ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟

ہفتہ 22 جولائی 2017

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

آجکل پانامہ کیس اور جے آئی ٹی کو لیکر وہ دھول اڑائی جارہی ہے جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہاں ہر کوئی دوسرے کے کپڑئے اتارنے پر لگاہوا ہے جبکہ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے اور عملاً کبھی یہاں حقیقی احتساب کا نظام قائم ہوا تو یہاں کوئی بھی پارسا اور کسی کے تن پر کپڑئے نہیں رہیں گے اس کرپشن کے حمام میں سب ہی ننگے ہوں گے یہاں ایک ٹھیلے والے سے لے کر کسی بھی بڑئے ڈیپارٹمنٹل سٹور تک خاکروب اور ایک چپڑاسی سے لیکر اعلی سرکاری افسر تک کیا کوئی اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کرنے کی بات کر سکتا ہے ہم تو کہتے ہیں کہ جب بات کرپشن کے خاتمے کی ہی ٹھری تو پھر بسم اللہ کریں ہر شہری کو احتساب کے کٹہرئے میں لائیں کون کیا اور کس طرح کماتا ہے سب سے پوچھا جائے یہاں دبی دبی آواز سنائی دیتی ہے کہ کرپشن کی سزا موت ہونے چاہیے اگر ملک میں یہ قانون پاس ہو گیا تو پھر شائد ہی کوئی سر سلامت بچے گا۔

(جاری ہے)


کیسا تماشہ ہے جو ہر روز لگتا ہے اور ہرکوئی تماشائی ہے کیا اس ملک کے مسائل صرف پانامہ کے فیصلہ آتے ہی حل ہو جائیں گے جو کچھ یہاں ہو رہا ہے کیا دنیا بھر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا لوگ اس تماشے کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ لیکن میڈیا ہر شام منڈلی سجائے تماشہ دکھا رہا ہے جبکہ جن لوگوں کو ووٹ دیکر اسمبلیوں میں بھیجا گیا ہے وہ بھی اپنی اپنی دکان داری سجائے عوامی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، سیلاب سر پر ہیں پہاڑوں سے برف پگھل رہی ہے اور پانی ضائع ہو رہا ہے جبکہ پانی کی بوند بوند کو ترسنے کی نوید سنائی جارہی ہے بجلی کی کمی نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے اور بجلی کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ عام آدمی خود کشی پر مجبور ہو چکا ہے، سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ جاری ہے ،دنیا میں کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور وہ ہمارئے بارئے کیا سوچ رہے ہیں ہمیں کسی بات سے کوئی غرض نہیں ہمیں تو بس مخالفین کا پاجاما اتارنا ہے خواہ ہمارئے اپنے کپڑئے لیر و لیر ہوجائیں۔


لوٹ مار کے اس میلے میں کس کا دامن صاف ہے ہر شخص کو اپنی حیثیت اور قوت کے مطابق اپنا دامن، آنگن یا بینک کا کھاتہ بھرنے کی مکمل آزادی ہے۔ کسی نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ملک میں عام مزدور کی سرکاری اجرت 12 ہزار مقرر ہو اور جہاں نوجوان 5 ہزار روپے ماہانہ معاوضہ پر 12 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہوں، وہاں تین سے پانچ مرلے کا جھونپڑا نما مکان بنانے کیلئے لاکھوں نہیں کروڑوں میں بات کی جائے۔

کیا ملک کے کسی ماہر معاشیات نے یہ آسان تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ایک عام مزدور اپنی تجویز کردہ سرکاری اجرت پر کام کرتا ہے۔ اور اسے نہ بھوک لگتی ہے، نہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اس کے بچوں کو تعلیم کی حاجت ہے، نہ بیوی یا ماں بیمار ہوتی ہے، نہ اسے گیس، بجلی یا پانی کا بل ادا کرنا ہے اور نہ کام پر آنے جانے کیلئے بس یا ویگن کا کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ ہر ماہ اجرت میں ملنے والے 12 ہزار نقد کو جمع کرلیتا ہے تو اسے 50 لاکھ کا مکان خریدنے کیلئے 35 برس، 40 لاکھ مالیت کا زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے 27 برس اور کوئی جھگی نما جگہ کے 30 لاکھ روپے دینے کیلئے 21 برس انتظار کرنا پڑے گا۔

اس دوران املاک کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہوں گی، اس کا اندازہ کرنا بے مقصد ہوگا۔ دنیا بھر کی معیشتوں میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ رہائشی املاک کی قیمتیں لوگوں کی اوسط سالانہ آمدنی کے حساب سے ان کی دسترس میں ہوں۔ کمرشل یا سرکاری نگرانی میں کام کرنے والے ادارے اس بات کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹا بڑا گھر بنا سکے اور 25 سے 30 برس کے دوران اس کی قیمت مع سود ادا بھی کر سکے۔

لیکن پاک سرزمین میں سود کے خلاف حرام کے نعرے بلند کرکے املاک کا کام کالے دھن کو سمونے اور بٹورنے والوں کے حوالے کرکے ایک ایسی صورت پیدا کر دی گئی ہے کہ مزدور تو مزدو،ر ایک عام دفتری بابو یا سرکاری عہدیدار بھی ساری زندگی دیانتداری سے کام کرکے اپنا گھر بنانے کی امید قائم نہیں کر سکتا۔ لیکن اس مشکل کو حل کرنے کیلئے اس نظام میں ایسے بہت سے سوراخ فراہم کر دیئے گئے ہیں، جن سے ہر شخص حسب توفیق استفادہ کر سکتا ہے اور جس کی یہ اوقات نہ ہو اسے ایدھی یا اس قسم کے درجنوں خیراتی اداروں کے دستر خوان کی قطار میں کھڑا ہو کر بھوک مٹانے کی سہولت حاصل ہے۔

جانے کون کب اس سوال کا جواب تلاش کرے گا کہ اس قوم کو خیرات پر لگانے کا مزاج قومی سطح سے انفرادی سطح تک عام کرکے کون سی دینی یا قومی خدمت سرانجام دی گئی ہے۔ اب تو سرکار بھی اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور ہر قومی بجٹ کے موقع پر بتایا جاتا ہے کہ خیراتی منصوبوں میں کتنے ارب روپوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ لوٹ مار کرنے والے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کے نام پر بڑئے بڑئے دستر خوان لگانے والے سیاسی سماجی و مذہبی راہنماوں میں سے ایک فیصد سے بھی کم افراد ہوں گے جو ٹیکس دہندگان کے طور پر رجسٹر ہیں اور سرکاری خزانے میں آمدنی پر ٹیکس دینے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔

اور یہی قوم ہے جو اپنی عدالت عظمیٰ کے ذریعے اپنے وزیراعظم سے یہ حساب مانگنے پر اصرار کر رہی ہے کہ اس نے یہ کپڑئے اور یہ محل کیسے حاصل کئے ۔ تضادات اور منافقت زدہ اس قوم کی عدالتوں، میڈیا اور سماج میں تماشہ نہیں لگے گا تو اورکیا ہوگا۔
70برسوں میں ہم نے ایک دوسرئے کے کپڑئے ہی تو اتارئے ہیں جتنا وقت ہم نے ان کاموں میں لگایا ہے کاش اس سے بھی آدھا وقت ہم ملک کے نظام کو درست کرنے کی طرف لگاتے تو آج کوئی کسی سے اس کے پہنے ہوئے کپڑوں اور رہنے سہنے کا احساب نا مانگتا لیکن کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ ہم آئندہ ملک میں کسی ایسے نظام کو بنانے اور مظبوط کرنے میں اپنی صلاحتیوں کو صرف کرٰں گے جس میں کوئی کسی کی جانب انگلی نہ اٹھا سکے؟ ،موجودہ سیاسی رجیم میں تو کوئی ایسا رجل رشید نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی مایوس نہیں ہوں میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :