جمشید دستی اور وڈیرہ ازم

اتوار 2 جولائی 2017

Akif Ghani

عاکف غنی

جمشید دستی کو میں نہیں جانتا ہوں ،کون ہے؟ بس اتنا پتہ ہے کہ وہ جاگیرداروں کو ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچا ہے۔سنا ہے اس کی ڈگری جعلی تھی، اچھا ! واقعی اس کی ڈگری جعلی تھی ؟اگر واقعی اس کی ڈگری جعلی تھی تو وہ بچ کیسے گیا اور سلاخوں کے پیچھے ہونے کی بجائے قانون ساز اسمبلی میں کیسے پہنچ گیا۔ہاں یاد آیا، کچھ عرصہ قبل اس اسمبلی کو بھی کچھ لوگ جعلی قرار دے چکے ہیں۔

کیا کہا؟جعلی اسمبلی ؟ مطلب جعلی نمائندے؟ ان جعلی نمائندوں کو منتخب کس نے کیا؟ ظاہر ہے عوام نے تو گویا جعلی عوام اور ایک جعلی قوم۔قوم؟ ہم قوم ہیں کہاں؟پاکستان میں بسنے والے لوگ ایک قوم ہیں؟ نہیں، نہیں، پاکستان میں ، سندھی مہاجر، سرائیکی، بلوچی، پنچابی، پٹھان وغیرہ بہت ساری قومیں بستی ہیں، ایک قوم ہو تو ایک زبان ہوتی ہے ، ایک سوچ ہوتی ہے ایک مفاد ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


ہمارے بڑے تو انگریز کے غلام،ہم ان کے غلام، ہم انگریزی پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جو باوجود کوشش کے ہمیں نہیں آتی، ان کے چال چلنے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کی طرح ہم ہنس تو ہوتے نہیں آخر کار کوے بھی نہیں رہتے ۔ ہمارے ہاں ایک مشترکہ سوچ پنپ ہی نہیں سکتی کہ ہمیں دین، مذہب، علاقے زبان اور تہذیب کے نام پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔


جاگیردار وں، سرمایہ داروں، لٹھ برداروں ،پیروں، اور دیگر بڑوں نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، ایک دوسرے کے خلاف بظاہر محاذ آرائی مگر حقیت میں نورا کشتی کا کھیل کھیلتے ہیں۔اسے کہتے ہیں وڈیرہ ازم، جہاں بڑوں کے اپنے مفادات ہیں، بظاہر وہ آپس میں لڑتے ہیں مگر حقیقت میں ایک دوسرے کے حواری،اور لڑاتے ہیں عوام کو آپس میں، علاقے، زبان ، مذہب اور قومیتوں کے نام پر ۔

ایک قوم بننے نہیں دیتے کہ اس میں ان کے مفادات پر زد پڑتی ہے۔
زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹے جا نے کا دعوٰی کرنے والے زرداری کواپنا بھائی بنا کے نورا کشتی کی مثال پیش کر چکنے والوں کو ہی دیکھ لیں۔
ان نام نہاد بڑوں کے اس گٹھ جوڑ کے خلاف کبھی کبھار کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ آواز اکثر و بیشتر دبا دی جاتی ہے۔موجودہ دور کے حاکموں کا المیہ دیکھیئے کہ خدا نے کس طرح عمران خان کے صورت میں ان کی راہ کا پتھر بنا دیا تحریکِ انصاف کو، تحریکِ انصاف نے شریف برادران کی کرپشن اور من مانیوں کو اس طرح ننگا کیا ہے کہ ، گو نواز گو کا نعرہ اب بچے بچے کی زبان پر جاری ہو گیا ہے ۔

پاکستانی معاشرے میں بد عنوانی ، بدمعاشی اورمن مانی کاسمبل بن گیا ہے نواز شریف اور گو نواز گو اس سمبل کے خلاف مزاحمت کی علامت کا استعارہ۔
گو نواز گو کا مطلب نواز شریف سے جان خلاصی نہیں بلکہ اس نظام سے جان چھڑانا ہے جس میں طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے، جہاں انصاف چھوٹے کے لئے اور طرح کا جبکہ بڑے کے لئے اور طرح کا ہوتا ہے۔گو نواز گو ایک ایسا نعرہ ہے جو گلی کوچوں سے لے کر حکومتی ایوانوں تک میں گونج رہا ہے۔


یہی نعرہ جب جنوبی پنجاب میں جاگیرداروں سے لڑتے ہوئے جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچنے والے جمشید دستی نے لگایا تو،حاکمانِ وقت کو ناگوار گزرا اور اب یہ گو نواز گو کا نعرہ لگانے والے جمشید دستی کواس کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑ گیا کہ اسے پولیس گردی کا نشانہ بنوایا جا رہا ہے، جمشید دستی کو پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے ،اسے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے محض اس لئے کہ اس نے گو نواز گو کا نعرہ لگایا ہے۔

گو نواز گو تو قوم کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے، کس کس کا منہ بند کرو گے،
کس کس کو جیل میں ڈالو گے۔
اس سے پہلے جمشید دستی کو جعلی ڈگری کیس میں چھوڑ دیا گیا، اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ، یا تو ثابت نہیں ہوا کہ وہ جعلی ڈگری ہولڈر تھا یا پھر اس حمام میں چونکہ سبھی ننگے تھے سو اسے بھی جانے دیا گیا۔
پاکستان میں ایک ڈگری تو تو کیا بہت کچھ جعلی چل رہا، اقتدار دو نمبر طریقوں سے حاصل کیا جائے تو باقی پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔

میرِ کارواں ہی جعلی ہو تو جعلی ڈگری کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے، یہاں تو قوم ہی دو نمبر بنتی جارہی ہے۔ چند لیٹر ڈیزل کے لئے ، جل کر خاک ہو جانے والے لوگ ۔ایک دوسرے کو کافر کہہ کر مار دینے والی مخلوق ،شادی بیاہ اور لنگر پر ٹوٹ پڑنے والی عوام ، دو نمبر لیڈروں کے کرتوتوں کی وجہ سے بھوک میں مبتلا ہوتی جارہی ہے ۔ بھوک ایک ایسی بھوک جس میں پیٹ تو بھر جاتا ہے ، آنکھیں نہیں بھرتی۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے یہ سب بھوک کی وجہ سے ہے، ارے بھائی یہ بھوک نہیں حوص ہے۔ ہمارے نبیِ اکرم ﷺ پیٹ پرپتھر باندھ لیتے تھے بھوک کا رونا نہیں روتے تھے، صحابہ کی مثالیں دیکھ لیں مہمان نوازی میں خوِد کھانے سے ہاتھ روک لینا مگر مہمان کے کھانے کے اہتمام میں کمی نہ آنے دیتے۔
ہمارے ہاں بھوک نہیں حوص ہے جو ہمیں جعل سازی پہ مجبور کر رہی ہے۔

زرداری کا سوس بینکوں میں پیسہ ہو یا شریف برادران کا پانامہ والا معاملہ یہ سب حوص نہیں تو کیا ہے، پیٹ بھرا ہوا ہے مگر آنکھوں سے حوص نمایاں ہے، من نہیں بھر رہے۔پاکستان بنا تو اسلام کے نام پہ تھا مگر یہاں سب سے بڑی لعنت جاگیرداری کے خاتمے کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا یہی وجہ ہے یہاں انصاف ناپید ہے۔جاگیراداروں کے ظلم و ستم کی داستانیں روز رقم ہوتی رہتی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھنے والی۔


جاگیرداروں کے تو بچے بھی قابو میں نہیں آرہے، جسے چاہیں مار دینا ایسے ہی سمجھتے ہیں جیسے جنگل میں کسی جانور کا شکار۔سندھ اور جنوبی پنجاب خاص طور پر جاگیرداری کا شکار ہیں ، وہاں اسی وجہ سے پسماندگی بھی زیادہ ہے۔ جاگیردار عوام کو بھی اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور ان سے بھیڑ بکریوں والا سلوک کرتے ہیں۔
پاکستان میں حکومت ہوتی ہی جاگیر داروں یا سرمایہ داروں کی ہے، سرمایہ دار چونکہ پیسے سے سب کچھ خرید لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں سو وہ جاگیرداروں سے بھی گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں یوم عوام بس غلام کی غلام رہ جاتی ہے۔


جنوبی پنجاب یا سندھ میں ان جاگیرداروں کے خلاف آواز اٹھانا کوئی آسان کام نہیں، ایسے میں جمشید دستی نام کا ایک کھلنڈراجنوبی پنجاب میں ان جاگیردارو ں کے خلاف اٹھتا ہے، الیکشن جیتتا ہے اور ایک توانا آواز بن جاتا ہے۔جمشید دستی سنا ہے گالیاں بکتا ہے، حاکمِ وقت کو للکارتا ہے اور غلام پولیس کو کھری کھری سناتا ہے۔
جمشید دستی کی یہ جرأت کہ وہ حاکمِ وقت کو للکارے اور ان کی پر وردہ پولیس کو مغلظات بکے۔

ارے حاکمِ وقت تو مغل بادشاہ ہے جس کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری ہے اور رہ گئی پولیس تو بھئی یہ ان کی ذاتی غلام ہے۔تم میں اتنی جرأت کہ تم ایک عام آدمی ہو کر گو نواز گو کے نعرے لگاوٴ ۔
گو نواز گو، یہ نعرہ اتنا مقبول ہو گیا ہے کہ بچے بچے کی زبان پہ ہے یہ نعرہ ، گو نواز گو بظاہر نواز شریف کے خلاف ایک نعرہ ہے، مگر حقیقتاََ یہ نعرہ اس نظام کے خلاف ہے جس میں ، وڈیرہ شاہی ، گلو بٹی اور شاہانہ سوچ کے ذریعے عوام کو غلام بنا کے رکھ دیا گیا ہے، عوام پہ حکمرانی کے لئے، پولیس ، پٹواری اور دیگر اداروں کو غلام بنا کر اپنے سیاسی و ذاتی ملازم بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔


جمشید دستی بھی اسی گو نواز گو کا داعی ہے جو اب اس ملک کے بچے بچے کی آواز بنتا جا رہا ہے۔
جمشید دستی کو جھوٹے (جھوٹے نہیں بھی تو چھوٹے ضرور ہیں)کیسوں میں پھنسا کر پولیس گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسے بھوکا رکھ کر اس پہ تشدد کیا جا رہا ہے ،جمشید دستی تو پولیس گردی کا شکار ہو رہا ہے اسے جیل میں چوہوں اور بچھووٴں سے نوازا جا رہا ہے جب کہ دوسری طرف مجید اچکزئی نامی ایک شخص اسی پولیس کے ایک کارندے کو جانور کی طرح روندتا چلا جاتا ہے اور جب حوالات میں پہنچتا ہے تو اسے ائر کنڈیشنڈ کی باقائدہ سہولت عطا کی جاتا ہے اور کرشمہ دیکھیئے کہ اس کی صلح بھی کروا دی جا تی ہے۔یہی فرق ہے ایک عام آدمی اور ایک جاگیردار، وڈیرے، باورسرمایہ دار میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :