کمیشن پر کمیشن

ہفتہ 22 جولائی 2017

Hussain Jan

حُسین جان

پورئے گاؤں کو سبز،لال اور سفید جھنڈیوں سے دُلہن کی طرح سجھایا گیا تھا۔ ہر طرف بھاگ دوڑ اور ہاہا کار مچی ہوئی تھی۔آج گاؤں میں چوہدری صاحب کا جلسہ جو تھا۔ پورے پانچ سال بعد گاؤں والوں کوچوہدری صاحب کا دیدار ہونا تھا اس لیے سب کے سب بہت پرجوش تھے۔ تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ اور لوگ بے صبری سے اپنے ہر دل عزیز لیڈر کا انتظار کر رہے تھے۔

تھوڑی ہی دیر میں مائیک پر چوہدری صاحب کی آمد کا علان ہو رہا تھا۔ لوگ اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب ہو رہے تھے اور دھکم پیل عروج پر تھی۔ چوہدر ی صاحب بڑی آن بان اور شان سے اپنے لیے پھولوں سے سجھائی گئی سٹیج پر براجمان ہوئے۔ ایک چمچے نے علان کرتے ہوئے صاحب کو تقریر کی دعوت دی۔ چوہدری صاحب نے سپیکر ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمایا کیا لاکھوں کے اس جم غفیر میں ایسا کوئی بندہ بھی ہے جس کے مسائل حل نہ ہوئے ہوں یا جو میری پانچ سالہ کارگردگی سے ناخوش ہو۔

(جاری ہے)

موچی اللہ داد کا لڑکا ابھی حال ہی میں شہر سے واپس آیا تھا کچھ پڑھا لکھا بھی تھا۔ لہذا اُس نے ہاتھ کھڑا کیا کہ اپنے مسائل بیان کرے۔ چوہدری جی نے فورا کہا اُوئے تو بے جا ایڈا تو نواب دا پتر۔ یہ سنتے ہی لڑکا فوران گم سم بیٹھ گیا۔ پھر پوچھا گیا ہاں بھئی ہے کوئی جس کے مسائل باقی ہوں تو کوئی بھی نہیں اُٹھا ۔ صاحب نے باچھیں پھیلا کر کہا دیکھا میں نے لوگوں کے سارے مسائل حل کر دیے ہیں ۔

لہذا اگلی باری بھی مجھے ہی ووٹ دینا۔ سمجھ گئے ہونا یا سمجھانا پڑے گا۔ سب نے زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
حمود الرحمن کمیشن بنا، ایبٹ آباد پر امریکی حملے پر کمیشن بنا۔ سانحہ کوئٹہ پر کمیشن بنا۔ ماڈل ٹاؤن پر کمیشن بنا۔ ایان علی پر کمیشن بنا۔ سانح شرقیہ پر بھی ایک عدد کمیشن بنا۔ اور پھر تمام کمیشنوں کی رپورٹوں کو سرد خانے میں دبا دیا گیا۔

میڈیا کے جمورے روز ان کمیشنوں کی رپورٹوں کوپبلک کرنے کے لیے شور مچانے لگے لیکن وہ منظر عام پر نہیں آئیں۔ اچھا ہی ہوا کہ نہیں آئیں ورنا اُن کا بھی پاناما کمیشن رپورٹ والا حشر ہونا تھا۔ یعنی پہلے کمیشن بنایا گیا کہ کوئی مسئلہ ہے تو ڈھونڈا جائے ۔ جب مسئلہ سامنے آجاے تو اُسے فورا جھوٹا قرار دے جاے ۔ جیسے چوہدری صاحب نے موجی کے بیٹھے کو بٹھا دیاتھا۔


اب سپریم کورٹ بھی کہ رہی ہے کہ ضروری نہیں کہ ہم کمیشن کی سفارشات پر فیصلہ کرئیں۔ جب یہ کمیشن بنا تو پوری ن لیگ نے مٹھیایاں بانٹی اتنی بانٹیں کہ ملک میں مٹھایاں ناپید ہو گیں۔ اب جب کمیشن نے رپورٹ پیش کر دی تو ہی لیگ اور اُن کے وزاء اُس رپورٹ کو رد کرتے دیکھائی دے رہے ہیں ایک صاحب نے تو یہاں تک کہ دیا ہے ک یہ رپورٹ طاہر القادری نے لکھی ہے۔

یعنی سپریم کورٹ کی کوئی اوقات نہیں کہ جس کی بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو رد کردینا اتنا آسان ہو۔ اس سے اچھا تھا کہ یہ کمیشن ہی نہ بنایا جاتا۔ دوسری طرف حکومتی ارکان کو اس رپورٹ کی آڑ میں سازش نظر آرہی ہے۔ لو کر لو گل اس سے زیادہ اور بھونڈ ا مذاق کیا ہوسکتا ہے اس قوم کے ساتھ۔ اس پاناما کے سیاپے میں عوامی مسائل کہیں بہت پیچھے راہ گئے ہیں۔


روزانہ ایک گروہ حکومت جانے کی باتیں کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا گروپ حکومت کے مزید مستحکم ہونے کی نوید سناتا ہے۔ سیاست کی آڑ میں جو گھناؤنا کھیل اس قوم کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے کھیلا جا رہا ہے اُس کی کسی دوسرے ملک میں نظیر نہیں ملتی۔ شیخ رشید صاحب فرماتے ہیں کہ حکومت بس گئی کہ گئی۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو تھڑے کی سیاست کرتے ہیں۔

اور غریب پرور آدمی ہیں۔ ملک کے نامور صحافی سہیل وڑائچ کے ساتھ ان کا پروگرام دیکھ لیں پتا چل جائے گا کتنے غریب ہیں۔ کھابے کھانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں وزیر آعظم کو کسی دور میں امیر المومنین کا خطاب بھی انہی صاحب نے دیا تھا۔ یہ ایک سیٹ کا بندہ سب پر اس لیے بھاری پڑ رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ بیٹھا ہے ورنہ اس کی اکیلے کی کیا اُوقات۔


دوسری طرف حکومتی وزراء عوامی مسائل کو چھوڑ کر روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے چکر لگاتے ہیں۔ ریلوئے، پی آئی اے، سٹیل مل جیسے ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ وزراء استفے دے رہے ہیں کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں۔ تمام اختیارات ایک گھرانے کی باندی بن چکے ہیں۔ پولیس کا کام عوام کی خدمت ہوتا ہے لیکن عوام کو چھوڑ کر یہ بڑئے بڑے لوگوں کی حفاظت پر مامور ہے۔


یہ جے آئی ٹی کا مذاق چھوڑیں اور سپریم کورٹ کو بھی چاہیے جو بھی فیصلہ سنانا ہے جلد ازجلد سنائے ۔ کبھی کہتے ہیں کیس ٹرائل کی طرف جائے گا کبھی کہتے ہیں نیب کو بھجوایا جائے گا۔کبھی جے آئی ٹی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جناب قوم کا وقت اور پیسہ برباد مت کریں خدا کے لیے جلد فیصلہ دیں ۔ کہیں حکومتی وزراء کے بیانوں نے آپ کو ڈرا تو نہیں دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :