جھوٹ کا مقابلہ

جمعہ 21 جولائی 2017

Afzal Sayal

افضل سیال

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا ،،میرا ملک پاکستان اسلام کے نام پرآزاد ہوا یہ بیس کروڑ مسلمانو کے ملک نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ، تاریخ کے اوراق پڑھ کر ہمیں سیاست کوسمجھنے میں مدد تو ضرور ملتی ہے لیکن جس نظریہ اسلام پر یہ ملک بنا تھا اس نظریہ کو پہلے تو مدنظر ہی نہیں رکھا گیا اگر کسی نے کچھ حصہ پر عمل کیا ہے تو اپنے اقتدار کو تول دینے یا اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کے لیے ، ذاتی مفاد کی خاطر نظریہ کو ایک ٹشو پیپر سمجھا گیا ۔

۔۔۔۔ تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کے ہر سول اور فوجی حکمران نے نظریہ پاکستان کی بجائے نظریہ ضرورت پر عمل کیا اور یہ روایت آج بھی جاری ہے ،عوام کے ساتھ جھوٹ غلط بیانی سے ڈنگ ٹپاو پالیسی پرعمل کیا گیا ، ہماری سیاسی تاریخ اتنی بھیانک ہے کہ ہر سول یا فوجی حکمران نے اس ملک کے قانون کی گھر کی لونڈی سمجھا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کے عوام بھی اپنی اقدار کی پستی ،نظریہ پاکستان اورنظریہ اسلام کی تعلمیات کے آخری درجے پر پہنچ چکی ، بدیانتی ، فریب ، چوری ،وعدہ خلافی ، انا پرستی ، کرپشن ،اخلاقیات اور جھوٹ ہمارے نزدیک کوئی جرم نہیں رہا ، مثال کے طور پر کچھ دن قبل پاک فوج کے زیر اہتتمام ایک فٹ بال میچ ہوا لاہور میں عوام نے 5ہزار سے لیکر 10ہزار تک ٹکٹ خریدے اور جاتے ہوئے کرسیوں پر رکھا فوم جس کی قیمت 200کے لگ بھگ ہوگی ساتھ لے گئے ، کچھ روز قبل رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کی پنجاب اسمبلی میں اور فرمایا کے اگر صادق اور امین کے میرٹ پر فیصلہ ہونا ہے تو ملک کے تمام ایوانوں میں تقریبا ایک ہزار کے لگ بھگ ممبران قومی و صوبائی و سینٹ ہوں گے کوئی بھی صادق اور امین نہیں ہے ، اس میں انہوں نے ججز جرنیل ، بیوروکریٹ ، والا جاوید ہاشمی کے بیان کی بھی تائید کی اور فرمایا کے ہم سب نے ایک بیان حلفی دیا ہوا ہے جس میں درج ہے کے الیکشن میں 10لاکھ تک خرچہ کیا ہے ،، یہ بیان حلفی سب ممبران نے جھوٹا جمع کروایا ہوا ہے ، کیونکہ الیکشن پر خرچ اس سے سے کہیں زیادہ ہوا ہے ، کسی حد تک وہ سچ کہ رہا تھا ایسا ہی ہے ،،افسوس ان حکمرانو نے اس قوم کےاقدارکو کس نہج پر پہنچا دیا ہے گویا 20کروڑ کے ملک میں کوئی بھی صادق اور امین نہیں رہا ،، پانامہ پیپرز پر جے آئی ٹی روپورٹ کے بعد اگر عوام کے تاثرات ، سیاست دانوں کے بیانات ، ملک کا ذرائع ابلاغ ، سوشل میڈیا پر سرسری سے نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے جھوٹ کا مقابلہ ہورہا ہے،،،پانامہ پیپر آنے سے پہلے مریم نواز کا بیان کے میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ۔

(جاری ہے)

پتہ نہیں یہ لوگ میری اور میرے بھائیوں کی پراپرٹی کہاں سے نکال لائے ہیں ،، حسین نواز کا انٹرویو الحمداللہ وہ فلیٹ ہمارے ہیں ، وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں خطاب یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹ خریدے ، پھرشریف فیملی سپریم کورٹ میں تمام بیان سے مکر گئی اور ایک قطری کا خط آ گیا ، المیہ دیکھیں یہ قول وفعل کا تضاد بھی عوام کو نظر نہیں آ رہا ،، جے آئی ٹی رپورٹ نے تو ان شرفا کے منہ سے صادق اور امین کی چادر نوچ لی ہے ،،لندن فلیٹ کی خریداری پر چوہدری نثار ، صدیق الفاروق کا بیان تو یاد ہو گا قوم کو اب وفاقی وزیر برجیس طاہر نے بھی پریس کانفرنس میں کہ دیا کے لندن فلیٹ 1992میں وزیر اعظم نواز شریف نے خریدے تھے اور 1993میں انکی حکومت ختم کردی گئی ، پاکستان کا جو اسلامی نظریہ پر بنا آج اسکی عوام اور برسراقتدار حکمرانو بیورو کریسی کا لیول اتنا گہر چکا ہے کے چوری ، ڈکیتی ، جھوٹ ، وعدہ خلافی اخلاقیات ہمارے نزدیک کوئی جرم نہیں رہا ،، غور کریں وزیر اعظم کی کیبنٹ میٹنگ میں 150 کے لگ بھگ عوام کی نمائندگی کا دعوی کرنے والے موجود تھے لیکن کسی نے جرت نہیں کی اپنے گارڈ فادر سے پوچھ لیتے کے جناب اپنے اور اپنی فیملی کے پاناما پر مختلف بیانات کی ہی وضاحت کردیں ۔

۔۔ کرپشن کا ناسور سیاست دانوں ، جرنیلوں ، ججز ، بیوروکریسی ، حتی کہ ایک تھانیدار نے بھی عوام کی جیب پر ہاتھ صاف کیا نتیجہ یہ نکلا کے اب عوام اس جرم کو جرم بھی نہیں سمجھتی یہ المیہ ہے ،،یوں لگتا ہے عوام خود اپنے حقوق سے دستبردار ہو چکی ہے ،،، غربت کے ہاتھوں سسک سسک کے مرنا ، ہسپتال میں ٹھنڈے فرش پر مرنا ، ہر محکمہ کے افسر کے ہاتھوں لٹنا ، ڈکیتیوں ، دہشت گردی ، بے روزگاری ، تعلیم ، انصاف ، گندہ پانی جیسے مسائل اس بیمار قوم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت میں لکھ دیے ہیں ،،اللہ کی سچی کتاب قرآن مجید میں اللہ نے سورۃ الرعد سپارہ نمبر 13 آیت نمبر 11 میں فرمایا ،،،اسکا ترجمہ علامہ اقبال نے کچھ یوں کیا ،،، خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نا ہو جس کو خیال ٓپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔

۔۔۔۔ ایک اور حدیث اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا جیسی قوم ہوگی ویسے ہی اللہ ان پر حکمران بیٹھا دیگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :