہیں تھا اور جنوبی کشمیر،جہاں سب سے زیادہ حالات خراب رہے،میں تو کئی جگہوں پر پوری حریت کانفرنس کے خلاف تقریریں ہوئیں اور اس پر2010کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے بھاری رقومات حاصل کرنے کے سنگین،حالانکہ جھوٹے اور بے جا،الزامات تک لگائے گئے۔


سنسنی خیز اِسٹنگ آپریشن میں جو اہم بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ جال میں پھنسے ”لیڈڑ“نہ صرف پیسہ لینے پر تیار بلکہ اُتاولے تھے بلکہ وہ بھکاریوں کی طرح خود دلی چلے گئے اور پھر وہاں وہ بکواس کی کہ جس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھکگیا۔ لیکن چونکہ ان تینوں کی قبولی ہوئی باتیں جھوٹ ہیں اور قوم اس سے واقف ہے البتہ یہ سب دیکھ کر قوم کا خون بھی کھول اُٹھتا ہے۔

یہ بات بار بار کہی جاسکتی ہے بلکہ کہی جانی چاہیئے کہ تحاریک کے لئے پیسہ اہم ہے اور اسکی اہمیت سے انکار کوئی نادان ہی کرسکتا ہے لیکن جب ”آزادی کے متوالے“کسی اور کی مرضی کے مطابق سرکاریں گرانے اور بنانے کے ٹھیکے لینے لگیں تو چیزیں مختلف ہوجاتی ہیں۔
اپنے دفاع میں خان صاحب نے جو باتیں بتائیں وہ نہ صرف کمزور اور بے وزن ہیں بلکہ جس طرح سے اُنہوں نے پریس کانفرنس میں اپنا تماشا بنوایا وہ اور بھی زیادہ افسوسناک تھا۔

نئی دلی کی ٹیلی ویژن چینلوں کا کشمیریوں کے تئیں تعصب کوئی ڈھکی چھُپی یا نئی بات نہیں ہے بلکہ انکا سارا کاروبار ہی کشمیریوں پر گند اُچھالنے اور انہیں بدنام کرنے پر ٹِکا ہوا ہے۔اس حوالے سے آئے دنوں من گھڑت اور بے بنیاد کہانیاں گھڑ کر کبھی کسی لیڈر کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی پوری تحریک پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کرنے سے ہی ٹیلی ویژن چینلوں کا ”ٹی آر پی“ بڑھتا ہے اور اس لئے وہ صحافتی اصول و ضوابط بلکہ اخلاقیات تک کو بھول کر کشمیر کو ”کَور“کرتی ہیں لیکن اِسٹنگ آپریشن کا معاملہ مختلف ہے۔اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ نام نہاد اِسٹنگ آپریشن بھی بد نیتی پر مبنی تھا اور اسکا مقصد ہی کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرنا تھالیکن اس میں چونکہ ”لیڈرانِ قوم“بہ نفسِ نفیس اپنے ”کارناموں “کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لہٰذا اس سب کو فرضی یا من گھڑت یا ٹیلی ویژن چینلوں کی ذہنی اخترا ع کہنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

اور پھر جس انداز سے انہوں نے باتیں کی ہیں اور” اندرونی راز“ افشاء کئے ہیں وہ کس طرح اپنے آپ کو لیڈر کہلانے والے کسی شخص کو زیب دیتی ہیں۔آخر ان پیسے کے پجاریوں کو ایسی کونسی گولی کھلائی گئی تھی کہ وہ برسوں کا کھایا پیا قے کرنے لگے۔پھر ان ٹیلی ویژن چینلوں کا تو یہ کام ہی ہے کہ وہ آپ کو حق و ناحق بدنام کریں لیکن سوال یہ ہے کہ آپ انہیں موقعہ کیوں دیں۔

#
مجھے اِدھر اُدھر کی ناسُنا یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
خان صاحب کے یہ کہنے میں بھی شک نہیں ہو سکتا ہے کہ ٹیلی ویژن چینل نے اِسٹنگ آپریشن کو ”کانٹ چھانٹ “کے پیش کیا ہے،وہ لوگ واقعی اپنے ”مطلب“کی ہی چیزیں دکھائیں گے سو اُنہوں نے دکھائیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کے دامِ فریب میں آہی کیسے گئے۔

اس سنسنی خیز اِسکینڈل کے بارے میں جو نئی باتیں اب سامنے آرہی ہیں اُن کے مطابق شکاریوں نے جال فقط ان ہی تین مچھلیوں کے لئے ہی نہیں پھینکا تھا بلکہ اُنہوں نے تو لبریشن فرنٹ کے چیرمین یٰسین ملک اور ممبرِ اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید کو بھی دامِ فریب میں پھانسنے کی کوشش کی تھی۔جیسا کہ یٰسین ملک نے خود کہا کہ اُنہیں بہت بڑی رقم کی پیشکش ہوئی تو اُنہوں نے یہ بنیادی سوال پوچھ لیا کہ آخر کوئی انہیں اتنی بڑی رقم کی پیشکش کیوں اور کس لئے کرے سو اُنہوں نے اس پورے معاملے میں دلالی کا کام کرتے رہے کسی مظفر کو مایوس لوٹا دیا۔

یٰسین ملک نے بہر حال دانشمندی اور بالیدگی کا مظاہرہ کیا اورسُرخرو نکلے ۔اس سے بڑی بات”بھارت نواز ممبر اسمبلی“ انجینئر رشید کی جانب سے اس طرح کی پیشکش کو ٹھکرانا ہے کیونکہ،جیسا اُنہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا اور پھر ایک مفصل مضمون میں لکھا ہے،اُنہیں کوئی بڑا کام بھی نہیں دیاگیا تھا بلکہ اُنسے وہی سب کرتے رہنے کے لئے کہا گیا تھا کہ جو وہ ویسے بھی آٹھ نو سال پر محیط اپنے پورے سیاسی کیرئر میں کرتے آئے ہیں۔

اُنکا دعویٰ ہے کہ اُنہیں انسانی حقوق کی پامالی،ایل او سی پر ہورہی شلنگ اور اسکے نتیجے میں شہری اموات،مرکزی سرکار کی مختلف پالیسیوں وغیرہ کے خلاف اسمبلی میں آواز اُٹھانے کے عوض بھاری رقم لینے کے لئے کہا گیا تھا۔یعنی اُنہیں آگ زنی بھی نہیں کرنی تھی اور نہ ہی تشدد پھیلانا تھا بلکہ اسمبلی میں رہتے ہوئے بس شور مچانا تھا لیکن وہ دامِ فریب میں نہیں آئے۔

اگر انکا دعویٰ صحیح ہے تو پھر اُنہوں نے یہ کہکر ”ہم تو یہ سب اپنے ضمیر کی آواز پر کرتے ہی ہیں ،کسی سے پیسہ کیوں لے لیں“اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔حالانکہ اس طرح کے کردار کی توقع اُن سے تھی کہ جو سرے سے ہی فراڈ نظر آنے والی ایک نا قابلِ یقین پیشکش کی لالچ میں آکر اپنی بھی کھِلی اُڑا آئے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی بھی۔
اس سارے معاملے کو لیکر وادیٴ کشمیر میں وہ ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے کہ جسکی حالانکہ خود مذکورہ ٹیلی ویژن چینل کو بھی توقع رہی ہوگی،یہاں کسی ”لیڈر“کے خلاف کوئی جلوس بھی نہیں نکلا کسی کے گھر پر سنگبازی بھی نہیں ہوئی اور کسی کے پُتلے بھی نہیں جلائے گئے ۔

بلکہ میجر گگوئی کو اعزاز ملا تو سارا کشمیر حُریت کے ہی کہنے پر سراپا احتجاج بن گیا اور پھر حزب کمانڈر سبزار بٹ مارے گئے تو کسی کال کے بغیر ساری وادی ماتم کُناں ہوگئی یہاں تک کہ انتظامیہ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات تک بند کرنی پڑیں…ظاہر ہے کہ اس سب سے انڈیا ٹوڈے و دیگراں کی اُمیدوں پر اوس پڑگئی ہوگی۔لیکن اس سب کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ جو تماشا انڈیا ٹوڈے نے کشمیریوں کو دکھایا ہے اُسکا کوئی اثر نہیں ہے،یا اس سے سوالات نے جنم نہیں لیا ہے!۔


البتہ اگر اس سب کے باوجود بھی کشمیری عوام پھر سڑکوں پر ہیں اور ”تحریکی قیادت“کے ہر فرمان پرعمل بھی کرتے آرہے ہیں تو اِسکی وجہ ان قائدین کا کوئی سحر نہیں بلکہ خود لوگوں کا تحریک ہونا ہے۔کشمیر میں مدت سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ” تحریک سے وابستہ ہر بُری چیز“پر چُپ سادھ لینا بھی ”تحریکی مفاد“سمجھا جاتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح کشمیر میں سرکاری طور ہونے والے ہر ظلم پر چُپ رہنے کو نئی دلی کے ذرائع ابلاغ ”قومی مفاد“سمجھنے کی غلطی پر ہیں،لیکن ”قیادت“ اِسکا مزید غلط فائدہ اُٹھانے سے باز نہ آئی تو خاموشی ٹوٹنے میں مزید دیر نہیں لگ سکتی ہے۔


اِسٹنگ آپریشن،رشتہ داروں کی سرکاری نوکریوں کا انتظام، یاسودا، اور اس جیسی چیزوں کے حوالے سے لوگوں کے اذہان و قلوب میں سوالات بھی ہیں اور نفرت بھی جسکا جواب کسی ”لیڈر“کی عارضی معطلی نہیں بلکہ ایک مفصل وضاحت ہی ہوسکتا ہے جو ابھی تک باقی ہے۔حُریت کانفرنسیں اور مشترکہ قیادت ان سوالات کا جواب لیکر کب سامنے آتی ہے دیکھنے والی بات ہوگی لیکن یہاں ”دیر آئد درست آئد“کے محاورے سے کوئی فائدہ لینے کی سوچنا بھی بیوقوفی ہوگی۔(بشکریہ تفصیلات ڈاٹ کام)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :